امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک — وقت گزرنے کے ساتھ امریکہ میں ٹک ٹاک کی قسمت کے فیصلے کی گھڑی بھی قریب آ رہی ہے۔
امریکہ میں ٹک ٹاک کو پابندی سے بچنے کے لیے 75 روز کے اندر اپنے چینی مالکان سے علیحدگی اختیار کرنی ہے۔ ایسے میں ٹک ٹاک کو خریدنے کے لیے کئی امیدوار میدان میں ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ٹک ٹاک میں 50 فی صد اونرشپ امریکہ کے پاس ہو۔اس سلسلے میں وہ کئی لوگوں سے بات کر چکے ہیں اور بہت سے لوگ اسے خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
ٹک ٹاک چین کی کمپنی ‘بائٹ ڈانس’ کی ملکیت ہے اور کمپنی کے مطابق امریکہ میں ٹک ٹاک کے 17 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔
قومی سلامتی سے متعلق تحفظات کی بنیاد پر بنائے گئے ایک قانون کے تحت امریکہ میں ٹک ٹاک کو 19 جنوری2025 تک یہ مہلت دی گئی تھی کہ وہ امریکہ میں اپنے تمام اثاثے فروخت کر دے یا پھر پابندی کا سامنا کرے۔
صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے ٹک ٹاک پر پابندی کو 75 روز کے لیے مؤخر کردیا تھا۔
ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔
فی الحال ٹک ٹاک نے امریکہ میں اپنی سروس بحال کر دی ہے۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود تاحال کوئی بھی حتمی امیدوار اسے خریدنے کے لیے سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ کئی نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ایلون مسک
امریکی ارب پتی بزنس مین ایلون مسک نے ٹک ٹاک کو خریدنے میں عوامی سطح پر تو دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ لیکن اُن کے بارے میں ان قیاس آرائیوں نے جنم ضرور لیا ہے کہ وہ اس ایپ کو خرید سکتے ہیں۔
ایلون مسک نے 2022 میں 44 ارب ڈالرز کے عوض ‘ٹوئٹر’ (ایکس) کو خریدا تھا۔ اسی وجہ سے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایلون مسک سوشل میڈیا کمپنیوں میں مزید سرمایہ کاری کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسک نے ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی پر تنقید کرتے ہوئے اسے سینسر شپ اور حکومتی کنٹرول کے مترادف قرار دیا تھا۔
صدر ٹرمپ بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایلون مسک ہی ٹک ٹاک کو خرید لیں جس کے بعد ان قیاس آرائیوں نے زور پکڑا ہے کہ مسک ٹک ٹاک کو خرید سکتے ہیں۔
‘ٹک ٹاک’ نے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چینی حکام ٹک ٹاک کے امریکہ میں آپریشنز ایلون مسک کے سپرد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
لیری ایلیسن
ٹیکنالوجی کمپنی ‘اوریکل’ کے شریک بانی لیری ایلیسن بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں میں شامل ہیں۔
اوریکل، امریکہ میں ٹک ٹاک کو ڈیٹا اسٹوریج سروسز بھی فراہم کرتی ہے۔ امریکی جریدے فوربز کے مطابق ایلیسن 207 ارب ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں۔ وہ 2020 میں بھی ٹک ٹاک کے امریکہ میں آپریشنز چلانے سے متعلق مذاکرات میں شامل رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں بائٹ ڈانس کو امریکہ میں اپنے ایسے تمام اثاثے 90 روز میں بیچنے کا حکم دیا گیا تھا جن سے ٹک ٹاک کے بزنس میں مدد مل سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم میں کہا گیا تھا کہ مستند ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرات سے بچانے کے لیے یہ کارروائی کرنا پڑی۔
لیری ایلیسن
اُس وقت بھی ٹک ٹاک نے امریکہ میں اپنے آپریشنز کے لیے "مائیکرو سافٹ’ ‘وال مارٹ’ اور ‘اوریکل’ سے مذاکرات کیے تھے۔ بعدازاں امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے یہ پابندی مؤخر کر دی تھی۔
مائیکرو سافٹ
امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ـ’مائیکرو سافٹ’ بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں میں شامل ہے۔
پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بھی تصدیق کی تھی کہ مائیکرو سافٹ بھی ٹک ٹاک کے حصول کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
مائیکرو سافٹ، پروڈکٹس اور سافٹ ویئر فراہم کرنے والی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔ تاہم وہ سوشل میڈیا اور سرچ بیسڈ ایڈورٹائزنگ میں زیادہ مضبوط نہیں سمجھی جاتی۔
