Daily Ausaf:
2025-04-13@15:35:40 GMT

گرین لینڈ،پانامااور کینیڈا،امریکا کے نئے اہداف ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کی اقتصادی بیان بازی شایدڈنمارک کے لئے سب سے بڑاخطرہ ہے کیونکہ امریکا ڈنمارک اوریہاں تک کہ یورپی یونین کی اشیاپرمحصولات میں نمایاں اضافہ کررہاہے جس کی وجہ سے ڈنمارک کوگرین لینڈکے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے پرمجبورکیاجارہاہے اور ڈنمارک کی حکومت کودیگرحالت کی وجہ سے اس جزیرے پر توجہ دینے کے لئے مجبورکیاجارہاہے توایسے میں یہ کہاجاسکتاہے ڈنمارک کی اس جزیرے پرتوجہ میں دیگرعوامل بھی کارفرماہیں۔
ٹرمپ تمام امریکی درآمدات پر10فیصدبراہ راست ٹیرف لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دیگر چیزوں کے علاوہ اس سے یورپی ممالک کی ترقی میں بہت سی مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ لہٰذاڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کی کچھ کمپنیاں اب امریکامیں پیداواری مراکزقائم کرنے پرغورکررہی ہیں۔بین الاقوامی قانونی فرم’’پلزبری‘‘کے بینجمن کوٹ نے ویب سائٹ ’’مارکیٹ واچ‘‘کوبتایاکہ ٹیرف میں اضافے کے ممکنہ اختیارات میں1977ء کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے)کواستعمال کرناشامل ہے ۔یہ ممکنہ طورپردواسازی کی صنعت کومتاثرکرسکتاہے جوڈنمارک کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔امریکازیادہ تر مصنوعات جیسے ہیئرنگ ایڈزاورانسولین ڈنمارک سے خریدتا ہے۔اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا ’’اوزیمپک‘‘ بھی ڈنمارک کی کمپنی ’’نوونور ڈسک‘‘ تیارکرتی ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں دواں کی قیمتوں میں اضافہ امریکی عوام کوپسندنہیں آئے گا۔یہ بعیداز قیاس معلوم ہوتاہے کہ امریکاایسا کرے گالیکن ٹرمپ کافوجی کارروائی سے انکارنہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔
بنیادی طورپرامریکاکے لئے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنامشکل نہیں ہوگاکیونکہ گرین لینڈمیں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اوربڑی تعدادمیں فوجی موجود ہیں۔ گرین لینڈپرامریکا کا پہلے سے ہی ڈی فیکٹو کنٹرول ہے۔ ٹرمپ کے بیانات ان معلومات پرمبنی معلوم ہوتے ہیں جن کامطلب وہ سمجھ نہیں سکے اوریقیناگرین لینڈمیں امریکی فوجی کارروائی ایک بین الاقوامی مسئلے کوجنم دے گی۔اگر ٹرمپ گرین لینڈ پرحملہ کرنے کافیصلہ کرتے ہیں تونیٹو کے آرٹیکل5کے مطابق وہ نیٹوپرحملہ کریں گے لیکن اگرکوئی نیٹوملک نیٹوکے کسی رکن ملک پر حملہ کرتاہے توــ ’’نیٹوـ‘‘کاوجودباقی نہیں رہے گا۔
ٹرمپ کی تقریرسے ایسالگتاہے جیسے چینی صدرشی جن پنگ تائیوان یاروسی صدرولادیمیرپوٹن یوکرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ’’اس سرزمین کو حاصل کرناہمارے لیے درست ہے‘‘۔اگرواقعی ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لیا جائے تویہ مغربی ممالک کے پورے اتحادکے لئے ایک بری علامت ہے۔
ٹرمپ کے بیان پرصرف نیٹوممالک میں ہلچل نہیں بلکہ امریکاکے پڑوس کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے نہ صرف اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کردیاہے۔ٹرمپ نے کینیڈاکی سرحدکوــ’’مصنوعی‘‘ قراردیتے ہوئے کئی باراس بات کاذکرکیاکہ کینیڈاامریکاکی51ویں ریاست بن سکتا ہے۔ ٹرمپ نے تنقیدکی کہ کینیڈا کی حفاظت کے لئے امریکانے اربوں ڈالرخرچ کئے ہیں جبکہ کینیڈاکی کاروں، لکڑی اوردودھ کی مصنوعات کی درآمدکامسئلہ بھی حل کیا۔ میکسیکوکی طرح کینیڈاکو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکابرآمدکی جانے والی اپنی اشیاء پر 25فیصد تک ٹیرف عائدہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اپنی ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے ان خدشات کابھی اظہارکیاکہ میکسیکو اور کینیڈاکی سرحدوں سے منشیات امریکامیں داخل ہورہی ہیں۔تاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق کینیڈااورامریکی سرحدپرپکڑی گئی فینٹینیل کی مقدارامریکاکی جنوبی سرحدکے مقابلے میں نمایاں طورپرکم ہے۔کینیڈانے امریکاکے ساتھ اپنی سرحدپرسکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کاوعدہ کیاہے تاکہ منظم جرائم کوکم کیاجا سکے۔تاہم جسٹن ٹروڈونے کینیڈاکو امریکامیں ضم کرنے کے لئے ٹرمپ کی جانب سے ’’معاشی طاقت‘‘کے استعمال کی دھمکی پرجواب دیتے ہوئے اسے ناممکن قراردیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اورملک میں اپنے حامیوں کوسگنل دے رہے ہیں لیکن امریکامیں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ امیریورپی اتحادی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کررہے ہیں تاہم سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیرجیمزجیفری نے امریکاکی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کاروائی یا مداخلت کے امکان کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ’’ہم گرین لینڈاورکینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے،ہم پاناماکینال پرقبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتناہنگامہ ہوگا یہ ایک اورسوال ہے۔ بین الاقوامی نظام کوخطرہ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے‘‘۔لیکن برطانوی اخبار’’دی انڈیپینڈ نٹ‘‘کے مدیربرائے سیاسی امورڈیوڈ میڈوکس محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتوں کوسنجیدگی سے دیکھناچاہیے۔یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے۔ وہ دنیابھرمیں امریکاکے قدم جمانا چاہتے ہیں۔یہ سنگین خطرہ ہے۔ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کوان کے پہلے دورحکومت سے بہت مختلف اندازمیں دیکھنے جارہے ہیں اوریہ باقی دنیاکے لئے بہت غیرمستحکم ہوگا۔
پانامانے بھی ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کااظہارکیاہے۔20ویں صدی میں پاناماکینال کی تعمیرکاکام سنبھالنے اورکئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد1999میں امریکا نے اس نہرکامکمل کنٹرول پاناماکے حوالے کردیاتھالیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پردوبارہ کنٹرول حاصل کرناچاہتے ہیں۔ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہاکہ ’’پاناماکینال ہمارے ملک کے لئے اہم ہے۔ اس کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کاکنٹرول پاناماکودیاتھا،ہم نے اسے چین کونہیں دیاتھا۔ انہوں نے(پاناماحکام)اس تحفے کاغلط استعمال کیا‘‘۔
تاہم سرکاری اعدادوشمارٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔پاناماکینال اتھارٹی کے اعدادوشما ر کے مطابق اس نہرسے گزرنے والی ٹریفک میں امریکی کارگوکاحصہ72 فیصدہے جبکہ22فیصدحصے کے ساتھ چین دوسرے نمبرپرہے۔واضح رہے کہ چین نے بھی ماضی میں پانامامیں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاناماکینال نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لئے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکاکے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے پانامااتھارٹی پریہ الزام بھی عائدکیاتھاکہ وہ اس بحری گزرگاہ کواستعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے نسبتاًزیادہ پیسے وصول کررہے ہیں۔پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناماکے وزیرداخلہ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعدکہاہے کہ’’پاناماکینال کی خودمختاری پرکوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔پاناماکاکنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اورمسقبل میں بھی ایساہی رہے گا‘‘۔
خطے میں پاناماکینال کی اہمیت کوسمھنے کے لئے یہ جانناضروری ہے کہ ٹرمپ نے پاناماپراپنی ملکیت کادعویٰ کرنے کابیان کیوں دیاہے۔اس نہرکی تعمیرسے قبل بحری جہازوں کوامریکاکے مغربی یامشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کے لئے برِاعظم جنوبی امریکا کے آخری کونے کیپ ہارن سے ہوکرگزرناپڑتا تھا مگر اب نہرِپاناماکی وجہ سے یہ سفر8 ہزارناٹیکل میل یا 15 ہزارکلومیٹرکم ہو گیاہے۔اسی طرح شمالی امریکاکے ایک کنارے سے جنوبی امریکاکی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزارکلومیٹر جبکہ یورپ اورمشرقی ایشیاء یا آسٹریلیا کے درمیان چلنے والے بحری جہازبھی 3ہزار 700 کلومیٹرتک کی بچت کرسکتے ہیں۔اس پورے سفرمیں دوسے تین ہفتے تک کاوقت درکارہوتاتھا تاہم اب نہرِپاناماکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10گھنٹے میں پہنچاجا سکتاہے۔اس انقلابی اورحیرت انگیز تبدیلی کاسب سے زیادہ فائدہ چین کو مل رہاہے کیونکہ چین کی پالیسی تجارتی منڈیوں کے حصول سے دنیاکی ایسی سپرپاوربنناہے کہ جس سے اقوام عالم بھی معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوں جبکہ ٹرمپ ایک سرمایہ دارتاجرکے ساتھ امریکاجیسے طاقتور ملک کا صدربھی بن گیاہے اوراپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے دوسرے ملکوں پرتسلط کی دہمکیاں دیکردنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھ رہاہے جبکہ ایسے خواب کی تکمیل کے لئے اب تک درجنوں ممالک میں شکست سے دوچارہوچکاہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی ڈنمارک کی کی وجہ سے کے مطابق رہے ہیں کہ ٹرمپ ٹرمپ کی کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا

چین اور امریکا کے مابین مصنوعات پر محصولات بڑھائے جانے کا عمل جاری ہے جس سے دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان ایک تجارتی جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چین نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات پر محصولات کو بڑھا کر 125 فیصد کر دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر چین کے ساتھ معاہدے پر آمادہ

غیر ملکی میڈیا کے مطابق چینی مصنوعات پر عائد امریکی ٹیرف کی مجموعی شرح 145 فیصد ہے جس کے بعد آج چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر عائد ٹیرف کو بڑھا کر 125 فیصد کردیا ہے۔

چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ٹیرف کی شرح اس سے زیادہ نہیں بڑھائی جائے گی کیونکہ چینی مارکیٹ میں امریکی مصنوعات کے لیے قبولیت کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔ بظاہر لگتا یہ ہے کہ ٹیرف کی اس شرح پر امریکی مصنوعات کی درآمدات کا سلسلہ تقریباً بند ہو جائے گا۔

چین نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو متاثر کرنے والے محصولات کے ذریعے مارکیٹ میں افراتفری پیدا کردی۔

مزید پڑھیے: امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟

ٹرمپ نے دنیا بھر کے ممالک پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں جن میں درجنوں بڑی معیشتوں کے لیے تکلیف دہ حد تک زیادہ محصولات شامل ہیں تاکہ مینوفیکچررز کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ امریکا میں اپنی کارخانے قائم کریں اور ممالک کو امریکی مصنوعات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے پر مجبور کریں۔

لیکن رواں ہفتے مارکیٹ میں ہلچل کے بعد ٹرمپ نے بہت سے محصولات کو 90 دنوں کے لیے منجمد کر دیا لیکن انہوں نے چین کے لیے یہ محصولات بڑھا کر مجموعی طور پر 145 فیصد کر دیے تھے۔

تاہم چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے مزید اقدامات کو نظر انداز کیا جائے گا کیونکہ موجودہ ٹیرف کی سطح پر چین کو برآمد کی جانے والی امریکی مصنوعات کی مارکیٹ میں قبولیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان

چین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے محصولات کا نمبر گیم جاری رکھا تو چین اسے نظرانداز کردے گا۔ چین نے مزید کہا ہے کہ وہ نئی امریکی محصولات کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مقدمہ دائر کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا چین چین امریکا ٹیرف جنگ چین کا جوابی وار چین نے ٹیرف 125 فیصد کردیا محصولات

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ ٹیرف پر پریشان ضرور مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • ٹرمپ کا گرین کارڈ ہولڈرزاور تارکین وطن کی سخت نگرانی کا حکم
  • کینیڈا کا امریکا کو کرارا جواب، پڑوسی ملک کی درآمدات پر بھاری ٹیرف لگادیا
  • کینیڈا نے منفرد جوابی اقدامات سے ٹرمپ کو حیران کردیا
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کا نفاذ، گرین کارڈ ہولڈرز سمیت تمام تارکین وطن کی کڑی نگرانی کا فیصلہ
  • ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا
  • گرین بانڈز کے ذریعے فنڈنگ حاصل کرنے کا حکومتی فیصلہ : آئی ایم ایف کے اہداف کی تکمیل کیلئے اہم قدم
  • امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟
  • ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام