حج اور عمرہ کی اہمیت اور فرضیت
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام میں حج اور عمرہ عبادات کا نہایت بلند مقام ہے۔ حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے اور قرآن و سنت میں اس کی فرضیت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ اس کے گھر کا حج کریں، جو بھی اس تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو(سورۃ آل عمران: 97)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے: کلمہ طیبہ، نماز، زکوٰۃ، روزہ، اور حج۔(صحیح بخاری، حدیث: 8)
حج اور عمرہ کا مقصد اللہ کی وحدانیت کا اقرار، اپنی ذات کی نفی، عاجزی و انکساری، اور اللہ کے حضور مکمل اطاعت کا اظہار ہے۔ یہ عبادات دنیاوی خواہشات، مال و دولت، اور معاشرتی حیثیت سے بالاتر ہوکر اللہ کی کبریائی میں غرق ہونے کا ایک ذریعہ ہیں اور اپنے نفس کے تکبر کی مکمل نفی اور شاہ و گدا کی تفریق کا مکمل خاتمہ اور مساوات کا عملی مظاہرہ۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
لیکن حج کی اس اصل بنیاد کو حالیہ دور میں ختم کرکے حج کی روح اور مقصد کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور حج و عمرہ کا بس نام رہ گیا ہے۔ حج ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو استطاعت رکھتا ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ:
-1 مالی وسائل ہوں۔-2صحت اچھی ہو۔-3سفر کے لیے حالات سازگار ہوں۔
عمرہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے، لیکن اس کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، اور مقبول حج کا بدلہ صرف جنت ہے۔(صحیح بخاری، حدیث: 1773)
بزرگوں کے فہم کے مطابق حج اور عمرہ حضرت عمر فاروقؓ نے حج اور عمرہ کو عاجزی کا مظہر قرار دیا۔ وہ فرماتے تھے:حج کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات اور دنیاوی فخر کو ختم کرکے صرف اللہ کے دربار میں جھک جائے۔
امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک حج صرف اس شخص پر فرض ہے جو مالی اور جسمانی طور پر اہل ہو، اور حج دنیاوی نمائش اور تکبر سے پاک ہو۔
امام مالک کے مطابق حج اور عمرہ کا مقصد تقویٰ اور اللہ کی رضا ہے۔ حج وہی مقبول ہے جو دل کے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، نہ کہ دنیاوی مفادات اور نمائش کے لیے۔
امام شافعیؒ نے حج کے دوران اخلاص پر زور دیا۔
امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں حج کی روحانی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔حج کا ہر رکن انسان کو اللہ کی قربت کی طرف لے جاتا ہے۔ طواف، سعی، اور عرفات میں قیام کا مقصد انسان کی خودی کو مٹانا اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہے۔
مولانا رومیؒ کے نزدیک حج کا اصل مقصد دل کی صفائی اور اللہ کے ساتھ سچے تعلق کا قیام ہے۔ وہ فرماتے ہیں:کعبہ کا سفر اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب دل میں اللہ کا نور موجود نہ ہو۔ اور ظاہری نمائش اور خود ی ہو‘آج کے دور کے حج اور عمرہ کا رجحان اس کی اصل روح اور مقصد سے ہٹ کر سیاحت اور خود نمائی بن کر رہ گیا ہے۔ جو آخر زمانے کی علامات میں سے ایک ہے۔ آج کل حج اور عمرہ کے سفر اور قیام کو سیاحت بنا دیا گیا ہے۔ جواصل عبادت کی روح سے متصادم ہے ۔
VIP حج اور عمرہ کی پیکجز فائیو،اسٹار ہوٹلوں میں قیام، ٹورزم کمپنیوں کے ذریعے کے اہتمام و انتظام اس کے مقصد عبادت کو ختم ردیتے ہیں اور اس طرح عبادت سیاحت اور نمائش بن کر رہ جاتی ہے اور باقی کسر اورخودنمائی سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز کا شیئر کرنا، طواف اور عبادت کے دوران اللہ کی بجائے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا،اور دوران طواف اپنی گفتگو ریکارڈ کرنا اور سلفیان شیئر کرنا عبادت نہیں بلکہ خود فریبی اور خود نمائی ہے۔
آج حج اور عمرہ ایک بڑی انڈسٹری بن چکے ہیں، جہاں ٹورزم کمپنیاں پیکج بنا کر حج کی مختلف کیٹگریاں بنا کر ایڈورٹائزنگ کرتی ہیں اور حج اور عمرہ مختلف پیکج بڑی قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔ وصول یہ رجحان اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف اور حج کی روح کے خلاف ہے۔
قرآن و سنت میں واضح طور پر عاجزی، اخلاص، اور اللہ کی رضا کے لیے حج اور عمرہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیاوی نمائش، خودنمائی اور فخر و تکبر کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ حج اور عمرہ کا مقصد نفس کو تکبر سے ہٹا کر عجز و انکسار کی تصویر بنانا ہے۔ جبکہ آج کل یہ سوچ اور مقصد حج ہی ختم ہوگیا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار! آج کے دور میں ہمیں حج و عمرہ کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ کی رضا کے لئے حج و عمرہ اس کی روح کے مطابق کر رہے ہیں یا شیطان کی چالوں کا شکار ہوکر حج یا عمرہ کے نام پر دھوکہ کھا رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حج اور عمرہ کا اور اللہ کا مقصد اللہ کی اور حج کی روح گیا ہے
پڑھیں:
گلا تو گھونٹ دیا…!!
حکومتی خرخراہٹ سے آنے والی خبر نے ہڑ بڑا کر رکھ دیا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے گلا گھوٹنے والا متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کثرت رائے سے قومی اسمبلی سے پاس کرالیا۔ جس کے تحت جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ ترمیمی ایکٹ کا دائرہ کار ڈیجیٹل میڈیا تک محدود رکھا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے ٹریبونل ارکان تعینات کرے یہ 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ صحافیوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 جو ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے کے خلاف قرار دیا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بل کے سیکشن اے 26 میں جعلی یا جھوٹی خبروں پر زور دینا تشویشناک ہے، بل کا متن جعلی خبروں کی مناسب وضاحت فراہم نہیں کرتا ہے، مبہم نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے، ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے 4 نئی اتھارٹیز کے قیام سے غیر ضروری، غیر متناسب پابندیاں عائد ہوں گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں اپیلوں کو براہ راست عدالت عظمیٰ میں لے جانے اور ٹریبونل کے حکومتی نامزد ارکان پر مشتمل ہونا باعث تشویش ہے یہ عدالتی نگرانی کو کم اور انتظامی کنٹرول کو بڑھانے کی طرف اشارہ دیتی ہے۔ پہلے ہی بہت کچھ ریگولیٹ کیا جاچکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی
منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بل کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے تائب ہو کر قومی اسمبلی میں اس کے حق میں ووٹ دیا۔
جھوٹ، جو قرآن و سنت کی روشنی میں کبیرہ گناہ ہے، قرآن میں جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے، یہ زنا سے بھی بڑھ کر گناہ ہے جس کے فعل پر اتنی شدید وعید نہیں آئی ہے۔ سورہ البقر میں آیا ہے کہ ’’اور جو جھوٹ بولتے ہیں اس کی پاداش میں اُن کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘ قرآن میں تو یہاں تک کہا گیا کہ لگی لپٹی بات مت کہو اور سچائی سے پہلو مت بچائو، جھوٹ جس کی بدبو سے فرشتہ دور چلے جاتے ہیں۔ جھوٹ ہے کیا جو انتہائی قابل مذمت ہے لغت اس کی تشریح یوں کرتی ہے ’’کسی شخص یا گروہ کا دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا‘‘۔ جھوٹ منافق کی علامت ہے، جھوٹ اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، حکومت کا ترمیمی بل جھوٹ کے خلاف اس قدر ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ مت بولو، بس اللہ اللہ خیر سلا، اسمبلی میں جھوٹ بولو، جھوٹے وعدہ کرو، جھوٹا دلاسہ دو، جھوٹے دعوے کرو، جھوٹے من گھڑت اعداد وشمار دکھائو، سب میدان کھلے ٹھلے ہیں، تمہارے لیے سب راہیں کشادہ ہیں۔ یہ جھوٹ ہی کا خمیازہ تھا کہ ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان الگ ہوگیا، جھوٹ راگ الاپتا رہ گیا۔ سنی سنائی بات کو نمک مرچ لگانا یا ویسے ہی آگے پھیلانے کی شریعت میں ممانعت ہے کہ بغیر تصدیق کیے بات آگے مت بڑھائو‘‘۔ جس طرح سب سے قولاً سدید ہے، جب تصدیق کرنے کی شریعت بات کرتی ہے تو یہ تقاضا بھی حکمرانوں سے کرتی ہے کہ وہ بھی ’’مصدقہ‘‘ بات کرے اور جھوٹ سے دھوکا نہ دے مگر یہ ہورہا ہے کہ جب عوام الناس محسوس کرتے ہیں کہ حکمران سچ کو چھپا رہے ہیں اس پر قدغن لگارہے ہیں اور خود جھوٹ پھیلا رہے ہیں تو وہ جھوٹ کے ماہرین کے دلدل میں جا پھنستے ہیں۔
میڈیا پرسنز شپ کی پابندی کا کوڑا کل کلاں کی بات ہے، سچ گوئی کی سزا رسائل، جرائد، اخبارات کی کانٹی، چھانٹی، بندش، مدیر حضرات کو قید و بند کی سزائیں کیا جھوٹ کو پروان چڑھانے کے حکومتی اقدامات نہ تھے؟ تو کیا تھے اب جھوٹ بے قابو ہو چلا ہے اس کا راج ہو چلا ہے یہ تخت کے تلوے چاٹنے لگا ہے تو اس ترمیم کے جال میں پھانسنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ اغیار، ملک دشمن عناصر، جھوٹوں کے بادشاہ، سامراجی پٹھو، مال کے فتنہ کے شکار جھوٹ کا طوفان اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ ذہنوں کو مسخر کررہے ہیں تو اس کی ایک وجہ سب سے بڑی سچ کو چھپانا ہے۔ آپ سچ کو کھلا کر دیں تو پھر قرآن کے فرمان کے مطابق جب حق آتا ہے تو باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اور باطل ہے ہی بھاگ جانے والا۔ اس میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتی یہ فرمان خداوندی ہے، جھوٹ کوئی بھی بولے وہ ہر سطح پر گرفت اور قانوناً قابل تعزیر ہے۔ تو پھر اللہ کی لعنت (پھٹکار) جو اوپر سے لے کر نیچے تک برس رہی ہے جھوٹ ہر سو سکہ جما رہا ہے۔ یہ کلچر بن رہا ہے، معاشرے کو جکڑ کر حالت یہ ہوچکی کہ عدالتوں میں جھوٹ کا راج ہو چلا ہے۔ حلفیہ فریقین جھوٹ بولتے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ بھلا جب فیصلہ میں ایک فریق جھوٹ سے آلودہ ثابت ہوتا ہے تو جھوٹ کی سزا الگ سے ہوتی ہے۔ اب تو جھوٹ کی قسمیں بھی یار لوگوں نے بنا ڈالی ہیں۔ ایک سفید جھوٹ، اپنا نقصان کرکے کسی کو فائدہ پہنچایا۔ سرمئی جھوٹ، دونوں کا فائدہ بولنے اور سننے والے کا۔ سیاہ جھوٹ، دوسروں کا نقصان اپنا فائدہ۔ لال جھوٹ، میرا بھی نقصان دوسرے کا بھی نقصان۔ یعنی بے وقوفانہ، مصنوعی، خود غرضانہ، اور بدلہ، جھوٹ ہیں۔ حکومت کا فیصلہ کس جھوٹ پر سزاوار ٹھیراتا ہے۔ فیصلہ صاحب نظر کرلیں۔ کچھ لوگ یوں بھی نصیحت کرتے ہیں سچ کا بول بالا ہے جھوٹ کا منہ کالا، کہ ملک میں بے برکتی جھوٹ کی ہی بدولت ہے اور سندھی کہاوت ہے ’’سچ تہ بٹھو نچ، جھوٹ تو ہر رنگ میں حقدار لعنت ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا ’’حکومت‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