پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف جو ایک وقت میں نوجوانوں اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ ابھری تھی آج اپنی ہی اندرونی سیاست کا شکار ہوچکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ سیاسی بحران جس میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشری بی بی کے درمیان سرد جنگ واضح ہو چکی ہے پارٹی کے اندرونی معاملات کی پیچیدگی اور انتشار کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ مگر پارٹی قیادت کے غلط فیصلوں اور بشری بی بی کی انتظامی معاملات میں مداخلت نے اس تاثر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پارٹی کے اراکین کے لئے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پارٹی کے مستقبل کی سمت کیا ہو گی؟بشری بی بی جنہیں پہلے صرف عمران خان کے ذاتی معاملات تک محدود سمجھا جاتا تھا اب پارٹی کی پالیسیوں اور فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہیں۔ جب سے بشری بی بی نے صوبے کے سیاسی فیصلوں میں کردار ادا کرنا شروع کیا ہے پارٹی کے کئی سینئر رہنما اور اراکین اسمبلی یا تو الگ تھلگ ہو گئے ہیں یا کھل کر مخالفت کرنے لگے ہیں۔ بشری بی بی کی مداخلت نے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ دیگر صوبوں میں بھی پارٹی کارکنان کو تقسیم کر دیا ہے۔ پارٹی کے نظریاتی کارکنان جو عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھتے تھے اب بشری بی بی کے فیصلوں کو پارٹی کے منشور کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے مضبوط رہنما سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے پارٹی کو نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی سطح پر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، بشری بی بی کی انتظامی امور میں مداخلت نے ان کے لیے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں۔
وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے متعدد بار بشری بی بی کے فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے احکامات ماننے سے انکار کیا جس کے باعث دونوں کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا۔علی امین گنڈاپور کی بطور پارٹی صوبائی صدر برطرفی کے بعد پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں دو واضح گروپ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک گروپ گنڈاپور کا حمایتی ہے جو ان کی کارکردگی اور خیبر پختونخوا میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتا ہے جبکہ دوسرا گروپ بشری بی بی کے زیر اثر ہے جو پارٹی کے معاملات میں ان کے کردار کو جائز سمجھتا ہے۔یہ تقسیم صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہی بلکہ پارٹی کے قومی رہنما اور اراکین اسمبلی بھی اس مخمصے کا شکار ہیں کہ کس گروپ کا حصہ بنیں۔علی امین گنڈاپور کی جگہ کے پی کے کی پارٹی کی صدارت جنید اکبر کو دئیے جانے پر پارٹی کارکنان اور رہنمائوں کے تحفظات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جنید اکبر جنہیں خیبر پختونخوا کی عوام اور پارٹی کارکنان میں وہ پذیرائی حاصل نہیں جو گنڈاپور کو حاصل تھی اس تقرری کو پارٹی کی اندرونی سیاست کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔یہ تقرری بشری بی بی کے اشارے پر کی گئی تاکہ پارٹی میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھایا جا سکے۔ تاہم یہ فیصلہ نہ صرف پارٹی کی جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ خیبر پختونخوا کے عوام کے مسائل کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔خیبر پختونخوا کے عوام جو ہمیشہ سے پی ٹی آئی کے حمایتی رہے ہیں اب اس داخلی بحران سے پریشان ہیں۔ عوامی سطح پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی، جو ’’تبدیلی‘‘کا نعرہ لے کر آئی تھی کیسے ذاتی مفادات کی سیاست کا شکار ہو گئی؟عوام کا ماننا ہے کہ پارٹی کے اندرونی معاملات نے حکومتی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں اور گورننس کے مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے اور عوام کے روزمرہ مسائل پر توجہ دینے کے بجائے قیادت اندرونی لڑائیوں میں مصروف ہے۔تحریک انصاف نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے شیر افضل کو نامزد کیا تھا لیکن گزشتہ دنوں ان کی نامزدگی منسوخ کرکے جنید اکبر کو اس عہدے کے لئے نامزد کیا گیا جو بلا مقابلہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔جس پر پارٹی رہنما اور کارکن شدید رد عمل دیتے دکھائی دے رہے ہیں ۔پی ٹی آئی حکومت کے دوران خیبر پختونخوا میں کرپشن کے الزامات نے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ عوام میں بے چینی اور مایوسی کو بھی جنم دیا۔
