اسلام آباد: وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح 11 بجے ہوگا جس میں 13 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔
کابینہ پی ٹی آئی دور حکومت میں پی آئی اے ہوابازوں سے متعلق بیان کی تحقیقات پر غور کرے گی۔ اس کے علاوہ وفاقی کابینہ مڈل ایسٹ گرین اینشی ایٹو چارٹر کی منظوری دے گی کابینہ وزارت تجارت کی سفارش پر ٹیرف ریٹ کوٹا کی تقسیم کی سمری پر غور کرے گی۔
ایکس سروس مین کے لئے وزیراعظم معاونت پیکج کے تحت سروس واجبات کی ادائیگی کی سمری پر غور کیا جائے گا، دارالحکومت میں خصوصی عدالتوں کے قیام اور احتساب عدالت نمبر 3 کی تشکیل نو کی سمری پر غور کیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کی تعیناتی کی منظوری دے گی۔کابینہ قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کی منظوری دے گی۔
اس کے علاوہ دارالحکومت میں طب کی تعلیم کے لئے سیٹس کے کوٹہ میں ردوبدل پر غور کرے گی۔کابینہ قومی فنڈ برائے ثقافت و ورثہ کے بورڈ آف گورنرز کی تعیناتی کی منظوری دے گی، پاکستان کسٹمز اور آذربائہجان کی اسٹیٹ کسٹمز کمیٹی کے درمیان معاہدے کی منظوری دے گی۔
کابینہ کمیٹی برائے ریاستی ملکیتی ادارہ جات کے 17 دسمبر 2024 کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کرے گی۔کابینہ کمیٹی برائے قانونی معاملات کے 22 جنوری کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی منظوری دے گی وفاقی کابینہ گی کابینہ کرے گی

پڑھیں:

خیبرپختوخوا واجبات: وفاقی حکام کا صوبائی حکومت کے مؤقف سے اتفاق

وفاقی حکام نے وفاق کے ذمے واجبات کے حوالے سے خیبرپختوخوا حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: واجب الادا 75 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وزیراعظم کو خط

پریس سیکریٹری برائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پیر کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کے ایک اجلاس میں وفاق پر صوبے کے واجبات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور وفاقی حکام نے اس حوالے سے صوبائی حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کیا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر آبی وسائل کے علاوہ متعلقہ وفاقی سیکریٹریز جبکہ متعلقہ صوبائی اراکین کابینہ،  چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

اس دوران پن بجلی کے خالص منافعے کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

متعلقہ صوبائی حکام کی طرف سے اجلاس کے شرکا کو مذکورہ معاملات پر بریفنگ۔ اجلاس میں ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے وفاقی سطح پر کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

صوبائی حکام نے اجلاس کو بتایا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ پن بجلی کے منافع کی ادائیگیوں  کے عبوری طریقہ کار کے تحت  بھی وفاق کے ذمے 77 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ ان ادائیگیوں کے طریقہ کار کے لیے آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے۔

مزید پڑھیے: صوبے کو حقوق نہ دیے گئے تو تحریک چلائیں گے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

صوبائی حکومت نے کہا کہ آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کی سفارشات کی حتمی فیصلے کے لیے جلد سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کی جائیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس سلسلے میں وزیر اعظم کو مراسلہ بھی ارسال کرچکے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام تو ہوگیا لیکن مالی انضمام ابھی تک نہیں ہوا۔ قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی مجموعی ملکی آبادی کے 14.7 فیصد سے بڑھ کر 17.7 فیصد ہوگئی لہٰذا آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 14.2 فیصد سے بڑھ کر 19.46 بنتا ہے اور اس حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 350 ارب روپے ملنے ہیں۔

صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے وفاقی حکومت جلد سے جلد موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرے۔ اس وقت ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ بھی وفاقی حکومت کے ذمے ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ کا حجم 127 ارب روپے ہے لیکن اس کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے صرف 66 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

صوبائی حکومتنے بتایا کہ باقی خسارہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے پورا کر رہی ہے لہٰذا وفاقی حکومت اس بجٹ کو بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل پر پی ٹی آئی حکومت مشکل میں، اپنے ہی ارکان کی مخالفت

اجلاس میں بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی آبادی کاری کے لیے وفاق نے مزید  66 ارب روپے دینے ہیں۔ ضم اضلاع کے 10 سالہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لیے وفاق نے سالانہ 100 ارب فراہم کرنے تھے۔ اس مد میں وفاق نے اب تک 600 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 122 ارب روپے فراہم کیے ہیں

صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ وفاق کی طرف سے اے آئی پی پروگرام کے لیے کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی اقدام ہے۔

 اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ  پن بجلی کے منافع،  این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق ہمارے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں اور ہم نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ اضافی مانگ رہے ہیں لہٰذا ان معاملات سے متعلق وفاقی حکومت آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضم اضلاع کے مخصوص حالات وفاق کے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے وفاقی حکومت جلد اجلاس بلائے۔

اس موقعے پر وفاقی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ ضم اضلاع کے فنڈز کی فراہمی کے لیے ترجیحی بنیادوں اقدامات کیے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبر پختونخوا واجبات خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت صوبے کے آئینی و قانونی حقوق دے. علی امین گنڈا پور
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • خیبرپختوخوا واجبات: وفاقی حکام کا صوبائی حکومت کے مؤقف سے اتفاق
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی حکومت کا رواں سال گندم کی خریداری نہ کرنے کا فیصلہ
  • خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کی منظوری مؤخر کیوں کی گئی؟
  • قومی اسمبلی کا اجلاس آج صدر نے سینٹ کاکل طلب کرلیا 
  • کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اختیار ولی
  • وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویرحسین سے چائنہ ڈونکی انڈسٹری کے وائس پریذیڈنٹ زاہو فی کی ملاقات