ماہ رجب کی ایک عظیم الشان خصوصیت معراج نبوی ہے، جو مشہور قول کے مطابق 27 رجب کو ہوئی‘ حضور اکرم ﷺشعب ابی طالب کے پاس ام ہانی کے گھر میں آرام فرما رہے تھے، چھت پھٹی جبرئیل علیہ السلام اندر آئے اور آپ ﷺکو لے کر حطیم میںآگئے، نیند کا اثر باقی ہونے کی وجہ سے آپ وہیں لیٹ گئے‘ پھر جبرئیل اور میکائیل علیہم السلام نے آپ کو بیدار کیا اور زم زم کے کنویں پر لا کر لٹا دیا اسی جگہ شق صدر کا چوتھا واقعہ پیش آیا، حضور ﷺکا دل نکالا گیا اور سونے کے تھال میں زم زم شریف کا پانی تھا اس سے آپ کا دل دھویا گیا پھر ایک تھال آیا جس میں ایمان و حکمت تھا وہ دل میں بھر دیا گیا اور دل کو اسی جگہ رکھ کر درست کردیا گیا اور دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگائی گئی‘ پھر آپ ﷺ کے پاس ایک سفید رنگ کا جنتی جانور لایا گیا جو براق کہلاتا ہے وہ اس قدر برق رفتار کہ تاحد نظر پر قدم رکھتا تھا۔(مسلم)
جب آپﷺ براق پر سوار ہوئے تو جبرئیل و میکائیل علیہم السلام نے رکاب و لگام تھام لی‘ جب آپ ﷺ منزل مقصود پر روانہ ہوئے تو آپ ﷺکا گزر ایک ایسی سرزمین پر ہوا جس میں کھجور کے درخت کثرت سے تھے، جبریل امین نے کہا یہاں اتر کر نماز (نفل) پڑھ لیجئے، آپ ﷺنے نماز پڑھی تو جبرئیل امین نے بتلایا آپ نے یثرب (مدینہ) میںنما زپڑھی، پھر ایک سفید زمین پر گزر ہوا جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہاں بھی اتر کر نماز پڑھئے، آپ کے نماز پڑھنے کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے بتایا آپ نے مدین(دوسری روایت میں) طور سینا میں نماز پڑھی ہے، اسی طرح راستے میں ایک اور زمین پر گزر ہوا ، وہاں بھی نماز پڑھوائی گئی، جبرئیل امین نے کہا یہ بیت اللحم ہے جہاںعیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔(اخرجہ ابن حبان و حاتم والبیہقی)
اسی راستے میں برزخ کے بہت سے عجیب و غریب واقعات آپ نے ملاحظہ فرمائے جن میں سے چند واقعات درج کئے جاتے ہیں‘ طبرانی اور بزار میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بو بھی لیتے تھے اور کاٹ بھی لیتے تھے اور جب کاٹتے ہیں پھر وہ ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسے کاٹنے سے پہلے تھا، آپ ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں، ان کی ایک نیکی سات سو نیکی سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے، اور یہ لوگ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطا فرماتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
ایک ایسی قوم پر بھی گزر ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت رکھا ہے اور ایک ہانڈی میں کچا سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، وہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھاتے، آپ ﷺنے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے پاس حلال پاک بیوی تھی مگر وہ ناپاک عورت کے پاس آتا اور رات گزارتا یہاں تک کہ صبح ہوجاتی تھی، اسی طرح وہ عورت ہے جو اپنے حلال پاک شوہر کے پاس سے اٹھ کر کسی ناپاک مرد کے پاس آتی اور رات اس کے پاس گزارتی، یہاںتک کہ صبح ہوجاتی تھی۔
ایک ایسی لکڑی پر گزر ہوا جو سرِ راہ واقع ہے، کپڑا اور جو شے بھی اس کے پاس سے گزرتی ہے اس کو پھاڑ ڈالتی ہے اور چاک کردیتی ہے، آپ نے جبرئیل ں سے دریافت کیا، عرض کیا یہ آپ کی امت میں ان لوگوں کی مثال ہے جو راستہ میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور راستہ سے گزرنے والوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
آپ ﷺکا ایسے مقام سے گزر ہوا، جہاں نہایت ٹھنڈی اور خوشبودار ہوا آرہی تھی، جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ جنت کی خوشبو ہے، پھر ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں سے بدبو محسوس ہوئی، جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ جہنم کی بدبو ہے۔(الخصائص الکبریٰ)
چنانچہ اسی عظیم شان سے حضور پر نور ﷺ بیت المقدس پہنچے قرآن مجید میں آپﷺ کے بیت اللہ سے بیت المقدس تک کے اس سفر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و پیش کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ اس کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں۔‘‘(بنی اسرائیل)
آپ رات کے ایک حصہ میں ایک حرم سے دوسرے حرم تک تشریف لے گئے، جس طرح بدر کامل تاریکی کے پردوں میں روشنی بکھیرتا ہوا چلا جاتا ہے‘ امام بوصیری نے آپ ﷺکے سفر اسراء کو چودہویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے جو تاریکیوں کے پردوں کو چاک کرکے روشنی بکھیرتا ہو ااپنی منزل کی طرف چلا جاتا ہے۔ اگر دنیاچاند کے اس طویل سفر پر تعجب نہیں کرتی کہ وہ بھی راتوں ہی رات کتنے کروڑوں میل کا فاصلہ طے کرلیتا ہے تو اسے آنحضور ﷺکے اس سفر کے سلسلہ میں بھی تعجب نہیں کرنا چاہئے اور جس طرح بدرکامل کی حسین و خوبصورت رفتار سے تاریکیاں اپنا دامن سمیٹ لیتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاند ایک پرنور ماحول اور فضا میں محوِسفر ہے، اسی طرح آنحضرت ﷺ جب اس مبارک سفر میں تشریف لیجانے لگے تو مسافتیں سمٹ گئیں اور حرم سے حرم تک کا سفر لمحوں میں طے ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں میں اور جبرئیل بیت المقدس میں داخل ہوئے اور دونوں نے دو رکعت نماز پڑھی‘ آپ ﷺکی بیت المقدس میں آمد کی تقریب میں شرکت کیلئے آسمانوں سے فرشتے بھی نازل ہوئے اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لائے تھے ۔
کچھ دیر بعد ایک اذان کہنے والے نے اذان کہی اور پھر اقامت، حضورﷺ فرماتے ہیں ہم صفوف درست کرکے اس انتظار میں کھڑے ہوگئے کہ امامت کون کرے گا،اتنے میں جبرئیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھادیا، میں نے سب کو نماز پڑھائی، جب میں نماز سے فارغ ہوا تو جبرئیل ںنے مجھ سے کہا، آپ کو معلوم ہے کن لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی؟ میںنے کہا نہیں، انہوںنے کہا جتنے بھی نبی دنیا میں بھیجے گئے ہیں ان سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کی یہ حکمت ہے کہ ان دونوں قبلوں کے ماننے والے آپ کی امت میں شامل ہونگے، اور پھر اس مبارک سفر کے بعد یہودیت اور عیسائیت کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ وہ اپنے دامن ظلمت کو سمیٹ لیں اور آپ کی امت میںشامل ہوجائیں، کیونکہ یہ فرقے جن انبیاء کو مانتے آئے ہیں ان تمام پیغمبروں نے بیت المقدس میں آپ ہی کے پیچھے مقتدی ہو کر نماز اد اکی ہے، جب نبیوں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی ہے تو ان کی امتوں کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ کی امامت کو تسلیم کریں اور آپ پر ایمان لائیں‘ پھر حضور ﷺنے انبیاء علیہم السلام کی ارواح سے ملاقات کی، اس ملاقات نے ایک عظیم جلسہ کی شکل اختیار کرلی، ایسا جلسہ جس کے مقررین انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام تھے اور مہمان خصوصی امام الانبیاء ﷺتھے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بیت المقدس ا پ کی امت نماز پڑھی کے پاس ا گزر ہوا
پڑھیں:
شہدائے سانحہ نماز جمعہ کی دسویں برسی پر اجتماع کا انعقاد کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
شکارپور میں مختلف ملاقاتوں کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ برسی کے اجتماع سے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ سید ارشاد حسین نقوی، علامہ سید باقر عباس زیدی، علامہ مختار احمد امامی، علامہ ریاض حسین نجفی اور ملک کے جید علماء کرام اور ذاکرین خطاب کرینگے۔