اپنی اساس سے ہٹنے اور بدعہدی کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
ہر پاکستانی کی طرح میں بھی پاکستان کے معاشی مسائل، معاشرتی اقدار کی پامالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہو کر سوچتا رہتا ہوں کہ آخر کیوں قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان ان حالات سے دوچار ہوا؟ یہی سوال اپنے مرشد و مربی باباجان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سے ہمیشہ پوچھتا رہتا تھا اور آج بھی اہل علم و نظر رجال اللہ سے پوچھتا رہتا ہوں۔
باباجانؒ سمیت تقریباً تمام کے جوابات کا خلاصہ ہے کہ "ہم بحیثیت قوم نظریہ پاکستان سے غداری اور اللہ رب العزت سے بدعہدی کے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں"۔ مگر یہاں داعی قرآن، مبلغ اسلام ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے نقطۂ نظر پر بات مناسب ہوگی کیونکہ ان کا کہا سب کچھ ان کی زبانی ریکارڈیڈ ہے اس لیے مزید کسی سند کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے انتقال کو 14 برس بیت چکے ہیں مگر وہ اپنی زندگی میں جتنے مقبول تھے وفات کے بعد اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جو اس سے جڑجاتا ہے قرآن اسے زندگی کے علاوہ مرنے کے بعد بھی بلندیوں پر لے جاتاہے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بیانات خصوصاً ان کی پیش گوئیوں پر مبنی کلپ سچ ثابت ہونے پر بہت تیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک کلپ میرے سامنے آیا جسے سن کر مجھے اس میں میرے مرشد و مربی باباجان حضرت ڈاگئی باباجیؒ، مفتی زر ولی خان صاحبؒ، شامنصور کے شیخ شمس الہادیؒ اور پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہم کے نقطۂ نظر کی جھلک نظر آئی۔
اس 20 سال پرانے کلپ میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ بتا رہے ہیں کہ " 4سال قبل کسی نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے؟ جس پر میرا جواب تھا، ہاں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کی بنیادی وجہ کھو چکا ہے، پاکستان کسی نسلیت، کسی لسانیت اور کسی قومیت کی بنیاد پر نہیں بنا تھا، یہ تو اسلام کے نام پر بنا تھا۔ تقسیم ہند تاریخ انسانی کی عظیم تقسیموں میں سے ایک تقسیم تھی۔
لاکھوں انسان مارے گئے تھے، کروڑوں انسانوں نے ہجرت کی ، اِدھر سے لوگ اْدھر گئے، اْدھر سے لوگ اِدھر آئے۔ یہ سب کچھ کس لیے تھا؟ صرف اسلام کے لیے۔ ظاہر ہے یہ ایک نظریاتی ریاست تھی لیکن یہاں وہ نظریہ آیا نہ اس کو تقویت دی گئی اور نہ اسے نافذ کیا گیا، درحقیقت پاکستان اپنی وجہ تخلیق کھو چکا ہے، اس اعتبار سے کئی سال پہلے یہ ملک ایک ناکام ریاست ثابت ہوچکا ہے۔ بس میں آپ کو یاد کرارہا ہوں کہ پاکستان کی وجہ تخلیق ختم ہوچکی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم نے اللہ سے جو بدعہدی کی اس کی سزا ہمارے اوپر مسلط ہوچکی ہے۔ ایک معنوی سزا ہے، وہ فیزیکل نہیں ہے،نفاق ہمارے دلوں کے اندر پھیلا دیا گیا ہے، مسلمانان پاکستان دنیا کی منافق ترین قوم ہے۔ اللہ کا قاعدہ ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا کہ "جب کوئی قوم اللہ سے عہد کرتی ہے اور اس کے بعد وہ قوم وعدہ خلافی کرتی ہے تو ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نفاق پیدا کر دیتا ہے"۔ ہمارے درمیان اس نفاق کی وجہ سے باہمی مخالفتیں ہوگئیں اب ہم قوم نہیں، قومیتوں میں بٹ چکے ہیں۔ وہ قوم جو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک تھی، اب وہ قوم کہاں ہے؟
اب اْنہیں ڈھْونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر
قوم کا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے، قومیتوں اور عصبیتوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ علاقائیت ہے، نسلیت ہے، لسانیت ہے مگر قومیت نہیں اس اعتبار سے یہ نفاق باہمی، نفاق کی ایک شکل ہے۔ نفاق کے بعد دوسرا نمبر اخلاقیات کا ہے جس کا جنازہ اس ملک میں نکل چکا ہے۔ یہ بھی اسی نفاق کا نتیجہ ہے، سب سے بڑی منافقت کی علامت ہمارا دستور ہے، کہنے کو سارا اسلام اس میں لکھا ہوا ہے مگرحقیقت میں زیرو ہے۔ تمام اسلامی شقیں غیر موثر ہیں۔ ان کے موثر ہونے کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی۔
اس میں لکھا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا، مگر اسے بھی اسلامی نظریاتی کونسل سے منسلک کر دیا گیا، وہ اپنی سفارشات دیتی رہے گی، رپورٹوں کے انبار لگ گئے، الماریاں بھر گئیں، مگر کوئی ایک رپورٹ بھی آج تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوئی۔ کسی ایک رپورٹ کی بنیاد پر قانون سازی نہیں ہوئی۔ معنوی سزا بھی ہم بھگت رہے ہیں اور اللہ کے عذاب کی صورت میں فیزیکل عذاب بھی بھگت رہے ہیں، ایک عذاب 1971ء میں آیا تھا جب ملک دو لخت ہوگیا تھا۔ میں دس پندرہ سال سے جھنجھوڑ رہا ہوں کہ ہوش میں آؤ، تباہی و بربادی تمہارے دروازے پر کھڑی ہے"۔
بلاشبہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہمیں مسلسل جھنجھوڑتے رہے مگر ہم آج تک غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہونے کا سانحہ ہوا تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھے مگر ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔
پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" کے نعرے پر پورے ہندوستان کے مسلمان یک جان و یک آواز ہوکر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر حصول آزادی کے لیے بیک وقت انگریز اور ہندوؤں سے ٹکرا گئے اور صرف سات سال کے عرصے میں کلمہ طیبہ کی برکت سے منزل مقصود پا گئے اور منزل مقصود کیوں نہ پاتے جب اسلام ان کی منزل، ان کی جان، ان کی پہچان، ان کی شناخت اور نصب العین تھا۔ "لاالہ الا اللہ" کا نعرہ ہی نظریہ پاکستان تھا۔
اسی پر پاکستان بنا اور قائم ہوا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دو حصوں پر مشتمل ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں ازلی و ابدی دشمن بھارت تھا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں کے زبان و مزاج، طرز زندگی اور تہذیب و ثقافت ایک دوسرے سے مختلف، کھانا اور پہناوا مختلف تھا، صرف کلمہ طیبہ وہ قدر مشترک تھی جس نے اس قدر تفریق کے باوجود دونوں خطوں کے رہنے والوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اور انھوں نے مل کر پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔ کلمہ طیبہ کے نام پر ملک تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقصد کے لیے ملک لیا گیا تھا اسے مکمل نظر انداز کیا گیا اس لیے درست کہا ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے کہ جب پاکستان اپنے تخلیق کی وجہ کھو بیٹھا تو 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا۔
آدھا ملک گنوانے کے باوجود ہم ہوش میں نہ آئے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی تشخیص سوفیصد درست تھی، انھوں نے صرف تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا، علاج بھی بتایا تھا۔ ان کی ایک کتاب"استحکام پاکستان" کے نام سے 1992ء میں شایع ہوئی تھی، اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کہا تھا کہ "امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کو قومِ یونسؑ کی طرح توبہ کرنے کی توفیق ہوجائے تو عذاب ٹل جائے گا"، لیکن انھوں نے اس کتاب میں ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ "یہ ایک مشکل بلکہ ایک ناممکن کام ہے۔
ہم نے بہت سارا وقت اللہ سے کیے وعدے سے روگردانی میں گزار دیا، اب ہمیں توبہ کرنی اور اللہ سے کیا گیا وعدہ پورا کرکے اس ناممکن کو ممکن بنانا ہوگا جس کا ڈاکٹر اسرار احمدؒ بتا کر چلے گئے۔ آج بھی کلمہ طیبہ اور نظریہ پاکستان کی طرف صدق دل سے رجوع پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام، سلامتی کا ضامن اور اس کے ازلی دشمنوں سے مقابلے کے لیے بہترین ہتھیار ہے۔ کیا ہوا، اگر دشمن تعداد میں زیادہ اور طاقتور ہے، دشمن اُس وقت بھی زیادہ طاقتور اور مسلمانوں کو مٹانے اور جھکانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم اور پاکستان قائم ہو مگر اللہ رب العزت کے فضل اور کلمہ طیبہ کی برکت سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت پورے ہندوستان میں صرف آٹھ کروڑ مسلمان تھے اور آج صرف پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد 25کروڑ ہے مگر دشمن آج بھی چاہتا ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے مگر اگر ہم نے توبہ و استغفار سے رب کو راضی کیا تو پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھنے والے خود مٹ جائیں گے اور پاکستان تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ انشاء اللہ۔ نظریہ پاکستان یعنی "لاالہ الا اللہ" کی طرف رجوع ہمیں کامیابیوں، کامرانیوں اور رفعتوں کی طرف لے جائے گا۔ اس کے علاوہ ہر راستہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر اسرار احمد نظریہ پاکستان پاکستان کے کلمہ طیبہ انھوں نے رہے ہیں اللہ سے کے لیے کی وجہ کے نام ہے مگر چکا ہے کے بعد
پڑھیں:
انشاء اللہ چیزیں بہتر ہو جائیں گی، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کہ میں اس وقت چیف جسٹس نہیں ہوں، جسٹس منصورعلی شاہ
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جنوری2025ء)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ان شاء اللہ چیزیں بہتر ہو جائیں گی، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کہ میں اس وقت چیف جسٹس نہیں ہوں، میں اس وقت سینئر پیونی جج ہوں اور اس میں ہی خوش ہوں، وکلا میں ناانصافی کیخلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ ہونا چاہیے،مظلوموں کی آواز بننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔جمعرات کوکراچی بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداران کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اس وقت سینئر پیونی جج ہوں اور اس میں ہی خوش ہوں، مجھے کوئی شکوہ نہیں کسی سے کہ میں اس وقت چیف جسٹس نہیں ہوں۔اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان بہت اچھے ہیں ان کے لیے دعاگو ہوں۔تقریب حلف برداری سے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حلف صرف الفاظ نہیں ہے، یہ بہت گہرے معنی رکھتے ہیں، اس کے ذریعے ہم اپنی روح پر ایک ذمہ داری عائد کر رہے ہیں کہ ہم انصاف، سچائی اور قانون کی حکمرانی کا کام کرنا ہے، ہم ایک پابندی کا حلف اٹھا رہے ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ حلف صرف آپس کی بات نہیں ہوتی، اس میں اللہ تعالی بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جان کر حلف لیا جاتا ہے، یہ حلف ایک سمت نما ہے جو بتاتا ہے کہ مشکل صورتحال کا کیسے سامنا کرنا ہے، انہوں نے مشورہ دیا کہ جب بھی مشکل پیش آئے، حلف پڑھ لیا کریں تو سارے معاملے حل ہوجائیں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حلف صرف ایک وعدہ نہیں ہے، یہ بہت مقدس عہد ہے جو آپ نے اللہ کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے ضمیر کے ساتھ کیا ہے، اس کو توڑنا نہیں ہے، اگر حلف توڑتے ہیں تو سارا نظام ہی ٹوٹ جاتا ہے، اگر حلف کے ساتھ کھڑے رہیں تو کبھی کوئی مسئلہ نہیں آئے گا۔انہوں نے کہا کہ لارڈ اسٹامس مور نے اپنی ناول میں لکھا ہے کہ حلف ایسے ہی ہے جسے ہاتھ میں پانی لے کر کھڑے ہیں، حلف کو سنبھالنا ہے تو پھر ہاتھ نہیں کھولنا اسی طرح رکھنا ہے۔انہوں نے کہاکہ کہ قانون کا شعبہ علم و دانش سے تو تعلق رکھتا ہی ہے، علم و دانش تو ہونی ہی چاہیے لیکن اگر جرات نہیں ہے تو پھر وکیل نہ بنیں، جرات ہی اصل کہانی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ پر دبائو آئے گا، لالچ دی جائے گی، بہت سی چیزیں ہوں گی لیکن حلف کو نہیں چھوڑنا۔اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے شاعر مشرق علامہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر بھی پڑھا کہ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں،کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اورقبل ازیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداران سے حلف لیا۔ اس موقع پر وکلا نے جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں فلک شگاف نعرے بھی لگائے۔