WE News:
2025-01-30@13:46:52 GMT

گرین لینڈ کے باشندوں کا ٹرمپ کو منہ توڑ جواب

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

گرین لینڈ کے باشندوں کا ٹرمپ کو منہ توڑ جواب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ کو امریکا میں ضم کرنے کے حوالے سے گرین لینڈرز کے شہریوں کی رائے سامنے آگئی۔

یہ بھی پڑھیں: کولمبیا کے صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کھری کھری سنا دیں

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک رائے عامہ کے سروے کے نتیجے میں پتا چلا ہے کہ گرین لینڈ کے 85 فیصد باشندے اپنے آرکٹک جزیرے اور ڈنمارک کے ایک نیم خودمختار علاقے کو امریکا کا حصہ بنائے جانے پر راضی نہیں ہیں۔

سروے کیے گئے افراد کی تقریباً نصف تعداد نے کہا کہ وہ امریکی صدر کی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ارادے کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔

ٹرمپ نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ گرین لینڈ امریکی سلامتی کے لیے اہم ہے اور ڈنمارک کو اسٹریٹجک لحاظ سے اہم جزیرے کا کنٹرول ترک کر دینا چاہیے۔

ڈینش اخبار برلنگسک اور گرین لینڈ کے روزنامے Sermitsiaq کی طرف سے کمیشن کیے گئے سروے سے پتا چلا کہ صرف 6 گرین لینڈ کے باشندے اپنے جزیرے کے امریکا کا حصہ بننے کے حق میں ہیں جب کہ 9 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔

سروے سے پتا چلا کہ 45 فیصد نے گرین لینڈ میں ٹرمپ کی دلچسپی کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا، 43 فیصد نے کہا کہ وہ اسے ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ 13 اس معاملے پر خاموش رہے۔

گرین لینڈ کو ڈنمارک کی طرح یونیورسل ہیلتھ کیئر اور مفت تعلیم سمیت بہت سے فلاحی فوائد حاصل ہیں۔

رائے شماری کرنے والوں میں سے صرف 8 فیصد نے کہا کہ وہ اپنی ڈنمارک کی شہریت کو امریکی شہریت میں بدلنے کے لیے لیے تیار ہیں، 55 فیصد نے کہا کہ وہ ڈینش شہری بننے کو ترجیح دیں گے اور 37 فیصد نے اپنا کوئی فیصلہ نہیں بتایا۔

یاد رہے کہ ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے منگل کو کہا تھا کہ انہوں نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر اولاف شولز اور نیٹو کے چیف سیکریٹری جنرل مارک روٹے سے ملاقاتوں کے بعد بین الاقوامی سرحدوں کے احترام کو برقرار رکھنے کے اصول کی مکمل حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ یہ سروے اس بات کا اظہار ہے کہ بہت سے گرین لینڈ کے باشندے ڈنمارک کے ساتھ مسلسل قریبی تعاون دیکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کا ٹرمپ کا پلان عرب لیگ نے مسترد کردیا

قبل ازیں ڈنمارک نے کہا تھا کہ وہ آرکٹک میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے کے لیے 14.

6 بلین کراؤن (2.04 بلین ڈالر) خرچ کرے گا۔

گرین لینڈ رقبے کے اعتبار سے میکسیکو سے بڑا ہے اور اس کی آبادی 57 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اسے سنہ 2009 میں وسیع خود مختاری دی گئی تھی جس میں ریفرنڈم کے ذریعے ڈنمارک سے آزادی کا اعلان کرنے کا حق بھی شامل ہے۔

گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈے بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ جزیرہ فروخت کے لیے نہیں ہے اور یہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام پر منحصر ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ حکم نامہ، پاکستان سے امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا

امریکی فوج کی شمال مغربی گرین لینڈ میں پٹوفک اسپیس بیس پر مستقل موجودگی ہے جو کہ اس کے بیلسٹک میزائل کے ابتدائی وارننگ سسٹم کے لیے ایک اسٹریٹجک مقام ہے کیونکہ یورپ سے شمالی امریکا تک کا مختصر ترین راستہ اسی جزیرے یعنی گرین لینڈ سے گزرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ گرین لینڈ بنے گا امریکا گرین لینڈ کے باشندوں کا فیصلہ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ گرین لینڈ بنے گا امریکا گرین لینڈ کے باشندوں کا فیصلہ گرین لینڈ کے نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ فیصد نے کے لیے

پڑھیں:

غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!

