خیبر پختونخوا :کرم میں بنکرز گرانے کا کام پھر شروع، کھانے پینے کی قلت
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کرم :خیبر پختونخوا کے علاقے پاراچنار اور کرم میں آپریشن کرتے ہوئے بنکرز گرانے کا کام دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بنکرز گرانے کے آپریشن میں پارا چنار میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت میں مزید اضافہ ہوگیاہے، ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرنے کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں، لوئر کرم میں اب تک فریقین کے 10 بنکرز گرائے جا چکے ہیں۔
خیال رہےکہ حکومت کی جانب سے اب تک اشیا خوردونوش سے بھرے 313 ٹرک پہنچائے جاچکے ہیں تاہم یہ ٹرک بھی خوراک کی کمی پوری نہ کر سکے، اس حوالے سے علاقہ مکینوں نے مزید کم از کم 500 ٹرک بھجوانے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہےکہ قبائلی عمائدین نے آپریشن کی مخالفت کرتےہوئے مذاکرات سے معاملات حل کرنے کی صلاح دی تھی، لیکن حکومت نے بڑھتی ہوئی کشید گی کو کم کرنے کے لیے بنکرز کو گرانے کے لیے آپریشن شروع کردیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا وفاقی حکومت سے صوبے کے آئینی و قانونی حق کا مطالبہ
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے کی آئینی و قانونی حقوق دیں، یہ ہمارا حق ہے، پن بجلی کے منافع، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق ہمارے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں۔ پشاور میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں وفاقی حکومت سے آئینی و قانونی مالی حقوق کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں پن بجلی کے منافع، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے فنڈز پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے واجب الادا ہیں، جبکہ عبوری طریقہ کار کے تحت مزید 77 ارب روپے کی ادائیگی بھی باقی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ مطالبات غیر قانونی نہیں، بلکہ آئینی و قانونی حق ہیں۔ ضم اضلاع کے ترقیاتی اور جاریہ اخراجات کی مد میں بھی وفاقی فنڈز کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ضم اضلاع کے حالات خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں، اور این ایف سی ایوارڈ پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکام نے صوبائی مؤقف سے اصولی اتفاق کیا اور یقین دہانی کرائی کہ واجبات کی ادائیگی اور دیگر معاملات ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ اجلاس میں اوٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس بلانے اور سی سی آئی میں سفارشات پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