Express News:
2025-01-30@14:56:07 GMT

کتاب اور دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ڈاکٹر چارلس ڈارون (1809-1889) کے نظریہ ارتقاء کے تحت چمپنز سے انسان ارتقاء پذیر ہوا۔ انسان جب غاروں میں رہتاتھا تو ابلاغ کا ارتقاء شروع ہوا۔ انسانوں نے پہلے اشاروں کے ذریعہ اپنا خیال دوسروں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ پھر انسان نے لکھنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ انسان پہلے درخت کی چھالوں پر اور جانوروں کی کھالوں اور پتھروں پر لکھتا تھا ۔

اس طرح انسانوں میں مزید شعور اجاگر ہونا شروع ہوا اور اپنی تخلیق کو کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی روایت پڑی۔ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے پیغمبر بھیجے۔ ان پر کتابیں اتریں اور 16ویں صدی میں کاغذ کی ایجاد اور پھر پریس کی ایجاد نے علم کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یورپی ممالک میں کتاب کے ذریعے علم کے پھیلاؤ کا عمل تیز ہوا۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ درمیانہ طبقہ اور مزدور طبقہ کا وجود ہوا اور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے نئے خیالات کو تخلیق کرنا شروع کیا۔

اخبار کے ادارے کے قیام کے ساتھ عوام اور حکمرانوں میں ابلاغ کا عمل مستحکم ہوا۔ سیاسی جماعتوں، مزدور، ادیبوں اور شاعروں کی انجمنوں کے قیام سے یورپ میں علمی ماحول کو تقویت ملنے لگی۔ اس کے ساتھ کتابوں کی اشاعت بھی تیز ہوگئی۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں چرچ کی آمریت تھی۔

بادشاہ وقت اور چرچ کے گٹھ جوڑ سے انسانوں میں شعور پیدا کرنے والے خیالات کی بیخ کنی کی جاتی تھی۔ یورپ ان کتابوں پر پابندی لگادینا چاہتا تھا جو چرچ کے خیالات کی نفی کرتی تھیں۔ فرانس کی St Joan of Arc نے چرچ کے مروجہ نظریات کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ جان آف آرک کو عدالت کے حکم پر پھانسی دیدی گئی تھی۔ اٹلی کے سائنس دان گلیلو نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چرچ نے اس کی کتاب کو ضبط کرکے گلیلو کو سزائے موت دیدی تھی۔

یورپی ممالک میں مذہبی کتابوں کے علاوہ سائنس، سیاسیات اور فلسفہ سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگی۔ یورپ میں 14ویں صدی سے 17ویں صدی تک احیائے علوم Renaissance کی تحریکیں چلیں۔ احیائے علوم کے اس دور میں مذہب اور ریاست کو علیحدہ کیا گیا۔ زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کو برتری حاصل ہوئی۔

اس کے ساتھ فرد کی آزادی ، نئے نظریات کا پرچار کرنے اور زندگی اور دنیا سے متعلق ہر قسم کے نظریات پر بحث کی آزادی کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اس عرصے میں ریاست پر عوام کی بالادستی، غربت کے خاتمے، خواتین اور مردوں کے درمیان امتیاز کے خاتمہ اور تعلیم اور صنعتی ترقی کی اہمیت پر بہت تحقیق ہوئی۔ برطانیہ آزادئ اظہار اور منحرفین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشل ازم کے متعلق نئے خیالات سامنے آئے۔

 کارل مارکس 5 مئی 1818 کو جرمنی کے شہر Trier میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک خوشحال گھرانہ سے تھا،مارکس نے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے سوشل ازم کا نظریہ پیش کیا۔ جرمنی اور بیلجیئم وغیرہ میں مارل مارکس کے نظریات پر پابندی لگ گئی۔ مارکس کو برطانیہ میں پناہ ملی۔ مارکس نے برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے عظیم کتاب داس کیپیٹال تحریر کی۔ کارل مارکس 64سال کی عمر میں 14 مارچ 1883 کو لندن میں انتقال کرگیا۔ انسانی تاریخ میں برطانیہ کا نام اس بناء پر روشن حرفوں سے لکھا جانے لگا کہ برطانیہ نے ہی کارل مارکس کو پناہ دی۔

