Express News:
2025-01-30@15:08:04 GMT

پاکستان امریکا تعلقات کا نیا موڑ

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

پاکستان میں بیٹھ کر بہت سے لوگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے کی جو بھی کوشش کر رہے ہیں، اس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔

مسئلہ محض صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں ہے بلکہ سابق صدر بائیڈن کی اپنی انتظامیہ کے دور میں بھی تعلقات مثالی نہیں تھے۔جن لوگوں کا خیال تھا کہ بائیڈن کے دور میں پاکستان امریکا کے درمیان کچھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی جو پاکستان کے حق میں ہوں گی مگر ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل سکا۔بائیڈن انتظامیہ نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں کسی بھی پاکستانی رہنما سے کوئی براہ راست بات چیت نہیں کی اور نہ ہی ان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کرنا مناسب سمجھا۔امریکا کی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بہت سے سکہ بند دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکا کی ضرورت پاکستان نہیں ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ بھی پاکستان کے ساتھ وہ کچھ نہیں کرے گی جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ ایک سوال پاکستان امریکا کے درمیان افغانستان کے حالات ہیں۔امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکا کا بڑا انحصار پاکستان پر کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارتی یا ڈپلومیسی کی سطح پر بہت زیادہ گفتگو دیکھنے کو نہیں مل سکی ۔ خود نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بہت زیادہ پاکستان کے تناظر میں گفتگو نہیں کی جو امریکی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔

 اگر امریکا بھارت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے یا اس کی توجہ کا مرکز ہے تو اس کی وجہ چین کے ساتھ امریکا کے نئے تعلقات ہوں گے۔جب کہ خود پاکستان کا بھی انحصار اس وقت چین پر ہے اور خاص طور پر سی پیک یعنی چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کے تحت اربوں ڈالر کے چینی منصوبے کی شراکت داری کا ثبوت ہیں۔امریکا میں بہت سے لوگ پاکستان کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

پاکستان میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکا کی طرف سے پاکستان چین تعلقات کے تناظر میں بہت زیادہ دباؤ کا سامنا دیکھنے کو مل سکتا ہے۔حالانکہ ہم یہ نہیں چاہتے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ امریکا اور چین کے درمیان ایک توازن پر مبنی سفارتی کاری اختیار کرے اور یہ تاثر نہ دے کہ ہم کسی ایک ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔کیونکہ خطرہ یہ ہے کہ اگر امریکا کی طرف سے ہم پر دباؤ آتا ہے اور چین پر مبنی پالیسی پر امریکا کے تحفظات سامنے آتے ہیں تو ایسے میں ہمیں معیشت کے میدان میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اب افغانستان کے حالات بھی بدل گئے ہیں اور طالبان حکومت کا بہت زیادہ انحصارہم سے زیادہ بھارت پر ہے۔اسی طرح پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کوئی درمیانی راستہ اختیار کرے گا۔کیونکہ پاکستان کئی برسوں سے سنجیدہ کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آئے۔لیکن بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اور بالخصوص کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی۔مگر بھارت کی طرف سے اس پر کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا تھا۔اسی طرح بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں پاکستان کی داخلی سیاست بھی اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔

بہت سے لوگوں نے بانی پی ٹی آئی کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے کافی امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔بظاہر ایسا کوئی ممکن نظر نہیں آتا کہ نئے امریکی صدر براہ راست بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کوئی بڑا کردار ادا کریں گے۔البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اس کام میں سفارت کاری کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے کے درمیان امریکا کی امریکا کے بہت زیادہ دیکھنے کو کی طرف سے میں بہت نہیں مل بہت سے

پڑھیں:

جب وقت پر اسٹیڈیم تیار نہ کرنے پر بھارت پوری دنیا کے سامنے شرمندہ ہوا

’ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکا، اس لیے ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ اب ایڈن گارڈن میں نہیں ہوسکتا‘۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے یہ اعلان کب اور کیوں کیا، اس کی تفصیل کچھ دیر بعد، مگر اس سے پہلے ہم آپ کو پڑوسی ملک بھارت کے پروپیگنڈے سے متعلق آگاہ کرتے ہیں اور پھر یہ بتاتے ہیں ٹھیک 13 سال قبل بی سی سی آئی اپنے ملک بھارت کے لیے کتنی بڑی رسوائی کا سبب بنا تھا۔

تو بات یہ ہے کہ تقریباً 28 سال بعد پاکستان کو جب آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی ملی تو پاکستان نے بہترین انتظامات اور شاندار میزبانی کے لیے اپنے اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش اور اسے نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے یہ اعلان کیا کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا جبکہ کراچی اور راولپنڈی میں جزوی تبدیلیاں کی جائیں گی۔

جب یہ اعلان ہوا تو چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد میں چند ہی ماہ تھے اور ابتدا میں لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگیا ہے اور اتنے مختصر وقت میں یہ سب ہونا ناممکن ہے۔

پھر اس حوالے سے پڑوسی ملک بھارت سے خاص انداز میں پروپیگنڈے کا آغاز ہوا اور  اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو وعدہ پی سی بی نے کیا تھا، وہ اب مکمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

یہ دعویٰ میں نہیں کررہا یا پاکستان کا میڈیا نہیں کررہا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا وفد ان اسٹیڈیمز کا جائزہ لے چکا ہے اور اب تک کی ہونے والی تمام پیشرفت سے مطمئن بھی ہے۔ یعنی 19 مارچ کو چیمپیئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ طے شدہ شیڈول کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہی ہوگا، جو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس خوشخبری کو سننے کے بعد چلتے ہیں ٹھیک 13 سال پہلے آئی سی سی کے اس فیصلے کی طرف جو پوری دنیا میں بھارت کے لیے رسوائی کا سبب بنا تھا۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ 2011 کے ورلڈ کپ کی میزبانی بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے حصے میں آئی تھی، اس میں پاکستان کا نام بھی ہونا تھا مگر بدقسمتی سے امن و امان کے مسائل کے سبب ہم اس ایونٹ کی میزبانی سے محروم ہوگئے۔

بہرحال، تو بات یہ تھی کہ 27 فروری 2011 کو بھارت بمقابلہ انگلینڈ کا افتتاحی میچ ایڈن گارڈن میں طے ہوا مگر اس حوالے سے حیران کن بات یہ تھی کہ جب یہ سب کچھ طے ہوا اس وقت کلکتہ کا ایڈن گارڈن مکمل طور پر کھدا ہوا تھا اور بار بار ڈیڈلائن کو آگے بڑھانے کے باوجود بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

17 دسمبر 2010 کو کرس ٹیٹلے کی سربراہی میں آئی سی سی کی جائزہ کمیٹی نے اسٹیڈیم کا دورہ کیا اور وہاں کی صورتحال دیکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ آئی سی سی وفد کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو 15 جنوری تک بھی کام مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اور ہوا بھی بالکل ایسا ہی۔

دوسری طرف بھارت کا یہی خیال تھا کہ وقت پر کام مکمل ہوجائے گا مگر جب ایونٹ شروع ہونے سے چند دن قبل یعنی 27 جنوری 2011 کو آئی سی سی وفد نے دوبارہ اسٹیڈیم کا دورہ کیا تو اسے تعمیراتی کام کی پیشرفت دیکھ کر ایک پھر مایوسی ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب اسے یقین ہوگیا کہ وقت پر اسٹیڈیم تیار نہیں ہوسکتا جس کے بعد آئی سی سی نے باقاعدہ یہ اعلان کردیا کہ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ کا میزبان اب ایڈن گارڈن نہیں ہوگا۔

آئی سی سی کے چیف ایکزیگٹیو ہارون لوگارٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ مکمل نہیں کرسکا اور بار بار تاریخ آگے بڑھنے کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ یہ کام وقت پر مکمل نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ آئی سی سی کے اس فیصلے نے پوری دنیا میں بھارت کو شرمندہ کیا اور ساتھ ان ہزاروں لوگوں کو بھی مایوس کیا جو افتتاحی میچ دیکھنے کے لیے تیار تھے۔

اب دونوں ممالک کے رویے میں ایک اور فرق یہ بھی دیکھیے کہ پی سی بی نے صحافیوں کے لیے اسٹیڈیم میں آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ روزانہ کیا گھنٹوں کی بنیاد پر اسٹیڈیمز سے تازہ ترین صورتحال لوگوں کو بتائی جارہی ہے، مگر دوسری طرف بھارت نے اس وقت ایڈن گارڈن میں صحافیوں کی انٹری پر پابندی لگائی ہوئی تھی کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اگر ٹھیک صورتحال میڈیا پر آگئی تو اسے مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ایڈن گارڈن کو 3 میچوں کی میزبانی کرنی تھی مگر پھر یہ افتتاحی میچ کی میزبانی کا اعزاز بینگلور کو مل گیا۔

تاریخ کا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ بھارت کے لیے بدنما داغ رہے گا اور پاکستان کے خلاف بڑھتے پروپیگنڈے کی وجہ بھی یہی ہے کہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ جس سبکی کا سامنا اسے 13 سال قبل ہوا تھا وہی پاکستان کو بھی ہو، مگر پاکستان نے جو وعدہ کیا تھا اب وہ پورا ہونے کے قریب ہے اور 19 فروری کو چیمپئنز ٹرافی کا شاندار افتتاحی میچ ہم ضرور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوتا دیکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فہیم پٹیل

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امداد کی بندش کے معاملے پر امریکی حکام سے رابطے میں ہیں، دفتر خارجہ
  • پاک امریکا تعلقات دہائیوں پرمحیط ،اربوں ڈالر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیںِسربراہ امریکی سرمایہ کا وفد
  • رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیاتھا: سربراہ امریکی سرمایہ کار وفد ،پاک امریکہ تعلقات کو ناگزیر قرار دیا
  • جب وقت پر اسٹیڈیم تیار نہ کرنے پر بھارت پوری دنیا کے سامنے شرمندہ ہوا
  • داخلی سیاست پر مبنی بھارتی خارجہ پالیسی ایک بڑی کمزوری ہے
  • پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ، پاکستان کیلئے امدا د بند، کئی منصوبے ٹھپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نریندر مودی کو فون، دو طرفہ تعلقات پر گفتگو
  • چین اور بھارت کا 5 سال بعد براہ راست پروازیں شروع کرنے پر اتفاق
  • پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر ہے،بھارت