خیبر پختونخوا، جہاں تحریک انصاف نے کئی بار مسلسل حکومت بنائی وہاں بدعنوانی کے مختلف اسکینڈلز اور الزامات نے پارٹی کی ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کو مجروح کر دیا ہے۔بشری بی بی کی مداخلت اور پارٹی کے اندرونی اختلافات نے تحریک انصاف کے مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنان میں پھیلی ہوئی مایوسی بشری بی بی کے فیصلوں پر عدم اعتماد اور علی امین گنڈاپور جیسے رہنمائوں کی بے دخلی نے پارٹی کو نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ قومی سطح پر بھی کمزور کر دیا ہے۔پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں فارورڈ بلاک کی تشکیل اور پارٹی کے اندرونی بحران قیادت کی ناکامی اور ذاتی مفادات کی سیاست کا نتیجہ ہیں۔ اب عوام کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کو بھی یہ احساس ہو چکا ہے کہ عمران خان شخصیت پرستی اور خود پسندی کی ایک شدید کیفیت کا شکار ہیں۔ وہ اپنی ذات اور ذاتی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو بھی دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں اراکینِ اسمبلی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اراکینِ اسمبلی اب محتاط ہو رہے ہیں اور اپنی پوزیشن کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کہیں مفاد پرستی، لالچ اور اقتدار کی ہوس کے گندے دھبے ان کے دامن پر نہ لگ جائیں۔دوسری جانب اگر پی ٹی آئی کی حکومتوں کا موازنہ دیگر صوبوں کی حکومتوں سے کیا جائے تو افسوس ناک صورتحال سامنے آتی ہے۔
کرپشن عروج پر ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں بے ضابطگیاں، تعلیمی اور صحت کے شعبوں میں ناکامی، مقامی حکومتوں کے فنڈز کا غلط استعمال، خیبر پختونخوا میں صحت کے شعبے میں اصلاحات کا دعویٰ کیا گیا، لیکن ان منصوبوں پر عملدرآمد کے دوران بدعنوانی اور غیر ضروری تاخیر دیکھنے میں آئی۔ صحت کارڈ پلس اسکیم جس کا مقصد عوام کو مفت علاج فراہم کرنا تھا کے تحت فنڈز کے غلط استعمال اور ناقص ہسپتالوں کو فنڈز دینے کے الزامات سامنے آئے۔تحریک انصاف کو اگر واقعی اپنی بقاء کی پروا ہے، تو اپنی پالیسیوں اور قیادت پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کو فروغ دینا اور ذاتی ایجنڈے سے بالاتر ہو کر عوامی مسائل پر توجہ دینا ہی اسے اس بحران سے نکال سکتا ہے۔ بصورت دیگر، پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت سے زیادہ داخلی انتشار کی مثال بن کر رہ جائے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا میں پارٹی کے اندرونی علی امین گنڈاپور بشری بی بی کی بشری بی بی کے تحریک انصاف پارٹی کی سیاست کا کہ پارٹی رہے ہیں کا شکار دیا ہے
پڑھیں:
ضم اضلاع کے فنڈز کے پی حکومت کو منتقل نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر سیف
مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت ضم شدہ اضلاع پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، ضم اضلاع میں تعلیم کا فروغ، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات ڈاکٹر بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ضم اضلاع کے فنڈز صوبے کو منتقل نہ کرنا آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، وفاق نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے خط پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اپنے بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی جانب سے وفاق کو لکھے گئے خط کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا، خط میں انضمام کے بعد ضم شدہ اضلاع کے فنڈز خیبر پختونخوا کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں لہٰذا ضم شدہ اضلاع کے فنڈز بھی خیبر پختونخوا کو منتقل کیے جائیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ضم شدہ اضلاع کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ناگزیر ہے، دہشت گردی صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ انہوں ںے کہا کہ وفاق نے ضم شدہ اضلاع کی ترقی میں صوبائی حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے فنڈز اپنے پاس روک لیے ہیں۔ مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت ضم شدہ اضلاع پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، ضم اضلاع میں تعلیم کا فروغ، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