برصغیر ہندوستان میں مغلوں نے کئی سو سال تک حکومت کی۔ مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری تحریر کی تھی مگر اکبر کے دور میں جب ولندیزی افسروں نے پرنٹنگ پریس کا نمونہ پیش کیا تو اکبر کے دربار کے نورتن اس نمونہ کو شایع کرنے والی پرنٹنگ پریس کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکے۔ مغل بادشاہ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء کی تابعداری کرتے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء نے قرآن شریف کو پرنٹنگ پریس پر چھاپنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اس عمل کو حرام قرار دیا گیا۔

شاید یہی ایک وجہ تھی کہ مغلوں کے دور میں تعلیم پر توجہ نہیں رہی۔ اس دور میں کئی عظیم شاعروں نے اپنی شاعری کا جادو تو ضرور جگایا مگر ان کا کلام بھی سینہ با سینہ منتقل ہوا۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے اپنے شہریوں کو اظہارِ رائے اور تخلیق اور تحقیق کی آزادی دی مگر اپنی نوآبادیات کے شہریوں کو ہر قسم کی آزادی سے محروم رکھا گیا۔

برطانیہ نے جب ہندوستان میں جدید تعلیمی، انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا تو دہلی سے کلکتہ تک ریل گاڑی چلائی اور بجلی آنے کے ساتھ جدید صنعت کاری کا آغاز ہوا تو ہندوستان میں پہلی دفعہ متوسط اور مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں۔ پرنٹنگ پریس مختلف شہروں میں لگ گئیں۔ انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم کیا۔ اس فورٹ ولیم کالج نے اردو کی قدیم کتابوں کو دوبارہ شایع کرنا شروع کیا، یوں اب مقامی زبانوں کے علاوہ ہندوستان میں انگریزی، اردو اور مقامی زبانوں میں کتابیں شایع ہونے لگیں۔ انگریز حکومت نے آزادی کے خیالات کو تقویت دینے والی کتابوں پر پابندی اور ان کے مصنفین پر مقدمہ چلانے کے لیے قانون سازی کی مگر ہندوستان بھر میں مختلف موضوعات پر کتابیں تحریر کرنے اور ان کی اشاعت پر خصوصی تقریبات کرانے کی روایت بھی شروع ہوئی۔

 جب ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان وجود میں آیا تو وہ تمام سیاہ قوانین جو ہندوستان میں نافذ تھے وہ پاکستان میں بھی نافذ ہوئے۔ ان قوانین میں آزادئ صحافت ، آزادئ اظہار اور تخلیق کی آزادی کو کچلنے والے قوانین بھی شامل تھے۔

آزادی کے چند سال کے اندر عظیم افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کے افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کو پنجاب کی انتظامیہ نے فحش قرار دیا اور ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلا۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض اور دیگر ترقی پسند ادیب منٹو کے صفائی کے گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے منٹو پر جرمانہ کیاجو اپیل میں ختم ہوا۔ اس کے بعد کتابوں کی اشاعت پر کوئی بڑی پابندی نہ لگی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر پڑے۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے ایک مصنوعی معاشرہ ارتقاء پذیر ہوا اور کتابوں کی دکانیں ختم ہونے لگیں۔ پبلشروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس کاروبار میں کئی ریٹرین(Retrain) نہیں مگر اس تمام منفی صورتحال کے باوجود بلوچستان میں خواندگی کی شرح بڑھی اورایک وقت آیا جب پتہ چلا کہ سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں پڑھی جارہی ہیں ۔ بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کی کتابوں میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر سمیت چھوٹے شہروں میں بھی باقاعدہ کتب میلے منعقد ہوتے ہیں اور ان میلوں میں لاکھوں کروڑوں روپوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان مارکس ،لینن ، اینگل، چی گویرا کی کتابوں کے علاوہ دنیا کے بڑے ادیبوں کے علاوہ ترقی پسند مصنفین سید سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، علی عباس جلالپوری اور بلوچی ادب کی کتابوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔۔ بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ گوادر اور اطراف کے علاقوں میں منشیات کے اڈے چل رہے ہیں۔

نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد آسانی سے منشیات خریدتے ہیں مگر پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ ایک اور صحافی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کو Dark Agesکی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اب تو کتابی دہشت گردی کی اصطلاح بھی استعمال ہورہی ہے، جس معاشرے میں کتابوں پر پابندی لگ جائے ،اس کی قسمت میں زوال پذیر ہونے کے علاو ہ کچھ نہیں لکھا ہوتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان میں پر پابندی کتابوں کی کے علاوہ کی آزادی کی اشاعت شروع کیا کی کتاب کے دور اور ان

پڑھیں:

بُک شیلف

واقعہ معراج اور اِس کے مشا ہدات
نام مصنف : حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم
قیمت : 190روپے ،صفحات : 126،ناشر: دارالسلام انٹرنیشنل ،نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لوئر مال ، لاہور ،برائے رابطہ : 042-37324034

پیش نظر کتاب ’’واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات‘‘ مفسر قرآن، بزرگ عالم دین حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کی تصنیف ہے جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ ’’دارالسلام‘‘ نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ حجم میں مختصر ہے لیکن اپنے موضوع پر ایک جامع، مستند اور علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

کتاب چھ ابواب پر مشتمل پر ہے۔ پہلے باب میں بتایا گیا ہے کہ معراج کے دو حصے ہیں پہلے کو ’’ اسرا ‘‘ اور دوسرے کو ’’ معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ واقعہ معراج کشف، مشاہدہ یا خواب کا واقعہ نہیں بلکہ روح اور بدن کے ساتھ عالم بیداری کا واقعہ ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں واقعہ معراج کی بابت تمام صحیح احادیث یکجا کر دی گئی ہیں۔

بعدازاں ان تمام احادیث کی توضیح بھی بیان کر دی گئی ہے جس سے ایک عام قاری کے لئے واقعہ معراج کو سمجھنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ شب معراج میں نماز کی فرضیت کی حکمت پر بات کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں تفصیل کے ساتھ مشاہدات ِ معراج یعنی روئت باری تعالیٰ اور ا للہ سے کلام کا ذکر کیا گیا ہے ۔ چوتھے باب میں معراج کی عظیم نشانیاں، حضرت موسٰی علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا، داروغہ جہنم، دجال کا مشاہدہ، نہر کوثر کا مشاہدہ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امت محمدیہ کے نام خصوصی پیغام اور دیگر امورکا ذکر کیا گیا ہے۔

پانچویں باب میں جہنم کے مشاہدات یعنی غیبت کرنے والوں ، بے عمل خطبا کا انجام اور ناقۃ اللہ ( حضرت صالح علیہ السلام ) کی اونٹنی کے قاتل کے انجام کے مشاہدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ چھٹے اور آخری باب میں واقعہ معراج کے بارے میں ایسے تمام واقعات جمع کر دیے گئے ہیں جو اگرچہ بہت مشہور ہیں لیکن غیر مستند ہیں۔ واقعہ معراج کا ثبوت اور ذکر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ دونوں میں ہے۔ لیکن مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو اسے ایک کشفی ، روحانی یا خواب کے مشاہدے سے تعبیر کر کے اسکی معجزانہ حیثیت کا انکار کرتا ہے۔ ایک دوسراگروہ ہے جو اس میں بہت سی بے سروپا روایات شامل کر کے اسے کچھ کاکچھ بنا دیتا ہے۔

ظاہر بات یہ ہے کہ دونوں ہی گروہ افراط و تفریط و شکار ہیں۔ یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ اس اہم موضوع پر بر گزیدہ عالم دین، مصنف کتب ِ کثیرہ ، مفسر قرآن الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم نے قلم اٹھایا اور علم ونظر کے اعلیٰ پیمانے اور تحقیق و جستجو کی کسوٹی پر رکھ کر یہ واقعہ مستند حقائق سمیت قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اردو زبان میں پہلی کتاب ہے جو واقعہ معراج کو اس کے صحیح تناظر میں پیش کرتی اور اس کے واقعاتی مشاہدات کو غیر مستند روایات سے ممیز کرتی ہے۔ یہ کتاب ہر لائبریری ، خطیب ، واعظ کی ضرورت ہے عام آدمی کے لئے بھی اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ (تبصرہ نگار: ارشاد احمد ارشد)

جنگل میں دنگل
مصنف: سلمان یوسف سمیجہ

بچوں کے لیے لکھنا مشکل ترین ادبی خدمت ہے۔ اس کے لیے پہلے تو لکھنے والے کا تخیل بہت ہمہ گیر، آفاقی، ادراک جامع، زبان بہت سادہ، آسان اور دل میں اْترنے والی ہو جو مطالعہ سے ممکن ہے، پھر بچوں کی نفسیات سے بھی آگاہی ہو، سلمان یوسف سمیجہ کے ہاں ان لوازمات کی یکجائی ہے، جو بچوں کے ادب کے ملاحظہ سے ہی آ سکتے ہیں ۔ ان کا ذہن انہیں کائنات کی پہنائیوں میں لے جاتا ہے ۔ وہ اْردو الفاظ کو موضوع اور ماحول کی مطابقت سے چْنتے ہیں ۔ محاوروں کے استعمال سے ان کی عبارت مزید دلکش ہو جاتی ہے ۔ ان کی ہر تحریر بامقصد ہوتی ہے۔

سلمان اپنی ہر کہانی کے ذریعے بچوں تک کوئی نہ کوئی اصلاحی پیغام پہنچاتے ہیں ۔ وہ ایک دردمند دل رکھتے ہیں، اس لیے ان کے دل سے نکلنے والی آواز سننے والے کے دل میں اْتر جاتی ہے ۔ ان کے خیال کی بلندی، زبان و بیان پر دسترس ان کو بچوں کے لیے لکھنے والوں کی پہلی صف میں لے گئی ہے۔ ان کے خیال کی لَو نے خوش خبری دی ہے کہ وہ اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ قارئین سے کہنا یہی ہے کہ دینی شعائر، سماجی اقدار، علاقائی روایات کو یاد رکھنے کے لیے سلمان کی منفرد کہانیوں پر مبنی کتاب ’’جنگل میں دنگل‘‘ پڑھیں ۔ (تبصرہ نگار: محمود شام)

شش ماہی شاہد انٹرنیشنل
(صوفیہ کی سیرت نگاری)
مؤسس و مدیر: پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان ،ناشر: شاہد ریسرچ فاؤنڈیشن کراچی، صفحات:294، قیمت:درج نہیں، برائے رابطہ :03222413267

سیرت النبی ایک ایسا لامتناہی سمندر ہے جس کی حدود، گہرائی اور گیرائی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کے سیرت نگاروں میں امہات المومنینؓ، اہل بیت اطہارؓ، صحابہ کرام ؓ، آئمہ کرامؒ، محدثینِ عظامؒ،علماء، صوفیہ، ادباء ، شعراء حتی ٰ کہ غیر مسلم افراد بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت نگاری کے متعد د مناہج اور اسالیب ہیں۔ جن میں محدثانہ، مورخانہ، فقیہانہ، متکلمانہ، مناظرانہ ، ادیبانہ اور مولفانہ اسالیب زیادہ معروف ہیں۔

ان ہی مناہج و اسالیب میں ایک اہم منہج صوفیائے کرام کا بھی ہے۔ جسے صوفیانہ منہجِ سیرت نگاری یا روحانیت ِسیرت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ سیرت طیبہ پر شائع ہونے والے معروف تحقیقی مجلے شش ماہی "شاہد" انٹرنیشنل کا پیشِ نظر خاص نمبر "صوفیہ کی سیرت نگاری" پر مشتمل ہے اور راقم الحروف کی معلومات کی حد تک صوفیہ کی سیرت نگاری پر یہ کسی بھی تحقیقی مجلے کا پہلا خاص نمبر ہے۔ شاہد کے موسس و مدیر ممتاز ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان (پرنسپل، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن، ایجوکیشن سٹی ملیر، کراچی) ہیں۔ جب کہ معاون مدیر ڈاکٹر فیاض شاہین (لیکچرار، ہمدرد یونیورسٹی، کراچی) ہیں۔ صوفیہ کی سیرت نگاری کے منہج و اسلوب کے بارے میں فاضل مدیر رقم طراز ہیں: "جمہور صوفیہ کی سیرت نگاری کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انھوں نے دیگر سیرت نگاروں کی طرح سیرت نگاری میں مطول، شرح، تہذیب اور تلخیص کی بجائے 'منہجِ اختصار' کو اختیار کیا۔

جس سے مختصرات سیرت النبیﷺ کا عظیم الشان ذخیرہ معرضِ وجود میں آیا،جس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ یہاں ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر صوفیہ نے مختصرات النبی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ : جب سیرت نگار سیرت نگاری کا فریضہ سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے اس بات کا اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے کس طبقے کے لیے لکھ رہا ہے اس کی ذہنی و علمی سطح کیا ہے؟ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر وہ سیرت النبی کے مقاصد، اسلوب، متن اور منہج کا انتخاب کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے اگر سیرت نگار اہلِ علم و دانش کے لیے سیرت نگاری کا فریضہ سرانجام دینے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ محدثانہ، ادبی، کلامی اور فلسفیانہ اسلوب ومنہج اور متن کا انتخاب کرے گا اور اس کی ہیئت مفصل و مطول ہوگی۔ اس کے برعکس اگر وہ عوام الناس اور مشغولیت میں گھرے افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے سیرت نگاری کرنا چاہتا ہے تو اسے اس طبقے کی ذہنی و علمی کیفیت و سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے مفصل و مطول کی بجائے مختصر سیرت نگاری کو قلم بند کرنا پڑے گا۔

"پیشِ نظر خصوصی شمارے کے اہم مقالات یہ ہیں: 1۔ مولد النبیﷺ سید عبدالقادر الجیلانی الحسینیؒ "جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند"/ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، 2۔ کشف المحجوب میں مباحثِ سیرت اور سید ہجویریؒ کا منہج و استدلال، 3۔ "کشف المحجوب" اور پیغامِ اطاعتِ رسولﷺ/ ڈاکٹر سلیم اللہ جندران، 4۔ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے صوفیانہ سیرت نگاری کے منہج کا مطالعہ/ پروفیسر دلاور خان، 5۔ مطالعہ سیرت النبیﷺ، لطائفِ اشرفی کی روشنی میں/ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، 6۔ حضرت مخدوم سمنانیؒ کی سیرت نگاری کے اسالیب کا تجزیاتی مطالعہ/ پروفیسر دلاور خان، 6۔ مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ بحیثیت سیرت نگار نبی الامیﷺ/ ڈاکٹر شاکر حسین خان، 7۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سیرت نگاری کے منہج و اسلوب کا مطالعہ/ ڈاکٹر افتخار احمد خان، 8۔ ذکرِ رحمت للعالمینﷺ بزبانِ سلطان العارفین/ لئیق احمد، 9۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ بحیثیت سیرت نگار (تفسیرِ مظہری کا خصوصی مطالعہ)/ حافظ نوید اقبال و محمد ہمایوں عباس، 10۔ شمائل نبویﷺ/ پیر سید مہر علی شاہؒ
سیرت کی کتابوںمیں صوفیہ کے کردار اور ان کی علمی خدمات کے حوالے سے یہ ایک عمدہ کوشش ہے۔ جس کے لیے فاضل مدیر اور جملہ اراکین شاہد ریسرچ فاؤنڈیشن پاکستان لائقِ تحسین و قابلِ مبارک باد ہیں۔(تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق)

