حکومت نہیں چاہتی مذاکرات ہوں اور کوئی حل نکلے: بیرسٹر گوہر علی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ مذاکرات ہوں اور کوئی حل نکلے۔
اسلام آباد کچہری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے، حکومت نے مذاکرات میں لیٹ کیا، حکومت سنجیدہ ہوتی تو اپنا جواب دیتی، حکومت نے یہ کہا کہ 28 جنوری کو کمیٹی روم میں جواب دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا کہا تھا لیکن حکومت نے جواب نہیں دیا، حکومت چاہتی نہیں تھی مذاکرات ہوں اور اس کا حل نکلے، ہمارے اوپر ہر قسم کی سختیاں کی گئیں اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات میں پہل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے علاوہ کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔
اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما زرتاج گل نے کہا ہے کہ مذاکرات پی ٹی آئی کی کمزوری نہیں، 17 سیٹوں والوں سے کیا مذاکرات کریں۔
ان کا کہنا تھاکہ صاحبزداہ حامد رضا کے گھر پر حملہ کر کے مذاکراتی کمیٹی پر حملہ کیا گیا ،8 فروری کا دن دوبارہ آنے والا ہے، 8 فروری کو سارے پاکستان نے 9 مئی کا بیانیہ مسترد کیا تھا، ہم نے 8 فروری کو یوم سیاہ منانا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کا ذمہ دار حکومت کو قرار ددیا
ایبٹ آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کیے جو سیاسی حل نہیں چاہتےتھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے ہم نے نہیں حکومت نے بند کیے. حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہی نہیں تھی۔یہ بات انہوں نے ایبٹ آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہل کی اورکہا اپنے لیے ڈیل نہیں جمہوریت اور ملک کے لیے موقع دے رہا ہوں اور ہمارے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور کمیشن کا قیام پر مشتمل صرف دو مطالبات تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک مہینہ مذاکرات ہوئے کوئی حل نہیں نکلا، حکومت نے جو کچھ لکھا ہوا تھا وہ ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ایک مہینہ مذاکرات ہوئے، کوئی حل نہیں نکلا، حکومت نے جو کچھ لکھا ہوا تھا وہ ہمارے ساتھ شیئر کرتے۔ مذاکرات کے دروازے ان لوگوں نے بند کئے جو چاہ ہی نہیں رہے تھے اور ایسے لوگ موجود تھے جو سیاسی حل نہیں چاہتے تھے۔