نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ جرمنی کے آمر اوڈلف ہٹلر نے 1938میں چیکو سلواکیہ کے علاقے سوڈی ٹین لینڈ (Sudetenland) پر حملہ کردیا جس کے بعد یورپ پریشان ہو گیا‘ چیمبرلین نے فوری طور پر جرمنی کا دورہ کیا‘ ہٹلر نے اسے اپنی فوج‘ گولہ بارود اور جنگی جہازوں کے کارخانے دکھائے اور برطانوی وزیراعظم کو یقین دلایا یہ میں نے صرف اپنے دفاع کے لیے اکٹھے کیے ہیں‘ مجھے خطرہ ہے سوویت یونین مجھ پر حملہ آور ہو جائے گا‘ میںاگر مضبوط ہوں گا تو یورپ بچے گا ورنہ روسی اسپین تک پورے یورپ کو نگل جائیں گے ‘ چیمبرلین نے اس دوران شک کا اظہار کیا تو ہٹلر نے اسے دفاعی معاہدے کی پیش کش کر دی لہٰذا 30 ستمبر 1938کو میونخ میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان نو وار ایگریمنٹ ہو گیا۔
اس معاہدے میں فرانس اور اٹلی بھی شامل ہو گئے‘ چیمبرلین مطمئن ہو گیا‘ اس کا خیال تھا ہٹلر خود کو صرف مشرقی یورپ کے جرمن علاقوں تک محدود رکھے گا لیکن سرونسٹن چرچل اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا تھا‘ اس کا کہنا تھا ہٹلر بہت جلد سینٹرل یورپ پر قبضہ کرے گا اور برطانیہ پر بھی حملہ آور ہو گا‘ ہمیں ابھی سے اپنے دفاع کا بندوبست کر لینا چاہیے‘ چیمبرلین اس دعوے پر اس کا مذاق اڑاتا تھا یوں برطانیہ کے ایوان نمایندگان میں دونوں کے درمیان زبردست بحث ہوتی تھی‘ چرچل اپنی ہر تقریر میں کہتا تھا جرمنی کے پاس دفاع سے زیادہ اسلحہ اور فوج ہے اگر اس نے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑنی تو پھر اس نے اتنی بڑی فوج اور اتنا زیادہ اسلحہ کیوں جمع کیا ہوا ہے؟ ہٹلر کوئی بڑا سوچ رہا ہے‘ اس کی کوئی بڑی پلاننگ ہے چناں چہ ہمیں میونخ ایگریمنٹ کے باوجود تیار رہنا چاہیے۔
ونسٹن چرچل کا یہ خدشہ بعدازاں سچ ثابت ہوا‘ ہٹلر نے پہلے میونخ ایگریمنٹ کے بعد مشرقی یورپ نگلا اور پھر اس نے پولینڈ اور پھر ڈنمارک‘ ناروے‘ نیدرلینڈ‘ لکسمبرگ‘ فرانس‘ یوگوسلاویہ اور یونان پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے برطانیہ پر بھی فضائی حملے شروع کر دیے‘ یہ حملے اس قدر شدید اور خوف ناک تھے کہ چیمبرلین نے استعفیٰ دے دیا اور چرچل کو وزیراعظم بنوا دیا اور اس کے بعد چرچل نے نہ صرف برطانیہ کو بچا لیا بلکہ ہٹلر کو شکست دے کر پوری دنیا بھی بچا لی‘ چرچل سے اس زمانے میں پوچھا جاتا تھا ’’تمہیں میونخ ایگریمنٹ کے بعد کیسے معلوم تھا ہٹلر برطانیہ تک ضرور آئے گا‘‘ چرچل کا جواب ہوتا تھا ہٹلر کی جنگی تیاری اور میونخ ایگریمنٹ کا بیلنس ٹھیک نہیں تھا لہٰذا میرا اندازہ تھا یہ شخص اتنی فوج اور اتنے بارود کے ساتھ مشرقی یورپ تک محدود نہیں رہے گا اور پھر یہی ہوا‘‘۔
ہم اب تھوڑی دیر کے لیے دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر اور چرچل کو سائیڈ پر رکھتے ہیں اور امریکا کے تازہ ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف آتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے تابڑ توڑ اقدامات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ ٹرمپ نے دو دن قبل کولمبیا کے ذریعے دنیا کو مزید پریشان کر دیا‘ امریکی جیلوں میں کولمبیا کے غیرقانونی شہری بند ہیں‘ ٹرمپ نے پہلے صدارتی دن تمام غیر قانونی تارکین کو نکالنے کا حکم جاری کر دیا‘ اس کا آغازکولمبیا سے کیا گیا‘امریکی حکومت نے کولمبین شہریوں کے دو جہاز بھرے اور انھیں بگوٹا بھجوا دیا‘ کولمبیاکے صدرگستاوو پیٹرونے ان جہازوں کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو پتا چلا تو اس نے نہ صرف کولمبیا کی امپورٹس پر 25 فیصد ڈیوٹی لگا دی بلکہ اس ڈیوٹی کو ایک ہفتے میں 50 فیصد تک لے جانے کا آرڈر بھی دے دیا۔
ٹرمپ نے اس کے ساتھ ساتھ کولمبین حکومت کے تمام سرکاری عہدیداروں کے امریکا میں سفر اور حکومتی پارٹی کے تمام ارکان‘ ان کے خاندانوں اور سپورٹرز کے ویزے بھی منسوخ کر دیے‘ ٹرمپ نے یہ تمام احکامات ایکس پر ٹویٹ کے ذریعے دیے‘ کولمبیا امریکا کو سالانہ 14 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے جن میں کافی پہلے نمبر پر آتی ہے۔ ’’اسٹار بکس‘‘ کو لمبین کافی کا سب سے بڑا خریدار ہے‘ اس ٹویٹ کے ساتھ ہی امریکا میں کافی مہنگی ہوگئی لیکن کولمبیا میں اس کی مارکیٹ کریش کر گئی‘ کولمبین ارکان اسمبلی ‘ حکمران جماعت کے ممبرز اور ان کے خاندان اور بیوروکریٹس اور بزنس مینوں کی فیملیز بھی پریشان ہو گئیں چناں چہ صرف تین گھنٹے بعد کولمبیا کی حکومت گھٹنوں پر آگئی اور اس نے نہ صرف امریکی جہازوں کو اترنے اور کولمبین تارکین وطن کو واپس لینے کی اجازت دے دی بلکہ امریکا کی تمام پابندیاں اور شرائط بھی مان لیں۔
یہ ٹرمپ کا پہلا ’’ڈیمو‘‘ تھا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ پوری دنیا میں امریکی امدادی سرگرمیاں بھی معطل کر دیں‘ یہ عالمی فورمز اور ایگریمنٹس سے بھی نکل گیا‘ یوکرائین جنگ میں یوکرائین کی مدد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا‘ میکسیکو کو بھی ٹائیٹ کر دیا‘ افغانستان اور جنگ زدہ افریقی ملکوں کی امداد بھی بند کر دی ہے اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے رقم دینے سے بھی انکار کر دیا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ غزہ کے مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے اور اردن اور مصر کو انھیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کا حکم بھی دے دیا ‘آپ تصور کیجیے اگر اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے تو غزہ کا علاقہ بھی فلسطین کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ امریکا کے پاس چلا جائے گا یا پھر ٹرمپ اسے اسرائیل کے حوالے کر دے گا اور یوں اسرائیل کے سائز میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے بعد اسرائیل حضرت سلیمان ؑ کے زمانے کے اسرائیل کی طرف بڑھنے لگے گا‘ اسرائیلی اسے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کہتے ہیں‘ مدینہ منورہ بھی اس کا حصہ ہے‘ مصر اور اردن سردست انکار کر رہے ہیں لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ڈٹ گیاتوکولمبیا کی طرح ان کو بھی امریکا کا حکم ماننا پڑے گا ورنہ امریکا ان کی امداد بند کر دے گا اور یہ دونوں بھی گھٹنوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