لاس اینجلس میں لگی آگ کی راکھ ابھی صاف بھی نہ ہوپائی تھی کہ سیمابی طبیعت کے حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ کی صفائی کا خیال ستانے لگا، ان کی خواہش ہے کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن کو قائم کیا جاسکے، اس ضمن میں انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات بھی کرلی ہے جب کہ مصری صدر سے بھی رابطے کے خواہش مند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ہم اس سارے معاملے کو صاف کررہے ہیں، میں پوری غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، یہاں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے، دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ امریکا غزہ کے باشندوں کی بڑی تعداد انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے، دریں اثناء امریکی وزیرخاجہ مارکو روبیو نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا حصہ بننے پر اظہارِ مسرت کیا، مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت برقرار رکھنا ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی ترجیح ہے، ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں، خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہیں، نیتن یاہو نے اسرائیل کی دفاع کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال پر مصر کی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کو مسترد کردیا ہے، اردن کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرتا ہے اور اس عزم میں ہم ثابت قدم اور غیر متزلزل ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید اور مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کا کہنا ہے کہ ہم تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے، ہم نے 15 ماہ تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کیا ہے، ہم نے موت اور تباہی تک کو برداشت کیا، ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان اطلاعات پر غزہ کے باشندوں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے، یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے، ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے کہ ہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایا جائے، ماضی میں بھی ہمیں اپنی مقدس سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی اب پھر کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد غزہ میں اچانک جنگ بندی پر کئی حلقے اس امر کے منتظر تھے کہ ’’دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟‘‘ بادی النظر میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ فلسطین اور یوکرین سمیت ہر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے کوشش کریں گے جہاں جنگ جاری ہے مگر جو حقائق و عزائم سلسلہ وار منظر پر عام آرہے ہیں، اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے، یوں تو فلسطینیوں کو بے گھر کرکے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے تاہم غزہ جنگ کے فوری بعد بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نہ بھی کیا جاتا تب بھی غزہ پر اسرائیل کسی صورت حملے سے باز نہیں آتا، اب ایک بار پھر اس خدشے کے عملی مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اسرائیل غزہ کو اس کے ساحلی گیس کے وسائل کی وجہ سے مکمل طور پر خالی کرانے کا خواہش مند ہے، جب اس خواہش کی بیل کسی طور منڈھے نہ چڑ ھ سکی تو اس نے 8 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کو جواز بنا لیا، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جان بوجھ کر انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا گیا، پے درپے بمباری کے ذریعے اسپتالوں اور رہائشی مکانوں کو ملیا میٹ کیا گیا، رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ کو عملاً کھنڈرات میں اسی لیے تبدیل کیا گیا کہ غزہ کسی طور رہائش کے قابل نہ رہ سکے اور غزہ کے باشندے غزہ خالی کردیں اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے، بد قسمتی سے امریکی انتظامیہ اسرائیل کے ان عزائم اور منصوبوں کی ہمرکاب ہے، غزہ پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری اور اب ٹرمپ کے حالیہ عزائم اس امر کی حقیقت پر دال ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ارشادات انہی منصوبے کا حصہ ہیں، اس صورتحال کو غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، فلسطین کے ساحل سے تقریباً 36 کلومیٹر مغرب میں بحیرۂ روم میں واقع ایک قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے، یہ ذخیرہ فلسطینی علاقوں میں دریافت ہونے والا پہلا گیس فیلڈ ہے، جو غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے میدان میں ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذخیرہ 1.1 ٹریلین کیوبک فٹ گیس پر مشتمل ہے، جو بیس سال تک سالانہ 1.5 بلین مکعب میٹر گیس فراہم کر سکتا ہے۔ گیس کے یہ ذخائر سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور غزہ میں جب تک حماس موجود ہے اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تاہم اسرائیل، امریکا اور مغرب کے جو بھی عزائم ہوں، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت پر کسی طور خط ِ تنسیخ نہیں پھیرا جاسکتا اور نہ ہی زور بردستی غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جاسکتا ہے، اردن سے کہا جارہا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دے جب کہ بائیس لاکھ فلسطینی پہلے ہی وہاں پناہ گزین کمیپوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ لبنان، شام، مصر، سعودی عرب، کویت، قطر، ترکی اور دیگر ممالک میں لاکھوں فلسطینی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے ہی ہفتے جس نوع کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی پر مبنی امریکا کی تباہ کن خارجہ پالیسی جوں کی توں برقرار رہے گی اور ٹرمپ بھی صہیونی قیادت کی زلفِ گرہ گیر کے اسی طرح اسیر رہیں گے جس طرح ان کے پیش رواسرائیلیوں پر فریفتہ تھے، جو مہلک بم، بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس سے انسانی المیہ جنم لے گا، اسرائیلی محبت میں وہ مہلک بم بھی اسرائیل کو فراہم کردیے، اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں تاریخ میں انہیں امن قائم کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے مگر حالیہ بیان کسی طور بھی ان کی اس خواہش سے ہم آہنگ نہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے سے وہاں کے باشندوں کی جبری بے دخلی جنگی جرم اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے، فلسطینی باشندے کسی بھی قیمت پر ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، 15 ماہ تک غزہ کے عوام نے اپنے عزم، ہمت اور استقامت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ غزہ تو کیا اس کی ایک انچ زمین سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کی علی الرغم جارح قوت کو روکنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے عزائم جلتی پر تیل چھڑنے کے مترادف ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ تیل چھڑک کر آگ لگانے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، امریکا اور مغرب کا یہی وہ دہرا طرز عمل ہے جس کے رد عمل کو دہشت گردی پر محمول کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟ گرین لینڈ کے شہریوں کی رائے سامنے آگئی
  • گرین لینڈ کے 85فیصد شہری امریکا میں شمولیت کیخلاف ہیں‘ سروے
  • گرین لینڈ: پچاسی فیصد لوگ امریکہ میں شامل ہونے کے خلاف
  • فلسطینیوں کی جگہ امریکا اسرائیلیوں کو نکال کر گرین لینڈ میں بسادے‘ ایران
  • فلسطینیوں کی جگہ امریکا اسرائیلیوں کو نکال کر گرین لینڈ میں بسادے، ایران
  • فلسطینیوں کی جگہ امریکا اسرائیلیوں کو بے دخل کرے، انہیں گرین لینڈ میں بسادے، ایرانی وزیر خارجہ
  • گرین لینڈ،پانامااور کینیڈا،امریکا کے نئے اہداف ہیں؟
  • ڈنمارک کا گرین لینڈ اور جزائر فیرو کے ساتھ شراکت پر دو ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ
  • غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!