کراچی پریس کلب
مصنف: اشرف شاد
کراچی پریس کلب کا شمار میری منی سی معلومات کے مطابق پاکستان کے اولین پریس کلب میں ہوتا ہے ۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان میں انگریزوں کے چھوڑے ہوئے جم خانوں،سوشل کلبوں،نائٹ کلبوں کے بعد یہ واحد کلب بنا جس کے ممبر ایک مخصوص پیشے سے تعلق رکھنے والے صاحبان یعنی صحافی تھے۔ ابتدا میں اس کی روایات بھی اس وقت کے دیگر سماجی کلبوں سے ملتی جلتی ہی تھیں یعنی کھیلو کودو، پیو کھاؤ کچھ دیر کی ذہنی عیاشی کرو اور گھر جاؤ۔ پریس کلب کے ان خدوخال پر کسی کو اعتراض بھی نہ تھا۔ سب خوش باش بہتی گنگا میں نہا تے دھو تے رہے ۔میری اس تحریر کا مقصد ہرگز بھی پریس کلبوں کی تاریخ بیان کرنا یا ان کے بخیہ ادھیڑنا نہیں ہے۔

میں نے یہ تمہید دوست، ساتھی، سہیلی، مشفق اور استادوں کی طرح سکھانے، بتانے والے اپنے بہت ہی عزیز اشرف شاد کی کتاب’’ کراچی پریس کلب’’ کے حوالے سے باندھی ہے۔اشرف شاد بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتاب جلاوطن کو تو ایوارڈ بھی ملا ہے۔گذشتہ چند سالوں سے وہ اپنی حیات کا سفر نامہ لکھنے میں مصروف ہیں۔ اس سفرنامے کو طے کرتے،کرتے یا لکھتے، لکھتے یہ ان کی تیسری کتاب کی آمد ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’جب میں اپنی اور ملک کی ‘‘ زیر زمین سرگرمیوں’’ کا احوال لکھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تو ایک مکمل کتاب ہے لہٰذا انھوں نے فورا’’ انڈر گراؤنڈ’’ کے نام سے کتاب چھاپ دی۔ سفر اور آگے بڑھا تو ‘‘ صحافت کے خاروگل‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب نے جنم لیا اور اب کی بار ایک طویل سانس لے کے آگے کی جانب دیکھا تو ‘‘ کراچی پریس کلب’’ سامنے آ کھڑا ہوا۔اشرف نے پریس کلب سے اپنی وابستگی کی قوس وقزح کے رنگ برساتے اور سمیٹتے ہوئے کچھ دوستوں کو بھی کتاب میں رنگ برسانے کے لئے مدعو کیا ہے۔

پریس کلب کے حوالے سے ہر ایک نے اپنی ، اپنی بساط کے مطابق خوب رنگ بکھیرے ہیں اور یوں بکھیرے ہیں کہ ‘‘ کراچی پریس کلب ‘‘ کی اچھی خاصی تاریخ رقم ہوگئی ہے ۔ جیسے مظہر عباس نے ایک عرصے سے تنازع کا شکار پریس کلب کی عمارت کی سپردگی کے واقعہ کو سپرد قلم کر کے اس واقعہ کی ڈاکو مینٹیشن کر دی ہے۔ فاضل جمیلی نے اپنی یادوں کے رنگوں کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے’’ ضیاء دور کے وزیر اطلاعات جنرل مجیب نے کراچی پریس کو علاقہ دشمن’’ قرار دیا تھا۔ ان ہی کی تحریر سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے داخل کلب ہونے کے بعد اس وقت کی منتخب گورننگ باڈی کو گھر جانا پڑا تھا۔ اْن کے لکھے سے برسوں بعد یہ بات بھی ہم پر آشکار ہوئی کہ کلب کے کامریڈوں میں سے کامریڈ نعیم آروی مرحوم css پاس تھے لیکن پارٹی کے حکم پر صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔تو صیف احمد خان کی پچیس صفحات پر پھیلی تحریر میں کلب کے انتخابات، ان کے طریقہ کار کی مختلف تبدیلیوں میں ان کی ذاتی کار گزار یوں کا کافی سے زیادہ تذکرہ ہے۔

