گرین لینڈ،پانامااور کینیڈا،امریکا کے نئے اہداف ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کی اقتصادی بیان بازی شایدڈنمارک کے لئے سب سے بڑاخطرہ ہے کیونکہ امریکا ڈنمارک اوریہاں تک کہ یورپی یونین کی اشیاپرمحصولات میں نمایاں اضافہ کررہاہے جس کی وجہ سے ڈنمارک کوگرین لینڈکے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے پرمجبورکیاجارہاہے اور ڈنمارک کی حکومت کودیگرحالت کی وجہ سے اس جزیرے پر توجہ دینے کے لئے مجبورکیاجارہاہے توایسے میں یہ کہاجاسکتاہے ڈنمارک کی اس جزیرے پرتوجہ میں دیگرعوامل بھی کارفرماہیں۔
ٹرمپ تمام امریکی درآمدات پر10فیصدبراہ راست ٹیرف لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دیگر چیزوں کے علاوہ اس سے یورپی ممالک کی ترقی میں بہت سی مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ لہٰذاڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کی کچھ کمپنیاں اب امریکامیں پیداواری مراکزقائم کرنے پرغورکررہی ہیں۔بین الاقوامی قانونی فرم’’پلزبری‘‘کے بینجمن کوٹ نے ویب سائٹ ’’مارکیٹ واچ‘‘کوبتایاکہ ٹیرف میں اضافے کے ممکنہ اختیارات میں1977ء کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے)کواستعمال کرناشامل ہے ۔یہ ممکنہ طورپردواسازی کی صنعت کومتاثرکرسکتاہے جوڈنمارک کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔امریکازیادہ تر مصنوعات جیسے ہیئرنگ ایڈزاورانسولین ڈنمارک سے خریدتا ہے۔اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا ’’اوزیمپک‘‘ بھی ڈنمارک کی کمپنی ’’نوونور ڈسک‘‘ تیارکرتی ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں دواں کی قیمتوں میں اضافہ امریکی عوام کوپسندنہیں آئے گا۔یہ بعیداز قیاس معلوم ہوتاہے کہ امریکاایسا کرے گالیکن ٹرمپ کافوجی کارروائی سے انکارنہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔
بنیادی طورپرامریکاکے لئے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنامشکل نہیں ہوگاکیونکہ گرین لینڈمیں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اوربڑی تعدادمیں فوجی موجود ہیں۔ گرین لینڈپرامریکا کا پہلے سے ہی ڈی فیکٹو کنٹرول ہے۔ ٹرمپ کے بیانات ان معلومات پرمبنی معلوم ہوتے ہیں جن کامطلب وہ سمجھ نہیں سکے اوریقیناگرین لینڈمیں امریکی فوجی کارروائی ایک بین الاقوامی مسئلے کوجنم دے گی۔اگر ٹرمپ گرین لینڈ پرحملہ کرنے کافیصلہ کرتے ہیں تونیٹو کے آرٹیکل5کے مطابق وہ نیٹوپرحملہ کریں گے لیکن اگرکوئی نیٹوملک نیٹوکے کسی رکن ملک پر حملہ کرتاہے توــ ’’نیٹوـ‘‘کاوجودباقی نہیں رہے گا۔
ٹرمپ کی تقریرسے ایسالگتاہے جیسے چینی صدرشی جن پنگ تائیوان یاروسی صدرولادیمیرپوٹن یوکرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ’’اس سرزمین کو حاصل کرناہمارے لیے درست ہے‘‘۔اگرواقعی ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لیا جائے تویہ مغربی ممالک کے پورے اتحادکے لئے ایک بری علامت ہے۔
ٹرمپ کے بیان پرصرف نیٹوممالک میں ہلچل نہیں بلکہ امریکاکے پڑوس کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے نہ صرف اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کردیاہے۔ٹرمپ نے کینیڈاکی سرحدکوــ’’مصنوعی‘‘ قراردیتے ہوئے کئی باراس بات کاذکرکیاکہ کینیڈاامریکاکی51ویں ریاست بن سکتا ہے۔ ٹرمپ نے تنقیدکی کہ کینیڈا کی حفاظت کے لئے امریکانے اربوں ڈالرخرچ کئے ہیں جبکہ کینیڈاکی کاروں، لکڑی اوردودھ کی مصنوعات کی درآمدکامسئلہ بھی حل کیا۔ میکسیکوکی طرح کینیڈاکو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکابرآمدکی جانے والی اپنی اشیاء پر 25فیصد تک ٹیرف عائدہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اپنی ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے ان خدشات کابھی اظہارکیاکہ میکسیکو اور کینیڈاکی سرحدوں سے منشیات امریکامیں داخل ہورہی ہیں۔تاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق کینیڈااورامریکی سرحدپرپکڑی گئی فینٹینیل کی مقدارامریکاکی جنوبی سرحدکے مقابلے میں نمایاں طورپرکم ہے۔کینیڈانے امریکاکے ساتھ اپنی سرحدپرسکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کاوعدہ کیاہے تاکہ منظم جرائم کوکم کیاجا سکے۔تاہم جسٹن ٹروڈونے کینیڈاکو امریکامیں ضم کرنے کے لئے ٹرمپ کی جانب سے ’’معاشی طاقت‘‘کے استعمال کی دھمکی پرجواب دیتے ہوئے اسے ناممکن قراردیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اورملک میں اپنے حامیوں کوسگنل دے رہے ہیں لیکن امریکامیں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ امیریورپی اتحادی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کررہے ہیں تاہم سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیرجیمزجیفری نے امریکاکی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کاروائی یا مداخلت کے امکان کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ’’ہم گرین لینڈاورکینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے،ہم پاناماکینال پرقبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتناہنگامہ ہوگا یہ ایک اورسوال ہے۔ بین الاقوامی نظام کوخطرہ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے‘‘۔لیکن برطانوی اخبار’’دی انڈیپینڈ نٹ‘‘کے مدیربرائے سیاسی امورڈیوڈ میڈوکس محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتوں کوسنجیدگی سے دیکھناچاہیے۔یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے۔ وہ دنیابھرمیں امریکاکے قدم جمانا چاہتے ہیں۔یہ سنگین خطرہ ہے۔ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کوان کے پہلے دورحکومت سے بہت مختلف اندازمیں دیکھنے جارہے ہیں اوریہ باقی دنیاکے لئے بہت غیرمستحکم ہوگا۔
پانامانے بھی ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کااظہارکیاہے۔20ویں صدی میں پاناماکینال کی تعمیرکاکام سنبھالنے اورکئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد1999میں امریکا نے اس نہرکامکمل کنٹرول پاناماکے حوالے کردیاتھالیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پردوبارہ کنٹرول حاصل کرناچاہتے ہیں۔ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہاکہ ’’پاناماکینال ہمارے ملک کے لئے اہم ہے۔ اس کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کاکنٹرول پاناماکودیاتھا،ہم نے اسے چین کونہیں دیاتھا۔ انہوں نے(پاناماحکام)اس تحفے کاغلط استعمال کیا‘‘۔
تاہم سرکاری اعدادوشمارٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔پاناماکینال اتھارٹی کے اعدادوشما ر کے مطابق اس نہرسے گزرنے والی ٹریفک میں امریکی کارگوکاحصہ72 فیصدہے جبکہ22فیصدحصے کے ساتھ چین دوسرے نمبرپرہے۔واضح رہے کہ چین نے بھی ماضی میں پانامامیں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاناماکینال نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لئے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکاکے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے پانامااتھارٹی پریہ الزام بھی عائدکیاتھاکہ وہ اس بحری گزرگاہ کواستعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے نسبتاًزیادہ پیسے وصول کررہے ہیں۔پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناماکے وزیرداخلہ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعدکہاہے کہ’’پاناماکینال کی خودمختاری پرکوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔پاناماکاکنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اورمسقبل میں بھی ایساہی رہے گا‘‘۔