دوسری طرف ٹرمپ نے سعودی کراؤن پرنس سے امریکا میں ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کر دیا‘ محمد بن سلمان نے فوری طور پر 600 ارب ڈالر کی پیش کش کرکے جان چھڑائی‘ سعودی عرب کے بعد یو اے ای اور قطر کی باری ہے‘ انھیں بھی کم از کم پانچ سو ارب ڈالر امریکا میں لگانا پڑیں گے‘ ٹرمپ امپورٹس کا ٹیرف بھی بڑھا کر رہے گا‘یہ امپورٹس کو بھی نصف تک لے آئے گا‘ امریکا میں امیگریشن پربھی پابندی لگ چکی ہے اور چین اور امریکا کی معاشی لڑائی بھی اب سر پرکھڑی ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کچھ کیوںکر رہا ہے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں۔
پہلا جواب یہ صرف اور صرف امریکا کے بارے میں سوچ رہا ہے‘ یہ امریکیوں کا صدر ہے اور امریکا کے صدر کو اپنے لوگوں کے مفاد کو فوقیت دینی چاہیے اور یہ دے رہا ہے‘ اس کے فیصلوں سے اب امریکی معیشت بہتر ہو گی‘ مہنگائی میں کمی آئے گی‘ بے روزگاری نیچے آئے گی‘ اسٹاک ایکس چینج میں استحکام آئے گا اور عام امریکی شہری کا معیار زندگی بلند ہو گا‘ یہ چین اور بھارت سے درآمدات کے بجائے ’’میڈ ان امریکا‘‘ کو بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ امریکی صنعت ’’ری وائیو‘‘ کر سکے‘ یہ بزنس مین ہے اور بزنس مین پیسہ بچانا اور کمانا جانتے ہیں لہٰذا اس کی نظر ان معاشی سوراخوں پر ہے جہاں سے امریکی سرمایہ رس رہا ہے‘ یہ امریکا پر تارکین وطن کا بوجھ بھی کم کر رہا ہے‘ اس کا خیال ہے ہم بھکاریوں اور مجرموں میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کریش کر رہی ہے اور یہ امریکا کو گریٹ بنانا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ٹرمپ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس کا دوسرا جواب یہ ہے یہ کوئی بڑا پلان تیار کر رہا ہے‘ یہ بڑا سوچ رہا ہے‘ امریکا اسلحے اور وار ٹیکنالوجی میں نمبرون ہے‘اس کے پاس اس وقت کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے پیسہ‘ امریکا کی معیشت بری طرح مقروض ہو چکی ہے اور اس گرتی ہوئی معیشت اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے امریکا کوئی بڑی گیم پلان نہیں کر سکتا‘دوسری طرف دنیا میں اگر کسی قوم یا ملک کے پاس سرمایہ ہے تو وہ ہے چین ‘ چین کے پاس فارن ایکس چینج ریزروز بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی‘ چین نے چھ ملین ڈالر میں ’’ڈیپ سیک‘‘ بنا کر نہ صرف امریکی چیٹ جی پی ٹی کا بیڑہ غرق کر دیا بلکہ امریکا کا ٹیکنالوجی کا غرور بھی مٹی میں ملا دیا چناںچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت صرف دو چیزیں چاہییں‘ ٹیکنالوجی اور پیسہ اور یہ بڑی تیزی سے اس سمت دوڑ رہا ہے۔
اس نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح ٹیکنالوجی کو فوقیت دی‘ اس نے جس طرح ’’آئی ٹی‘‘ کی کمپنیوں کو ساتھ ملایا ‘ جس طرح ان میں سرمایہ کاری شروع کرائی‘جس طرح سرمائے کی لیکیج روکنا شروع کی‘ جس طرح پیسہ جمع کرنا شروع کیا اور جس طرح امریکا کو دوسرے ملکوں کی محتاجی اور ضرورت سے آزاد کرنا شروع کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے اسے بہت جلدی ہے‘ یہ جلد سے جلد امریکا کا امپورٹس پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے‘ یہ اپنے ریزروز بہتر بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ اپنا منصوبہ مکمل کر سکے‘ مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کے اندر چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کی اسپرٹ بھی نظر آ رہی ہے۔
صدرشی چن پنگ نے 2018میں اپنے آپ کو تاحیات صدر بنوا لیا تھا‘ مجھے خطرہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہیں خود کو تاحیات صدر نہ بنوا لے یا امریکا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی حکومت کا اعلان نہ کر دے اگر اس کا پلان یہ ہے تو پھر یہ اس کا آغاز کینیڈا اور گرین لینڈ سے کرے گا اگر اس نے گرین لینڈ اور کینیڈا پر قبضہ کر لیا تو پھر اسے تاحیات صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر آپ دنیا کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے‘ ایک طرف روس میں پیوٹن تاحیات صدر ہوگا‘ دوسری طرف چین میںشی چن پنگ تاحیات صدر ہوگا اور تیسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی واحد سپر پاور کا تاحیات صدر ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی تیسری عالمی جنگ شروع نہیں ہوتی تو پھر یہ واقعی معجزہ ہو گا‘ اﷲ تعالیٰ اب دنیا اور زمین دونوں پر رحم کرے ‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے دجال آ چکا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میونخ ایگریمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں تاحیات صدر اس کے ساتھ امریکا کے امریکا کو کر رہا ہے جائے گا اور اس اور یہ ہے اور کو بھی کے بعد تو پھر کر دیا ہو گیا گا اور کے پاس اگر اس
پڑھیں:
گرین لینڈ،پانامااور کینیڈا،امریکا کے نئے اہداف ہیں؟
وائٹ ہائوس میں واپسی سے صرف چندہفتے قبل ٹرمپ نے ڈنمارک کے زیرکنٹرول جزیرے گرین لینڈاورپاناماکینال کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں بات کر کے اقوامِ عالم کوبے چین کردیا۔ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکاکی اقتصادی سلامتی کے لئے انتہائی اہم قراردیاہے۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ وہ کینیڈاکوامریکامیں شامل کرنے کے لئے معاشی دباؤاستعمال کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
ٹرمپ نے2019ء میں اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈنمارک کے ایک خودمختاراوردنیاکے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈکو خریدنے کااظہارکیاتھالیکن اب انہوں نے قصر سفید میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک قدم بڑھاتے ہوئے گرین لینڈپرکنٹرول حاصل کرنے کے لئے امریکاکی اقتصادی یافوجی طاقت استعمال کرنے کے امکان کومستردنہیں کیاجس کے جواب میں گرین لینڈکے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈنے واضح طورپرٹرمپ کومتنبہ کیاہے کہ گرین لینڈاس کے لوگوں کاہے اوریہ برائے فروخت نہیں ہے اوریورپی یونین نے ڈینش کے علاقائی تحفظ مؤقف کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ٹرمپ نے7جنوری کوایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہاتھاکہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے اس لئے وہ گرین لینڈکاکنٹرول حاصل کرنے کے لئے عسکری طاقت کے استعمال پربھی غورکرسکتے ہیں۔ٹرمپ کاباربار توجہ دیناظاہر کرتاہے کہ ان کے لئے اس معاملے کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے لیکن آخراس کی وجہ کیاہے؟ماہرین کاماننا ہے کہ اصل وجہ وہ معدنیات کاخزانہ ہے جوگرین لینڈمیں موجودہے۔
