ٹرمپ کا حماس سے ہمدردی اور حق میں مظاہرے کرنے والے طلباء و شہریوں کے خلاف سخت اقدام کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
وہائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر پروفلستینی مظاہروں میں شرکت کرنے والے شہریوں اور طلباء کے خلاف آرڈر پر دستخط کریں گے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل مخالف مؤقف کے تدارک اور شہریت کے بغیر تعلیم حاصل کرنے والے کالج طلبہ کے بے دخلی اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں حصہ لینے والے دیگربیرونی شہریوں کے خلاف ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کریں گے۔
ٹرمپ کے آرڈر کے حوالے سے جاری فیکٹ شیٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ جسٹس ڈپارٹمنٹ کو دہشت گردی کے خطرات، آگ لگانے اور امریکی یہودیوں کے خلاف کشیدگی پھیلانے والوں کے خلاف جارحانہ انداز میں سزائیں دینے کا حکم جاری کریں گے۔
فیکٹ شیٹ میں ٹرمپ نے بتایا کہ وہ تمام شہری جو دوسرے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور پروجہاد مظاہروں میں شرکت کرچکے ہیں ہم ان کو نوٹس پر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان سب کو ڈھونڈ نکالیں گے اور انہیں ملک بدر کردیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
حکومت کا بینچز اختیارات سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بینچز اختیارات سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا، اس حوالے سےاٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے آئینی بینچ کو حکومت کے موقف سے آگاہ کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز پر نظر ثانی دائر کریں گے، جس پر سماعت کرنے والے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی، نذر عباس نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی، نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا، نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیا کہ 13 جنوری کو آرڈر دیا کہ سماعت 27جنوری کو ہوگی، پھر سماعت اچانک اگلے روز کیسے مقرر ہوئی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رکنی بینچ سے ایک جج الگ ہو گئے، کیا وہ جج الگ ہوتے ہوئے آرڈر دے سکتا تھا کہ یہ کیس مخصوص بینچ میں لگے؟
انہوں نے کہاکہ نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے، اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔
عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہینِ عدالت نہیں کی،نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیکر معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا۔