جنید اکبر قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی امور کی چیئرمین شپ سے مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی جنید اکبر نے قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی امور کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا۔جنید اکبر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوور سیز پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈ ویلپمنٹ کے چیئرمین تھے۔انہوں نے اپنے استعفے میں کہا ہے کہ میں 24 جنوری کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہوا ہوں، قائمہ کمیٹی برائے اوور سیز پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیتا ہوں۔جنید اکبر کا استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو ارسال کردیا گیا ۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سینٹ کمیٹی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دیدی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر فیصل سلیم کی صدارت میں ہوا جس میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کا بل پاس کردیا۔پیکا ترمیمی بل پر بحث کے دوران صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل پر مخالفت کی گئی، چیئرمین کمیٹی نے صحافتی تنظیموں سے اپنی تحریری سفارشات پیش نہ کرنے پر سوالات اٹھا دیئے، انہوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں کو چاہیے تھا کہ اپنی تحریری سفارشات کمیٹی میں رکھتے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے اجلاس میں کہا کہ اس ملک میں کسی کو ہتھکڑیاں لگانے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی قانون کی ضرورت ہو، مجھے خود کرایہ داری کے قانون کے تحت پکڑا گیا تھا۔دوران اجلاس کامران مرتضیٰ کی جانب سے پیکا بل کی مخالفت کی گئی، تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔اجلاس میں سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ قانون لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے، قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کو اسی صورت میں منظور کیا جائے گا۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیر اطلاعات کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات میں کچھ ترامیم پر اتفاق ہوا ہے، کیا وزارت داخلہ قومی اسمبلی سے منظور بل میں نئی ترامیم چاہتی ہے؟اینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے سینیٹ کمیٹی میں بل پر اعتراضات کیے گئے، جن میں کہا گیا کہ ہمیں وقت ہی نہیں دیا گیا کہ ہم اس بل پر تجاویز لاسکیں، صحافتی تنظیموں نے کہا کہ اس بل میں بہت سی خامیاں ہیں، اس بل کے نتیجے میں بہتری کے بجائے خرابی ہو گی، بل میں فیک نیوز کی تشریح بہت مبہم ہے۔صحافتی تنظیموں نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم خود فیک نیوز کے متاثرین ہیں، فیک نیوز کے لیے قانون کے حامی ہیں لیکن موجودہ صورت میں بل ہمیں قبول نہیں ہے۔