تاریخی اعتبارسے امریکی حکام اس خطے کو سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے توجہ دیتے آئے ہیں۔ روس سے قربت کی وجہ سے سردجنگ کے دوران اسے یورپ اورشمالی امریکاکے سمندری تجارتی راستے کومحفوظ بنانے کے لئے اہم سمجھا گیا۔امریکی فوج نے دہائیوں تک یہاں ایک اڈہ قائم رکھاجسے بیلسٹک میزائلوں پرنظررکھنے کے لئے استعمال کیا جاتارہاتاہم2023ء میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈنمارک اورگرین لینڈ نے تخمینہ پیش کیاکہ جزیرے پر38معدنیات بڑی مقدار میں موجودہیں جن میں کاپر،گریفائیٹ، نیوبیئم ، ٹائٹینیئم، روڈیئم شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیساکہ نیوڈیمیئم اورپریسیوڈائمیئم جوالیکٹرک گاڑیوں کی موٹر اور ونڈٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں،بھی پائی گئی ہیں۔
مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسرایڈم سائمن کے مطابق ’’گرین لینڈمیں دنیاکی سب سے نایاب معدنیات کا عالمی طورپر25فیصدحصہ موجود ہو سکتا ہے‘‘ ۔اگریہ دعویٰ درست ہے تو مقدارکے حساب سے یہ15لاکھ ٹن بنتاہے۔یادرہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کاحصول اہم ہوچکاہے جبکہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئےبھی ضروری سمجھاجا رہاہے ۔ بڑی عالمی طاقتیں دنیابھرمیں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کاکنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں اورایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔
چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کا سب سے بڑاکھلاڑی ہے جوایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔اسی وجہ سے چین کے سیاسی اورمعاشی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہواہے ۔ گرین لینڈمیں اس وقت دوکمپنیاں نایاب معدنیات پانے پرکام کررہی ہیں جن میں سے ایک کمپنی میں چینی سرکاری کمپنی کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی صورتحال کیارخ اختیار کرسکتی ہے جس میں نیٹوکے دواہم اتحادی آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے کہ جس کا 80فیصدرقبہ برف سے ڈھکا ہواہے لیکن یہاں معدنی وسائل اتنی وافرمقدارمیں موجودہیں کہ جن پرسب کی نظرہے اوریہ حالات اس گرین لینڈکی56ہزارآبادی کی آزادی کی امنگ کوکیسے متاثرکرسکتے ہیں جو300 سال سے ڈنمارک کے زیرتسلط ہے۔آئیے ہم گرین لینڈکے مستقبل کے حوالے سے چارامکانات پرایک نظرڈالتے ہیں۔
گرین لینڈسے متعلق ٹرمپ کی حالیہ خواہش پرکچھ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کے بیانات محض دکھاواہوسکتے ہیں اور ان کی جانب سے ایسااس لیے کیاجارہاہے کہ ڈنمارک کواس کی ترغیب دی جائے کہ وہ روس اورچین کی جانب سے خطے میں لاحق اثرورسوخ بڑھانے کے خطرے کے پیش نظرگرین لینڈ کی سکیورٹی میں اضافہ کرے۔گذشتہ مہینے ڈنمارک نے آرکٹک کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالرکے نئے فوجی پیکج کا اعلان کیا۔اس اعلان کی تیاری ٹرمپ کے بیانات سے پہلے کی گئی تھی تاہم ٹرمپ کے بیانات کے چندگھنٹے بعد کیے جانے والے اس اعلان کوڈنمارک کی وزیردفاع نے ’’قسمت کاکھیل ‘‘قراردیا۔
