لاپتا افراد کمیشن کے 6 روزہ سربراہ فقیر کھوکھر کون تھے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
22 جنوری کو لاپتا افراد سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو اٹارنی جنرل آ نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر کو لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔
لیکن یہ تقرری زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی اور 7 روز بعد سپریم کورٹ کے سابق جج اور لاپتا افراد کمیشن کے نئے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر لاہور میں انتقال کرگئے۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر انتقال کرگئے
جسٹس فقیر محمد کھوکھر کی عمر 80 برس تھی اور وہ طویل عرصہ سے علیل تھے، ان کی بطور سربراہ لاپتا افراد کمیشن تقرری کو اُن کے پیش رو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے وی نیوز کو بتایا تھا کہ جسٹس کھوکھر کی ذہانت اور دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
لیکن جسٹس کھوکھر کی تقرری کے وقت بھی اُن کی عمر اور صحت کی صورتحال کے بارے میں سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اتنے اہم منصب پر ایک ضعیف العمر شخص کی بجائے کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جانا چاہیے جو اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
پاکستان کے معمر ترین سربراہانمارچ 2013 میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا تو اُس وقت اُن کی عمر 84 برس تھی، مذکورہ تقرری کے معاملے پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا تھا اور بعدازاں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے بھی ہوئے تھے۔
2013 ہی کے انتخابات سے قبل جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا تو اُس وقت اُن کی عمر 85 برس تھی۔ 2013 انتخابات کے حوالے سے بہت سی شکایات آئیں تو ساتھ میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر کی ضعیف العمری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر کون تھے؟جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر 10 دسمبر 1996 کو لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج اور پھر 1997 میں مستقل جج تعینات ہوئے، اس کے بعد 10 جنوری 2002 کو وہ سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔
2008 میں وہ کچھ عرصے کے لیے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہے اور 2012 میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے رُکن مقرر ہوئے اور اِس سے قبل وہ مسابقتی ایپلیٹ ٹربیونل کے چیئرمین بھی رہے، اس کے علاوہ وہ سیکرٹری قانون کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاپتا افراد کا مسئلہ پارلیمنٹ نے حل کرنا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس
جسٹس ریٹائرڈ فقیر محمد کھوکھر اُن ججز میں شامل تھے جنہوں نے 2007 میں پی سی او کے تحت حلف لیا اور بعد ازاں 31 جولائی 2009 سپریم کورٹ فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی سی او جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم جسٹس فقیر محمد کھوکھر چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ ضعیف العمری لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی سی او جسٹس فقیر محمد کھوکھر چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ ضعیف العمری لاہور ہائیکورٹ لاپتا افراد کمیشن چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کے کی عمر
پڑھیں:
ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہم جہاں سے چلے ہیں وہیں کھڑے ہیں،عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ ہمارے ساتھی ججوں کا موقف ہے کہ وفاقی کابینہ خفیہ ایجنسیز کو بلا کر خود پوچھے کہ لاپتا افراد کہاں ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر لارجر بینچ کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر بینچ میں شامل ہیں۔ وکیل درخواست گزار ایمان مزاری اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ میرا موقف تھا کہ خفیہ ایجنسیز کی کمیٹی ممبران کو اِن کیمرا بریفنگ کیلئے طلب کیا جائے، میرے ساتھی ججز کا موقف تھا کہ پہلے وفاقی حکومت کو ایک موقع دینا چاہیے، جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن کے سربراہ ہمارے جج تھے جو کہ انتقال کرگئے، جبری گمشدہ افراد کمیشن کام نہیں کر رہا، وفاقی حکومت کچھ نہیں کر رہی پھر کسی نہ کسی نے تو دیکھنا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کمیشن اگر کام نہیں کر رہا تو میرا خیال ہے اسے بند کر دیا جائے، کابینہ کی جو سب کمیٹی بنائی گئی اُس میں خفیہ اداروں کے لوگوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا، میرے ساتھی ججوں کا موقف تھا کہ وفاقی کابینہ خفیہ ایجنسیز کو بلا کر خود پوچھے، یہ سب کام وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی معاوضے کی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی دیکھے گی، پانچ سال سے جو مسنگ ہیں کمیٹی پہلے ان کی فیملیز کو بلائے گی، آٹھ جنوری کو کابینہ کی سب کمیٹی کی میٹنگ ہوئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت آپ کو کیوں کہے یہ آپ کو خود بتانا ہے، جو دہشت گردی میں ملوث ہے اس کا بتائیں یا جو بھی ہے بتائی، لیکن نتائج کچھ نہیں آرہے۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا گزشتہ سماعت کے بعد کوئی ریکور ہوئے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندوں نے کہا کہ ہماری نالج میں نہیں ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے مہلت دینے کی استدعا کردی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا افراد کے کیسز میں تمام پیش رفت کو بے سود قرار دے دیا اور کہا کہ میری عدالت میں جتنی فیملیز بیٹھی ہیں مجھے ان کو جواب دینا ہے، ریاست لوگوں کو بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے، ہم جہاں سے شروع ہوئے تھے وہیں پر کھڑے ہیں، یہ کیس تب ختم ہوگا جب تمام بندے بازیاب ہو جائیں گے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس ہے، یہ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس عدالت کو یقین دہانی کروا گئے تھے، اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کی بار بار خلاف ورزی ہوتی رہی، خضدار سے کل 15سال کے ایک بچے کو اغوا کرلیا گیا، اٹارنی جنرل عدالت کو یقین دہائی کراکے گئے تھے کہ مگر اس کے باوجود عدالتی احکامات کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کی فیملیز کے آنسوؤں کا مداوا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ہی کرنا ہے، اگر کوئی گمشدہ شخص دہشت گرد ہے تو یہ بھی لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کو ہی بتانا ہے، فتنہ الخوارج کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز جاری ہیں، اگر کوئی لاپتا شخص دہشت گرد حملے میں مر گیا تو اُس کا کوئی ڈیٹا اکٹھا کیا گیا؟ کوئی ایسا میکنزم ہے کہ جس میں ایجنسیز یہ سارا کام کرتی ہوں؟
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ یہ بات بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ ہوں تو ہمارا تو کوئی تحفظ ہی نہ کرسکے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد انکوائری کمیشن ناکام ہوگیا تو ہم یہ کیسز سن رہے ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے شکرگزار ہیں کہ یہ ذمہ داری وفاقی حکومت کو دے دی۔
منور اقبال دوگل نے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کو احساس دلایا تو حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ایسا تو کہیں نہیں ہوا کہ کسی نے ذمہ داری لی، ناکام ہوگئے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے، جس طرح مہذب معاشروں میں ہوتا ہے ایسا کچھ یہاں تو نہیں ہوتا، چاہے جبری گمشدہ افراد کمیشن ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے یا وزیراعظم ہی ہو، جب تک کسی کا کوئی بندہ اغواء نہ ہو اسے تو یہ احساس ہی نہیں ہوسکتا آرام سے گھر جا کر سو جاتا ہے۔