بالی وڈ اداکار سیف علی خان اور ان کی اہلیہ کرینہ کپور نے فوٹوگرافرز اور میڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے بچوں تیمور علی خان اور جہانگیر (جے) علی خان کی تصاویر نہ لیں اور نہ ہی ان کے گھر کے باہر موجود رہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، یہ درخواست 16 جنوری کو سیف علی خان کے گھر میں ہونے والی ڈکیتی اور حملے کے بعد کی گئی ہے، جس میں اداکار شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد جوڑے نے اپنی اور بچوں کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
جوڑے کے منیجر نے میڈیا سے گزارش کی کہ:"چاہے گارڈن ہو، کوئی تقریب یا کھیل کی سرگرمی – براہ کرم بچوں کی تصاویر نہ لیں۔"
البتہ، سیف علی خان اور کرینہ کپور کی کسی بھی تقریب میں شرکت کی تصاویر لی جا سکتی ہیں، لیکن ان کے گھر کے باہر فوٹوگرافرز کا ہجوم نہ ہو اور ان کی آمد و رفت کی تصویریں بھی نہ لی جائیں۔
16 جنوری کی رات 3 بجے ممبئی کے باندرا میں سیف علی خان کے گھر میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی، جسے اداکار نے مزاحمت کرکے ناکام بنایا۔
اس دوران سیف پر چاقو سے حملہ کیا گیا، جس سے انہیں 6 زخم آئے، جن میں سے دو کافی گہرے تھے، اور ایک زخم ریڑھ کی ہڈی کے قریب لگا۔ سیف کو فوری طور پر رکشہ کے ذریعے اسپتال لے جایا گیا، جہاں آپریشن کے بعد ان کی ریڑھ کی ہڈی سے 2.
5 انچ کا چاقو کا ٹکڑا نکالا گیا۔
سیف کو 6 دن بعد اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ:
سیف علی خان
ان کے گھر
کے بعد
پڑھیں:
مذاکرات کی دوسری نشست میں پی ٹی آئی نے عمران خان‘ شاہ محمودقریشی کی رہائی کا مطالبہ کیا. عرفان صدیقی کا دعوی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جنوری ۔2025 )حکومتی مذاکراتی
کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے دعوی کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کی دوسری نشست میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور محمود الرشید کی رہائی کا مطالبہ کیا تھاایک انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پی ٹی آئی کمیٹی سے رابطہ کیا اور مذاکرات کی دعوت دی ہمارا پہلے موقف تھا حکومتی کمیٹی تحلیل کر دیں لیکن 31جنوری تک برقرار رکھاہم آج بھی میٹنگ کیلئے تیار ہیں لیکن پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی تحلیل کر دی، سیاسی اور جمہوری پارلیمانی رویہ ہے جس میں سخت مزاجی
نہیں لانا چاہتے، ہم بچوں والا کھیل نہیں بنانا چاہتے کہ اب مذاکرات نہیں ہوں گے.
عرفان صدیقی نے کہا کہ طے کیا گیا تھا کہ باہر کچھ بھی ہو کمیٹیوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا لیکن اس کے بعد پی ٹی آئی نے ایسا رویہ رکھا جو نہیں رکھنا چاہیے تھا، میرے ذرائع کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، ان کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی . انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ساری پالیسیوں کا مقصد عمران خان کو اڈیالہ سے باہر لانا ہے، ان کی پالیسی کا محور بھی ہے کہ وہ کس طرح جیل سے باہر آئیں، پی ٹی آئی نے 2مطالبات کی آڑ میں 15مطالبات پیش کیے، پی ٹی آئی ہمارا جواب سنے بغیر ہی دیوار پھلانگ کر مولانا فضل الرحمان کے پاس پہنچ گئی لیکن ان کو بھی پی ٹی آئی کی اصلیت معلوم ہے.
ان کا کہنا تھا کہ خوشی ہے جو جماعت مذاکرات نہیں جانتی تو وہ اس کی مشق کر رہی ہے، سڑکوں پر آنے کے بجائے مذاکرات کیے جا رہے ہیں اچھی بات ہے، پی ٹی آئی سب کچھ کرنے کے بعد سڑکوں پر آئی تھی، پی ٹی آئی دوبارہ لشکر کشی کا راستہ اپناتی ہے تو ریاست بھی مقابلہ کرے گی. انہوں نے کہا پی ٹی آئی کمیٹی نے عمران خان سمیت چند ارکان کا نام لے کر رہائی کا مطالبہ کیا کمیٹی کے بیان کردہ نام لمبی فہرست ہے ہم نے این آر او کا نام نہیں دیا حکومت عمران خان کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرتی تو یہ پھر کوئی مطالبہ نہ کرتے مطالبات کی آڑ میں پی ٹی آئی کا مقصد کچھ اور ہے پی ٹی آئی ہمارے ساتھ بیٹھتی تو بات کرتے انہوں نے ہم پر تھوپ دیا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنا رہے .
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی بیٹھتی اور بات کر لیتی اس کے بعد آگے صورتحال دیکھتے، ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور کارکنان کو مطمئن کر رہے ہوتے ہیں، جمہوری طریقے سے کوئی قدم بڑھایا جاتا ہے تو شاید مولانا فضل الرحمان کچھ ساتھ دے دیں، غیر جمہوری طریقہ اپنایا جائے گا تو پھر وہ پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیں گے.