ہری پور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ  حکومت کےساتھ مذاکراتی نشست میں شرکت نہیں کریں گے، مذاکرات میں شامل نہ ہونے کی وجہ 9 مئی اور 26 نومبر پر کمیشن نہ بننا ہے۔  اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی تبدیلی کی خبروں کو افواہ قرار دیا ہے۔ ہری پور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ  حکومت کےساتھ مذاکراتی نشست میں شرکت نہیں کریں گے، مذاکرات میں شامل نہ ہونے کی وجہ 9 مئی اور 26 نومبر پر کمیشن نہ بننا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایم این اے صاحبزادہ حامد رضا کے مدرسے پر چھاپا مارا گیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی تبدیلی کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے عمر ایوب نے اسے افواہ قرار دیا۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عمر ایوب نے

پڑھیں:

علی امین گنڈاپور کو سرپرائز، خیبر پختونخوا پولیس سربراہ کی تبدیلی کے احکامات جاری

وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی مشاورت کے بغیر خیبر پختونخوا پولیس سربراہ اختر حیات گنڈاپور کو ہٹا کر نئے سربراہ کی تعیناتی کے احکامات جاری کردیے جو تحریک انصاف اور صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے سرپرائز سے کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی خیبر پختونخوا اور ڈی جی ایف آئی اے کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا

وفاقی حکومت نے بدھ کو تبادلوں کے حوالے سے معمول سے ہٹ کر احکامات جاری کیے جو انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور کے تبادلے اور نئے آئی جی پی ذوالفقار حمید کی تعیناتی کے حوالے سے ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق وفاق نے پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 21 کے افسر کا پنجاب سے تبادلہ کر کے خیبر پختونخوا پولیس کا سربراہ مقرر کردیا۔

کیا علی امین گنڈاپور حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟

8 فروری کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی اور علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ بن گئے تو کارکنان کے ساتھ صوبائی پولیس سربراہ اور چیف سیکریٹری کے صوبے سے تبادلے کا وعدہ کیا گیا تھا اور وفاق سے اس حوالے سے متعدد بار رابطے بھی کیے گئے تھے لیکن شہباز شریف حکومت نے سیاسی مخالف پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کی مرضی کے مطابق پولیس سربراہ تعبیات نہیں کیا جس کی وجہ سے اختر حیات گنڈاپور کو موقع مل گیا۔

ذرائع کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ اختر حیات وزیراعلیٰ کے اعتماد پر پورا اترنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور دونوں میں ورکنگ رلیشن قائم ہوگیا تھا جس کے بعد آئی جی کے تبادلے کی بات آئی گئی ہوگئی تھی۔

وزیر اعلیٰ کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ آئی جی کے تبادلے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور شاید وہ اس حوالے سے بے خبر تھے۔ ذرائع نے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ کے لیے آئی جی کا تبادلہ ایک طرح سے سرپرائز ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ وفاق نے آئی جی کے تبادلے کے لیے طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے ناموں کی تجویز کے بغیر ہی اپنی مرضی کے افسر کو پولیس سربراہ تعنیات کر دیا۔

مزید پڑھیے: ہماری پولیس سپرپاور کو شکست دینے والے لوگوں سے مقابلہ کررہی ہے، علی امین گنڈاپور

خیبر پختونخوا پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ صوبائی پولیس سربراہ کے تبادلے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جس کے تحت وفاق اعلانیہ جاری کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کسی بھی وقت مدت پوری ہونے سے پہلے آئی جی کو تبدیل کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے وفاق کی مرضی بھی ضروری ہے اور اس طرح صوبہ 3 اہل افسروں کے نام وفاق کو ارسال کرتا ہے جس میں کسی ایک کو وفاق تعنیات کردیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وفاق سے تعلقات درست ہوں تو 2 نام ویسے ہی دیے جاتے ہیں بس مرضی کا افسر لگ جاتا ہے۔

سینیئر افسر نے بتایا کہ پولیس سربراہ کی تعنیاتی میں صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے کیوں کہ پولیس افسر کو کام صوبے کے ساتھ کرنا ہوتا ہے اور اگر تعلقات اور ورکنگ ہم آہنگی نہ ہوسکے تو پولیسنگ متاثر ہونے کا خدشہ ریتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاق نے نیا آئی جی تو تعنیات کر دیا ہے لیکن علی امین گنڈاپور اس سے خوش نہیں ہیں اور اس کے خلاف جا سکتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے آئی جی کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کے قریبی ہیں اور کافی عرصے سے پنجاب میں تعنیات تھے۔

اختر حیات کا تبادلہ آخر ہوا کیوں؟

حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی اختر حیات اور علی امین گنڈاپور کے درمیان تعلقات اچھے تھے اور ان کے تبادلے کے حوالے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کی خواہش تھی کہ ترقی کے بعد صوبے میں ہی تعینات کسی پشتو بولنے والے افسر کو ہی آئی جی پی لگا یا جائے تاہم ان کی سنی نہیں گئی۔

شہزادہ فہد کرائم رپورٹر ہیں اور پولیس معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق کچھ وجوہات اور خصوصاً جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال آئی جی کے تبادلے کا سبب لگتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اختر حیات کی کارکردگی کافی اچھی تھی ساتھ ہی وہ پولیس کو بااختیار بھی بنانا چاہتے تھے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا اسلام آباد پولیس پر کروڑوں روپے کے نقصان کا الزام

پشاور کے نوجوان کرائم رپورٹر ابوبکر صدیق کا خیال ہے کہ آئی جی کا تبادلہ صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ کچھ طاقت ور حلقوں کی ایما پر ہوا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ آئی جی کے تبادلے کے حوالے سے مکمل خاموشی تھی اور یہ اچانک ہوجانا صوبائی حکومت کے لیے سرپرائز ہے۔

ابوبکر صدیق نے بتایا کہ اختر حیات پولیس کو باختیار بنانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس پر بہت کام کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اختر حیات نے پولیس سی ٹی ڈی کو مضبوط کرنے کے لیے بھی بہت کام کیا۔

واضح رہے کہ آئی جی کے تبادلے کے حوالے سے اب تک صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اختر حیات گنڈاپور خیبرپختونخوا پولیس سربراہ ذوالفقار حمید علی امین گنڈاپور کے پی آئی جی پولیس

متعلقہ مضامین

  •  وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے اقوامِ متحدہ کے وفد کی ملاقات
  • علی امین گنڈاپور کو سرپرائز، خیبر پختونخوا پولیس سربراہ کی تبدیلی کے احکامات جاری
  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے اقوام متحدہ کے وفد کی ملاقات
  • وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے اقوام متحدہ کے وفد کی ملاقات، مختلف شعبوں میں عوامی فلاح وبہبود کی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے اقوام متحدہ کے وفد کی ملاقات
  • 9 مئی، 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات بند کیے، عمر ایوب
  • حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہ ہونے کی وجہ 9 مئی اور 26 نومبر پر کمیشن نہ بننا ہے: عمر ایوب
  • خیبر پختونخوا، وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق پی ٹی آئی رہنما عاطف خان نے کیا کہا؟