ریسرچ کمپنی ‘سی ایف آر اے’ کے سینئر نائب صدر اینجلو زینو کہتے ہیں کہ مائیکرو سافٹ اپنی ملکیتی ‘لنکڈ ان’ کے علاوہ بھی ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
مسٹر بیسٹ
انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑا نام اور یوٹیوب پر تقریباً 35 کروڑ سبسکرائبرز اور ٹک ٹاک پر 11 کروڑ سے زیادہ فالورز رکھنے والے مسٹر بیسٹ کا نام بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ مسٹر بیسٹ کا اصل نام جمی ڈونلڈسن ہے۔
وہ آن لائن ریکروٹمنٹ پلیٹ فارم ‘ریکورٹر’ کے بانی جیسی ٹنزلی کے ساتھ مل کر ٹک ٹاک کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
مسٹر بیسٹ نے چند روز قبل ایک ‘ایکس’ پوسٹ میں کہا تھا کہ "ٹھیک ہے، میں ٹک ٹاک خریدوں گا، تاکہ اس پر پابندی نہ لگے۔”
پروجیکٹ لائبریری
ریئل اسٹیٹ اور اسپورٹس ٹائیکون فرینک میککورٹ کے ‘پروجیکٹ لبرٹی’ نے "ٹک ٹاک کے لیے عوام کی بولی” کے سلوگن کے ساتھ ٹک ٹاک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
اس مہم میں سرمایہ کار کیون اولیری بھی شامل ہیں جو ‘شارک ٹینک’ نامی ٹی وی شو کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس ٹی وی شو میں آنٹرا پنیورز اپنے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔
اس مہم میں چھوٹے سرمایہ کاروں کو بھی دعوت دی جائے گی کہ وہ ٹک ٹاک کی خریداری میں شامل ہو کر اس کے شیئر ہولڈر بن جائیں۔
پرپلیکسٹی اے آئی
آرٹیفیشل انٹیلی جینس سرچ انجن ‘پرپلیکسٹی اے آئی’ نے ایک منفرد حل تجویز کیا ہے جو ‘بائٹ ڈانس’ کے سرمایہ کار وں کو یہ موقع بھی دے گا کہ وہ ٹک ٹاک میں اپنا سرمایہ برقرار رکھ سکیں گے۔
امریکی نشریاتی ادارے ‘سی این بی سی’ کے مطابق اس تجویز کے مطابق ٹک ٹاک اپنا مواد پرپلیکسٹی کے پلیٹ فارم میں ضم کر سکے گا۔
اسٹیون منوشن
صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں وزیرِ خزانہ رہنے والے اسٹیون منوشن نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ وہ ‘ٹک ٹاک’ کی خریداری کے لیے سرمایہ کاروں کو جمع کر رہے ہیں۔
جب حال ہی میں ‘سی این بی سی’ کے پروگرام میں اُن سے اس اعلان کے بارےمیں پوچھا گیا تو منوشن کا کہنا تھا کہ اُنہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ ‘بائٹ ڈانس’ اس پر مذاکرات نہیں کرے گی۔ تاہم اب ہم موجودہ پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
نو ڈیل
ٹیک تجزیہ کار روب اینڈرل کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا ‘ٹک ٹاک’ ان میں سے کسی کمپنی کو فروخت ہو گی بھی یا نہیں۔
ماہرین کے مطابق ‘ٹک ٹاک’ کی جانب سے تاحال اس معاملے پر زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی گئی جب کہ حال ہی میں چینی چیٹ بوٹ ‘ڈیپ سیک’ نے ٹیک کمیونٹی کی توجہ حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اس معاملے پر توجہ کچھ کم ہوئی ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی سے لی گئی ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل امریکہ میں ٹک ٹاک کو ٹک ٹاک کو خرید مائیکرو سافٹ امریکہ میں ا سرمایہ کار کی خریداری ایلون مسک بائٹ ڈانس رکھتے ہیں ٹک ٹاک کی کے مطابق گیا تھا تھا کہ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں
پاکستان اور امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹس اور اداروں کے درمیان جو گہرے مراسم ہیں ان کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی اپنے ٹرمپ کارڈ سے محروم بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیماب صفت اور جذباتی ضرور ہیں لیکن پاگل نہیں، یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور اینکر پرسن فہد حسین نے اپنے نئے بلاگ میں کیا ہے جو ملک کے معروف انگریزی اخبار میں شائع ہوا ، فہد حسین لکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کھیل حتمی اور سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ پہلے نیٹ پریکٹس جاری تھی اب میچ شروع ہو گیا ہے اور پچ غیر متوقع ہے، بال بہت زیادہ سوئنگ کر رہی ہے، سپن بھی زیادہ ہے، آٹ فیلڈ بھی تیز ہے، اور تماشائیوں کا شور کھلاڑیوں کو نروس کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے حلف اٹھا لینے کی وجہ سے پاکستان کی راج