یہ ایک اچھی کوشش ہے پھر بھی کئی جگہ لگتا ہے کہ ان کی ذاتی پسند نا پسند کا اظہار بہت زیادہ ہے۔ جیسے محمود علی اسد مرحوم کا تزکرہ بار بار مختلف انداز سے کیا گیا ہے جب کہ عبدالحمید چھاپرا جوکہ نہ صرف پانچ بار کلب کے صدر بنے اور جن کا کردار بحثیت صحافی، سیاسی کے یو جے سے لے کر پی ایف یو جے تک پھیلا ہوا تھا ان کو مجاہد کے ساتھ ایک جملے میں یہ کہہ کے سمیٹ دیا کہ’’ عبدالحمید چھاپرا اور مجاہد بریلوی کے خلاف محاذ بنایا‘‘ گویا پریس کلب میں ان دونوں کا اس سے زیادہ عمل دخل نہ تھا، کچھ ایسا ہی برتاؤ انھوں نے صحافتی تحریکوں کے روح روا ں منہاج برنا اور احفاظ الرحمن کے ساتھ بھی روا رکھا ہے۔خیر ایسا بھی ہوتا ہے!

پریس کلب کے بہت سینئیر حسین احمد کو امین راجپوت نے انٹرویو کیا ہے۔ کتاب میں اس انٹرویو کی موجودگی سے کلب اور مختلف افراد کے نہ صرف تاریخی کردار کا پتہ چلتا ہے کلب کی نئی پرانی زندگی کے رنگوں کا احوال بھی قاری کو باندھے رکھتا ہے۔اس کتاب کے مصنف نے اپنے خیالات، جذبات، احساسات کو ‘‘آخر شب کے مسافر ‘‘ کے عنوان تلے بیان کیا ہے۔یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اشرف شاد کو پاکستان چھوڑے جلد ہی آدھی صدی مکمل ہونے والی ہے لیکن یہ بھی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ وہ سانسیں بے شک آسٹریلیا یا دنیا کے کسی بھی شہر میں لیتے ہوں۔

ان کا دل اور روح پاکستان میں اور اس سے زیادہ کراچی پریس کلب میں سانس لیتے ہیں ۔ شاید اسی روحانی تعلق کا اثر ہے کہ یادوں میں بسے پریس کلب کو یہ کتاب لکھ کے زندہ جاوید بنا دیا ہے۔کراچی پریس کلب نامی یہ کتاب کلب کے بارے میں ایک اچھی خاصی دستاویز ہے۔

جس کے ذریعے مستقبل کی آنے والی صحافی نسلوں کو پتہ چل سکتا ہے کہ جس پریس کلب کو وہ صرف ایک ‘‘ طعام گاہ’’ سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتے وہ کن،کن مرحلوں سے گزر کر اس روپ میں ان کو سمیٹے ہوئے ہے اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کے کلب کی ساکھ پر آنچ نہ آنے دی۔اس کتاب کی تحریری ضخامت ایک سو چھیتر صفحات پر مشتمل ہے۔ تقریبا بیس صفحات میں سابقہ صدور اور سیکریٹری صاحبان کی تفصیل کے ساتھ ساتھ ، کلب کے مرحومین ممبران کی تفصیل بھی ہے۔ اس سب کے ساتھ کچھ یادگار تصاویر بھی ہیں۔کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔(تبصرہ نگار:شہناز احد)

شاکاہاری
ہان کانگ کا ناول دی ویجیٹیرین ایک منفرد ادبی شاہکار ہے جو انسانی نفسیات، سماجی دباؤ، اور ذاتی آزادی کے مسائل کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ یہ کہانی فرد کی خوراک کے انتخاب سے شروع ہو کر اس کی شناخت اور آزادی کے پیچیدہ تعلقات کی کھوج کرتی ہے۔"دی ویجیٹیرین" محض ایک فرد کے خوراک کے انتخاب کے بارے میں نہیں بلکہ یہ انفرادی آزادی، ذاتی خواہشات اور سماجی توقعات کے درمیان پیچیدہ تعلقات کو اجاگر کرتا ہے۔

یہ ناول انسان کی جسمانی اور ذہنی حدود کو چیلنج کرتا ہے اور سماج میں عورت کی حیثیت، اس کی آزادی اور انتخاب کے عمل پر بھی گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔یہ ناول 2007 میں کورین زبان میں شائع ہوا اور 2015 میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ ناول کی کہانی تین حصوں میں تقسیم ہے، اور ہر حصہ مختلف کردار کے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے، جو اس کی پیچیدگی کو مزید بڑھاتا ہے۔ مرکزی کردار یونگحے ، ہیں، جو ایک روایتی کورین گھرانے کی خاموش، خود دار عورت ہیں ۔ ان کی زندگی ایک دن اْس وقت بدل جاتی ہے جب وہ گوشت کھانا چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