ڈنمارک کے پولیٹکن اخبارکی چیف پولیٹیکل نامہ نگارایلزبتھ سوین کاکہناہے کہ ’’ٹرمپ نے جوکہااس میں اہم بات یہ تھی کہ ڈنمارک کوآرکٹک میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ورنہ اسے امریکاکوایسا کرنے کی اجازت دینی ہوگی‘‘۔رائل ڈینش ڈیفنس کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مارک جیکبسن کاخیال ہے کہ یہ ٹرمپ کا ’’امریکی صدارت سنبھالنے سے پہلے ایک مؤقف اپنانے کا معاملہ ہے جبکہ گرین لینڈ اس موقع کوآزادی کی طرف ایک اہم قدم کے طورپراستعمال کرے گاتاکہ مزید بین الاقوامی توجہ حاصل کی جاسکے۔ لہذا اگر ٹرمپ اب گرین لینڈ میں دلچسپی کھوبھی دیتے ہیں توبھی انہوں (ٹرمپ) نے یقینی طورپراس مسئلے کواجاگرکیا ہے۔تاہم گرین لینڈ کی آزادی کئی برسوں سے ایجنڈے پرہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ بحث مخالف سمت میں جا سکتی ہے۔
جیساکہ گزشتہ چنددنوں گرین لینڈکے وزیراعظم اپنے بیانات میں زیادہ پرسکون ہوگئے ہیں۔ گویاوہ گرین لینڈ کی آزادی پر رضامندہو رہے ہیں لیکن ایسافوری طورپرممکن نہیں۔ گرین لینڈمیں اتفاق رائے ہے کہ وہ بالآخرآزادی حاصل کرلے گااوریہ بھی کہ اگرگرین لینڈ اپنی آزادی کے حق میں ووٹ دیتاہے توڈنمارک اسے قبول کرے گااوراس کی توثیق بھی کرے گا۔تاہم اس بات کاامکان بھی نہیں ہے کہ گرین لینڈ عوام کیلئے صحت کی خدمات اورفلاحی سکیموں کے حوالے سے ڈنمارک سے ملنے والی سبسڈی کے مسلسل حصول کی ضمانت تک آزادی کے حق میں ووٹ دے۔
ڈنمارک کے انسٹیٹیوٹ فارانٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق’’اگرچہ گرین لینڈکے وزیراعظم ناراض ہوسکتے ہیں لیکن اگروہ حقیقت میں ریفرنڈم کااعلان کرتے ہیں تو انہیں گرین لینڈکی معیشت کو بچانے کے لئے ایک مشکل وقت کاسامناکرنا پڑے گااورفلاحی سکیموں کے حوالے سے ٹھوس بیانیے کی ضرورت ہوگی‘‘۔اس مسئلے پرایک ممکنہ حل یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ جزیرہ الحاق کی جانب بڑھے جیساکہ اس سے قبل امریکانے بحرالکاہل کے ممالک مارشل آئی لینڈز،مائیکرونیشیا اورپالاکے ساتھ کیاہے۔
ڈنمارک نے اس سے قبل گرین لینڈ اور فیروجزائر دونوں کیلئیایسے الحاق اوران کی حیثیت کی اس تبدیلی کی مخالفت کی تھی لیکن ڈنمارک کی موجودہ وزیراعظم میٹ فریڈرکسن یقینی اورمکمل طورپراس کے خلاف نہیں ہیں۔ گرین لینڈ سے متعلق ڈنمارک کی سوچ اورنظریہ 20 سال پہلے کی نسبت بہت مختلف ہے۔ڈنمارک اب اپنی ذمہ داری سمجھنے لگاہے اوران پرتوجہ دینے کی بھی کوشش کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ بات چیت فریڈریکسن کویہ کہنے پرآمادہ کرسکتی ہے کہ ڈنمارک کوآرکٹک میں رکھنابہتر ہے سوگرین لینڈکے ساتھ کچھ تعلق برقرار رکھا جاناچاہیے،چاہے وہ کمزورہی کیوں نہ ہولیکن اگرگرین لینڈڈنمارک سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے توحالیہ برسوں میں یہ واضح ہوگیاہے کہ وہ امریکا سے چھٹکاراحاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس جزیرے پرقبضہ کرنے کے بعدامریکیوں نے درحقیقت اس جزیرے کوکبھی چھوڑاہی نہیں اورامریکا اس جزیرے کواپنی سلامتی اورمستقبل کے لئے اہم سمجھتاہے۔
1951ء کے معاہدے نے اصل میں گرین لینڈ پرڈنمارک کی خودمختاری قائم کی تاہم درحقیقت اس معاہدے کی مددسے امریکاوہ سب حاصل کرنے میں کامیاب ہواکہ جووہ چاہتا تھا۔گرین لینڈکے حکام امریکاکے کردارکے بارے میں گذشتہ دوامریکی صدور کی انتظامیہ سے رابطے میں تھے اوروہ جانتے ہیں کہ امریکااس جزیرے سے کبھی نہیں جائے گا۔
(جاری ہے)