نیتی کے کھیل کی گاڑی کو اگلا گیئر لگ گیا ہے، آنے والے دنوں میں مختلف حوالوں سے تیز رفتار پیش رفت ہو گی، اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ 190 ملین پائونڈ کیس میں کوئی سخت فیصلہ دے کر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی امیدوں پر پانی بھی پھیر سکتی ہے کیونکہ عمران خان کو اب تک عدت کیس جیسے جتنے بھی بے سروپا مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں ان کے مقابلے میں 190ملین پائونڈ کیس واحد مقدمہ ہے جس کی انتہائی ٹھوس بنیاد ہے، اس لئے یہ کیس عمران خان کے خلاف حکومت کا ٹرمپ کارڈ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ریاست کی طاقت نے معاملات کو حکومت کی فیور میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، حکومت اپنی پوزیشن کے حوالے سے بہت پر اعتماد ہے، لیکن اس سب کے باوجود حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی تینوں امریکہ اور واشنگٹن کی طرف بے چین نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی امریکہ میں سب کچھ بدل گیا ہے لیکن کیا اس کی وجہ سے آیا ہمارے ہاں بھی تبدیلی آئے گی؟ یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پی ٹی آئی کی تمام تر امیدیں اس وقت امریکہ سے وابستہ ہیں اور ریڈ زون کے طاقتور لوگ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے امریکہ اور ٹرمپ کے سرکلز میں پی ٹی آئی اور اوورسیز پاکستانیوں کی پہنچ اور اثر و رسوخ کا اندازہ لگانے میں غلطی کی اور اسے انڈر ایسٹیمیٹ کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 نئے جج صاحبان بھی ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے 2 روز بعد اپنا حلف اٹھا چکے ہیں، اس دوران پی ٹی آئی 190 ملین پائونڈ کیس میں اپنے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کی سزا کیخلاف اپیل دائر کر چکی ہے، اس کیس کی سماعت کے لئے جو بنچ تشکیل دیا جائے گا اس کی ساخت پر بھی بہت کچھ منحصر ہے کہ یہاں سے بھی نظر آ جائے گا کہ عمران خان اور بشری بی بی کو کس حد تک ریلیف ملنے جا رہا ہے، اگر حکومت ٹرمپ اور اسلام آباد ہائیکورٹ والے 2 اہم مراحل کو کامیابی سے عبور کر لیتی ہے تو پھر آنے والے مہینوں کے دوران وہ پرسکون انداز میں اپنے معاملات چلانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
جہاں تک پی ٹی آئی اور عمران خان کا تعلق ہے ان کا انحصار بھی انہی دو باتوں پر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ عمران خان کو چھوڑتی ہے یا نہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو یاد رکھتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں ۔ حتمی طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اگر امریکہ میں وائٹ ہائوس سے یا پاکستان میں شاہراہ دستور سے ٹرمپ کارڈ مل جاتا ہے تو نتائج غیر متوقع بھی ہو سکتے ہیں۔فہد حسین نے اپنے انگریزی بلاگ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اسے ٹرمپ کے تازہ اقدامات سے بھی تقویت مل رہی ہے، ٹرمپ کا پاکستانی اور عرب ووٹرز سے رات گئی بات گئی والا تازہ ترین سلوک اس حوالے سے الارمنگ ہے ، اس نے اپنے انتخابی وعدوں کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی فراہمی بحال کر دی ہے، اور یہ دعوی بھی سامنے آ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی وائٹ ہائوس نے جھنڈی کرا دی ہے۔ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانیوں اور مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں امریکہ کے عرب اور پاکستانی مسلم ووٹرز کا بڑا ہاتھ ہے اس لئے فلسطین اور غزہ کے ایشو پر بھی ٹرمپ کی پالیسیاں فلسطینیوں اور عربوں کو ریلیف دلوانے والی ہوں گی اور پاکستان سے متعلق پالیسیوں میں بھی تبدیلی آئے گی اور ان سے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملے گا، لیکن یہ تمام خواب اس وقت خواب پریشاں بن کر رہ گئے کہ جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں واضح اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے۔ حالیہ پیشرفت میں انہوں نے اسرائیل کو دوہزار پائونڈ طاقت کے بموں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو سابقہ بائیڈن انتظامیہ کے آخری دور میں لگائی گئی تھی ۔ ( جاری ہے)