یہ فیصلہ ان کی ذاتی زندگی میں ایک طوفان کی مانند آتا ہے اور اس کے اثرات ان کی شخصیت، خاندان اور معاشرتی روابط پر گہرے اور دور رس مرتب ہوتے ہیں ۔ یونگحے کا گوشت نہ کھانے کا فیصلہ بظاہر ایک سادہ سا عمل لگتا ہے، مگر یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی اور سماجی عمل ہے جس کا مقصد ان کی زندگی میں آزادانہ انتخاب اور خود مختاری کی علامت بننا تھا ۔ اس فیصلے نے ان کی زندگی میں عجیب و غریب مشکلات پیدا کر دیں، جو کہ ناول میں نفسیاتی تناؤ، سماجی دباؤ اور افراد کے درمیان اخلاقی و جذباتی تصادم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔یہ ناول گہرا تجزیہ فراہم کرتا ہے کہ کس طرح فرد اپنی ذاتی خواہشات کو اپنے معاشرتی دائرے اور خاندان کے متوقع اصولوں کے سامنے لاتا ہے، اور کس طرح وہ ان اصولوں کی مخالفت کر کے اپنی اندرونی حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ناول ایک طرف انفرادی آزادی کی تلاش کو بیان کرتا ہے اور دوسری طرف یہ دکھاتا ہے کہ سماجی اور خاندانی دباؤ کس طرح ایک فرد کی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ذاتی آزادی کے حصول کے لیے فرد کو سماجی تعلقات سے انحراف کرنا پڑتا ہے؟ اس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ فرد کی آزادی اور سماج کی توقعات کے درمیان ایک مسلسل کشمکش موجود ہے، جو اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کو متاثر کرتی ہے۔ دی ویجیٹیرین کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا منفرد بیانیہ ڈھانچہ ہے، جو نہ صرف کہانی کو پیچیدہ اور کثیر الجہتی بناتا ہے بلکہ کرداروں کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو بھی انتہائی باریکی سے پیش کرتا ہے۔ کہانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر حصہ ایک مختلف کردار کے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔

دی ویجیٹیرین نہ صرف ایک ادبی شاہکار ہے بلکہ یہ ایک سماجی مکالمہ بھی ہے، جو انسانی حقوق، ذہنی صحت، صنفی مساوات اور فرد کی شناخت جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسماء حسین صاحبہ نے "دی ویجٹرین" کا اردو ترجمہ "شاکا ہاری" کے عنوان سے نہایت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا ترجمہ اس تخلیق کے ذائقے اور گہرائی کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ قاری ہر لفظ کو محسوس کرتا ہے اور کہانی کے جذبات سے جْڑ جاتا ہے۔ یہ ناول مکتبہ دانیال کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے، جس کی طباعت اور پیشکش میں بھی غیر معمولی حسن اور نفاست پائی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انسداد دہشت گردی میں پاکستان کے کردار پر نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد
  • ہم کمزور نہیں ‘ مذکرات ملک کی خاطر کر رہے تھے‘زرتاج گل
  • حکومت نے پی ٹی آئی کے مذاکرات کو کمزوری سمجھا ،زرتاج گل
  • حکومت نے پی ٹی آئی کے مذاکرات کو کمزوری سمجھا.زرتاج گل
  • مذاکرات ہماری کمزوری نہیں تھے، ملک کی خاطر بات چیت شروع کی۔زرتاج گل
  • 17 سیٹوں والی حکومت نے حامد رضا کے گھر چھاپہ مارکر مذاکرات سبوتاژ کیے، زرتاج گل
  • بُک شیلف
  • کتاب ہدایت
  • عراق پی کے کے کو دہشتگرد قرار دے ‘ ترکیہ کا مطالبہ