واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 جنوری ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ مائیکروسافٹ ٹک ٹاک کو خریدنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایپ کی فروخت کے لیے بولی لگائی جائے امریکی جریدے کے مطابق ٹک ٹاک پر امریکی صارفین کی تعداد تقریباً 17 کروڑ ہے ایپ کو رواں سال 19 جنوری کو قانون کے تحت پابندی کا سامنا کرنے سے قبل ہی چینی کمپنی ”بائٹ ڈانس“ کے مالکان کی جانب سے آف لائن کردیا گیا تھا.

(جاری ہے)

قانون میں یہ بات شامل ہے کہ آیا بائٹ ڈانس کمپنی کا مالک اسے قومی سلامتی کی بنیاد پر فروخت کرے یا پابندی کا سامنا کرے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے قانون کے نفاذ کو 75 دن کے لیے موخر کرنے کا حکم دیا تھا گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا تھا کہ وہ ٹک ٹاک کو خریدنے کے حوالے سے متعدد افراد سے رابطے میں ہیں اور ممکنہ طور پر 30 دن کے اندر مقبول ایپ کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کر لیں گے.

اس سے قبل امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر ٹیسلا کے ارب پتی سی ای او ایلون مسک چاہیں تو ٹک ٹاک خرید سکتے ہیں، تاہم ایلون مسک نے ٹرمپ کی اس پیشکش پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں مصنوعی ذہانت کے اسٹارٹ اپ’ ’پرپلیکسٹی اے آئی“ نے ٹک ٹاک کے ساتھ انضمام کی پیشکش کی ہے جس کے تحت امریکی حکومت کو مستقبل میں نئی کمپنی کا نصف حصہ ملے گا مائیکرو سافٹ کی بھی ٹک ٹاک کو خریدنے کی دوڑ میں شامل ہونے کی خبریں دوسری مرتبہ زیر گردش ہیں.

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹک ٹاک کو اپنے امریکی ورژن کو’ ’بائٹ ڈانس“ سے الگ کرنے کا حکم دیا تھا 2020 میں مائیکروسافٹ سب سے زیادہ بولی لگانے والی کمپنی کے طور پر سامنے آئی تھی تاہم یہ مذاکرات جلد ہی ناکام ہو گئے اور ٹرمپ کی یہ کوشش ان کے عہدہ چھوڑنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہوگئی تھی. مائیکرو سافٹ کے سربراہ ستیا نڈیلا کا 2021 میں اس معاہدے کو عجیب و غریب قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ میرے آج تک کے تمام پروجیکٹس میں سب سے عجیب چیز ہے ان کا کہنا تھا کہ پہلے امریکی حکومت کے مخصوص مطالبات تھے اور پھر وہ غائب ہو گئی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹک ٹاک کو خریدنے ڈونلڈ ٹرمپ نے تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ ٹیرف مضمرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کی واحد سپرپاور کے صدر کا حلف اٹھا کے ابھی تین ماہ بھی نہیں گزرے کہ ان کے بعض فیصلوں اور اقدامات سے دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ لہولہان غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور دیگر ممالک میں ان کی آبادکاری کے اعلان سے لے کر محصولات میں اضافے کے تازہ اعلان تک ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے اور اقدامات عالمی سطح پر تنقید اور تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ نئی ٹیرف پالیسی کے بعد نہ صرف امریکا کی اپنی معیشت بلکہ عالمی معاشی نظام بھی بری طرح متاثرہوا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے چین، روس، یورپی و دیگر ممالک سے امریکا درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد امریکی صنعت و تجارت کو بیرونی دنیا کے منفی اثرات سے بچانا ہے۔ اگرچہ کچھ امریکی کمپنیوں کو وقتی طور پر اس سے فائدہ ضرور ہوا لیکن دوسری جانب بعض اشیا کی قیمتیں عام صارف کی دسترس سے باہر ہوگئیں اور مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

بعینہ امریکی اقدام کے جواب میں بعض ممالک نے امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کر دیے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا بالخصوص امریکا اور چین اس تجارتی جنگ میں آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ روس، چین اور یورپی یونین نے ٹرمپ ٹیرف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی تجارتی نظام پر حملہ قرار دیا ہے۔

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے اعلان کے فوری بعد دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں۔ تاجروں کے کھربوں روپے ڈوب گئے اور تیل کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ ساز مندی دیکھی گئی اور 100 انڈیکس 3,882 پوائنٹس کم ہو گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑنے کے پیش نظر حکومتی سطح پر ایک اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجا جا رہا ہے جس میں معروف برآمد کنندگان اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔

پاک امریکا تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ٹرمپ کے تازہ فیصلے سے تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کی گزشتہ بیوقوف قیادت کو دنیا نے بری طرح استعمال کیا۔ ہم ٹیرف کے ذریعے اربوں ڈالر امریکا لا رہے ہیں۔ جب کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ امریکی ٹیرف سے عالمی کساد بازاری کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ تجارت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا جارجیوا کا موقف ہے کہ امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔

محصولات میں یکدم اضافے کے ٹرمپ فیصلے پر عالمی سطح پر منفی ردعمل سامنے آنے کے بعد امریکی صدر نے ان ممالک پر جوابی ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کر دیا جنھوں نے امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس عائد نہیں کیے تھے،ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جب کہ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چین سمیت دنیا بھر کے ممالک سے ٹیرف کے مسئلے پر بات چیت اور ڈیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا کا اصل نشانہ چین ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے اقدامات سے چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

چین بڑی خاموشی اور حکمت کے ساتھ اپنی معاشی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ امریکا کو خطرہ ہے کہ آیندہ چند برسوں میں چین دنیا کی سپر معاشی قوت بن کر ابھر سکتا ہے جو امریکی کی ’’سپرمیسی‘‘ کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اسی باعث وہ چین پر معاشی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے لیکن بظاہر چین امریکا کے ساتھ ٹرمپ کی شرائط پر کوئی ڈیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے چین نے بھی صدر ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے کے بعد جوابی اقدام اٹھاتے ہوئے امریکا سے درآمد ہونے والی تمام امریکی مصنوعات پر 84 فی صد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے بات چیت کرنے اور چین کے اشاروں کے بعد70 سے زائد ممالک نے ان کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی ہے۔

صدر ٹرمپ کے ٹیرف اعلان سے عالمی سطح پر معاشی جنگ اور تجارتی تنازعات میں اضافہ ہو سکتا ہے بالخصوص چین اور امریکا کے درمیان معاشی کشمکش سے پوری دنیا کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے صدر ٹرمپ کو ٹیرف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر امریکی معاشی نظام بھی ڈگمگا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران جوہری ہتھیاروں کا خواب چھوڑ دے ورنہ سنگین ردعمل کیلئے تیار رہے: ٹرمپ
  • روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میری نہیں بائیڈن کی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا لڑائی ختم کرنے پر زور
  • ایران سے متعلق فیصلہ جلد کریں گے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران سے متعلق فیصلہ جلد کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طور پر صحت مند ہیں؟ رپورٹ جاری
  • کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • ایرانی صوبےسیستان بلوچستان میں مسلح افراد کا حملہ، 8 پاکستانی جاں بحق
  • امریکی کمپنی ٹیسلا کا سعودی عرب میں آپریشن کا آغاز