خطے میں پاناماکینال کی اہمیت کوسمھنے کے لئے یہ جانناضروری ہے کہ ٹرمپ نے پاناماپراپنی ملکیت کادعویٰ کرنے کابیان کیوں دیاہے۔اس نہرکی تعمیرسے قبل بحری جہازوں کوامریکاکے مغربی یامشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کے لئے برِاعظم جنوبی امریکا کے آخری کونے کیپ ہارن سے ہوکرگزرناپڑتا تھا مگر اب نہرِپاناماکی وجہ سے یہ سفر8 ہزارناٹیکل میل یا 15 ہزارکلومیٹرکم ہو گیاہے۔اسی طرح شمالی امریکاکے ایک کنارے سے جنوبی امریکاکی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزارکلومیٹر جبکہ یورپ اورمشرقی ایشیاء یا آسٹریلیا کے درمیان چلنے والے بحری جہازبھی 3ہزار 700 کلومیٹرتک کی بچت کرسکتے ہیں۔اس پورے سفرمیں دوسے تین ہفتے تک کاوقت درکارہوتاتھا تاہم اب نہرِپاناماکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10گھنٹے میں پہنچاجا سکتاہے۔اس انقلابی اورحیرت انگیز تبدیلی کاسب سے زیادہ فائدہ چین کو مل رہاہے کیونکہ چین کی پالیسی تجارتی منڈیوں کے حصول سے دنیاکی ایسی سپرپاوربنناہے کہ جس سے اقوام عالم بھی معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوں جبکہ ٹرمپ ایک سرمایہ دارتاجرکے ساتھ امریکاجیسے طاقتور ملک کا صدربھی بن گیاہے اوراپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے دوسرے ملکوں پرتسلط کی دہمکیاں دیکردنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھ رہاہے جبکہ ایسے خواب کی تکمیل کے لئے اب تک درجنوں ممالک میں شکست سے دوچارہوچکاہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی ڈنمارک کی کی وجہ سے کے مطابق رہے ہیں کہ ٹرمپ ٹرمپ کی کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
ڈنمارک کا گرین لینڈ اور جزائر فیرو کے ساتھ شراکت پر دو ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ
کوپن ہیگن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 جنوری ۔2025 )ڈنمارک کا کہنا ہے کہ آرکٹک خطے کی سکیورٹی میں اضافے کے لیے وہ گرین لینڈ اور جزائر فیرو کے ساتھ شراکت میں دو ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرے گا اس منصوبے کے تحت تین نئے آرکٹک جہازوں کے علاوہ طویل رینج کے ڈرون اور بہتر سٹیلائیٹ کی صلاحیت حاصل کی جائے گی. ڈنمارک کے وزیر دفاع ٹرولس لنڈ پولسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ آرکٹک اور شمالی اٹلانٹک کو شدید خطرات لاحق ہیں معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گرین لینڈ کی آزادی اور خارجہ امور کی وزیر ویوین موٹزفیلڈ کا کہنا تھا کہ گرین لینڈ کو لاحق خطرات کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے.(جاری ہے)
اس سے قبل گذشتہ سال دسمبر میں ڈنمارک نے اعلان کیا تھا کہ وہ گرین لینڈ کے دفاع پر تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز خرچ کرے گا رواں سال کی پہلی ششماہی میں گرین لینڈ کی سکیورٹی کے لیے مزید فنڈنگ کا اعلان متوقع ہے. ڈنمارک کی جانب سے یہ اعلان نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان متعدد بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جن میں انہوں نے گرین لینڈ کو حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ گرین لینڈ پر قبضے کے لیے عسکری یا اقتصادی طاقت کے استعمال کو مسترد نہیں کر سکتے. ویسے تو گرین لینڈ ڈنمارک کا حصہ ہے لیکن اسے وسیع خودمختاری حاصل ہے دنیا کا سب سے کم آبادی والا یہ علاقہ تقریباً 56,000 مقامی انوئٹ لوگوں کا گھر ہے ایک طویل عرصے سے امریکہ کی گرین لینڈ میں سلامتی کے نقطہ نظر سے دلچسپی رکھتا ہے. دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے ڈنمارک پر قبضے کے بعد امریکہ نے گرین لینڈ پر حملہ کر کے پورے علاقے میں فوجی اور ریڈیو سٹیشن قائم کر دیے تھے تب سے امریکہ کی اس خطے میں موجودگی برقرار ہے گرین لینڈ شمالی امریکہ اور یورپ کے درمیان سب سے مختصر راستہ ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ امریکہ کے لیے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ، حالیہ برسوں میں گرین لینڈ میں موجود معدنیات کے ذخائر جن میں یورینیم بھی شامل ہے میں کافی دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے.