کیس جسٹس منصور کے ریگولر بینچ میں کیسے فکس ہوا؟ وضاحت طلب
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان ( ایس سی پی ) نے کسٹم ایکٹ تشریح کیس میں عدالت عظمیٰ کی فکسر برانچ کے افسران کو نوٹس جاری کردیا۔
ذرائع کے مطابق ایس سی پی رجسٹرار آفس نے نوٹس کے ذریعے استفسار کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے ریگولر بینچ میں قانونی تشریح کا مقدمہ کیسے فکس ہوا؟
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ فکسر برانچ کے افسران کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی گئی ہے۔
نوٹس کے متن کے مطابق بتایا جائے کہ آئینی بینچ کا مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی ریگولر بینچ میں کیسے لگ گیا؟
ذرائع رجسٹرار آفس کے مطابق افسران سے نوٹس پر 7 روز میں جواب مانگا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ نے کسٹم ڈیوٹی ایکٹ مقدمہ آرٹیکل 191 اے کے تناظر میں سننے کا فیصلہ کیا تھا، پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے کسٹم ڈیوٹی ایکٹ کا مقدمہ آئینی بینچ کو بھجوادیا تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے گئے
کسٹمز ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے۔
جسٹس منصور نے 13 جنوری کو آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے متعلق نوٹسز جاری کیے تھے۔
دورانِ سماعت آئینی بینچ نے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس سے منسلک کرنے کا حکم دے دیا۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
جسٹس منصور کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کر دیا۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، وہ یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے، غیر آئینی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی، گزشتہ روز کے توہین عدالت والے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے، جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلوں پر نظرِ ثانی اپیل کا فیصلہ ہوا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے، کیا اس فیصلے کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر صرف چند افراد کو نہیں بلکہ سب کو ہے، جو کام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آگئی تھی، یہ بھی عدالت ہی ہے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ اور عدالتوں نے رہنا ہے، ہمیں ہی اپنے ادارے کا خیال رکھنا ہے، کوئی پریشان نہ ہو، ادارے کو کچھ نہیں ہو گا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ 13 جنوری کو آرڈر دیا کہ سماعت 27 جنوری کو ہو گی، پھر سماعت اچانک اگلے روز کے لیے کیسے مقرر ہو گئی؟
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 3 رکنی بینچ سے ایک جج الگ ہو گئے، کیا وہ جج آرڈر دے سکتے تھے کہ کیس مخصوص بینچ کے سامنے لگے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے بیرسٹر صلاح الدین سے سوال کیا کہ کیا بینچ دوبارہ قائم کرنے کا اختیار اسی جج کے پاس تھا؟
جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ ہمیں لگتا ہے تمام تنازع کے ذمے دار آپ ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ عدالتی حکمنامے کے مطابق آپ کا اصرار تھا ریگولر بینچ کیس سن سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ کیا آپ کو ہم ججز پر اعتماد نہیں؟ میں نااہل ہوں یا مجھے قانون نہیں آتا تو مجھے بتا دیں، نیا سسٹم کسی کو پسند نہیں تو وہ ایک الگ بات ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیس کا ایک حکمنامہ سابق چیف جسٹس بندیال صاحب کے دور میں فروری 2021ء کا بھی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عجیب بات ہے، 16 جنوری کے حکمنامے میں کہا گیا کیس کو سنا گیا، سمجھا جائے، کیس یا سنا گیا ہوتا ہے یا نہیں سنا گیا ہوتا، یہ سنا گیا سمجھا جائے، اس کی اصطلاح کہاں سے آئی؟
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ میرے پاس 13 جنوری کے 2 حکمنامے موجود ہیں، پہلے میں کہا گیا کیس کی آئندہ سماعت 27 جنوری کو ہے، دوسرے حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 16 جنوری ہے، حکمنامے میں کیس کی تاریخ تبدیل کی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کو رول27 اے کا نوٹس دیے بغیر کیسے کہا گیا کیس سنا ہوا سمجھاجائے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر ہم سب کو ہے، کام ضرور کریں لیکن قانون کےمطابق کریں، غیر قانونی طریقے سے کام نہ کریں، ڈھنگ سے کام کریں، کیا ہم نے ریگولر بینچ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا؟ ہم نے تو صرف کیس سنا۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، فیصلے میں تو ججز کےنام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈر ہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آپ بتا دیں کہ کیس کس بینچ کے سامنے چلے گا؟ کیا یہ کیس ہم خیال کے پاس جائے یا یہاں چلے؟ کیوں ایسا تاثر وکلاء کی جانب سے دیا جارہا ہے؟ ہماری بھی عزت ہے، ایسا کرتے ہیں کہ کیس 20 سال تک ملتوی کر دیتے ہیں۔
بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ آپ میری ساکھ کو چیلنج کر رہے ہیں، میں بھی آپ کو سخت جواب دوں گا۔
جسٹس مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں ہم آپ کے جذبات کا احترام کرتے ہیں، نام تو بدنام ویسے ہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ ہم غیر قانونی بیٹھے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ ہمارا بھی وقار ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے فائدہ لینے کی معلوم نہیں کہاں سے بات چل نکلی ہے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب تک 26ویں ترمیم ہے، انکار نہیں کر سکتے، جن کیسز کا وکلاء نے حوالے دیے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ اپنی باری آئی تو آئین کو اٹھا کر ٹوکری میں پھینک دیا۔
جس کے بعد آئینی بینچ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