مذاکرات کاباضابطہ’’دی اینڈ‘‘فیصل سلیم کامشکوک کردار
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کاباضابطہ دی اینڈ ہوگیاہیاور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جب کہ سپیکرسردارایاز صادق نے جومخلصانہ کوششیں کیں،ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلالیکن اب تحریک انصاف نے سپیکرکے خلاف آئندہ بیان بازی نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کیاہے اور ان کے کردار کوسراہا،حکومت نے آج اکیلے ہی کمیٹی کااجلاس کیا،جو کچھ دیرہی سپیکرکی صدارت میں منعقد ہوا،سپیکر نے اس پر کہاکہ وہ کافی دیر پی ٹی آئی کی کمیٹی کاانتظارکرتے رہے آج بھی ان سے رابطہ کیالیکن انہوں نے جواب نہیں دیا،سپیکرنے اس امیدکااظہارکیاکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے،اہم بات یہ ہے کہ سپیکرنے کمیٹیوں کے خاتمے کا باضابطہ اعلان نہیں کیااور اب بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کسی بھی موقع پر اگر پی ٹی آئی لچک دکھائے گی تو مذاکرات بحال ہوسکتے ہیں دوسری جانب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اسحاق ڈارنے کہاہے کہ ہماراجواب تیارتھا،چونکہ پی ٹی آئی کی کمیٹی نے بائیکاٹ کیااس لیے ہم فی الحال میڈیاسے جواب شیئرنہیں کرسکتے اگروہ آتے ہیں تو ان کے حوالے کردیتے ہیں دونوں فریقوں کی غیرسنجیدگی اور ضدبازی کے باعث مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمدنہیں ہوا،حالانکہ سپیکرایازصادق نے اپنی پارٹی کے بعض سینئررہنماوں کوناراض کرکے مذاکرات کے لیے کرداراداکیاتھا،پیکاایکٹ کی سینیٹ سے منظوری کے بعد اب صحافتی تنظیموں نے صدرآصف علی زرداری سے امیدلگالی ہے کہ وہ اس بل پر دستخط نہیں کریں گے ،سینیٹ سے متنازع بل کی منظوری پر اپوزیشن نے احتجاج اور صحافیوں نے پریس گیلری سے بائیکاٹ کیا،پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے یقین دلایاہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیشن تحریری طور پر تجاویزدے گی تو اس بل کو دوبارہ بھی ایوان میں لایاجاسکتاہے کیونکہ حکومت نے صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں نہیں لیا،تحریک انصاف کی قیادت پیکاایکٹ ترامیم کی مخالفت تو کررہی ہے لیکن افسوسناک امریہ ہے کہ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کے چیئرمین فیصل سلیم کاکرداربہت مشکوک تھا،فیصل سلیم کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اورانہوں نے گزشتہ روز قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں عجلت میں بل پاس کرایااور جے یوآئی کے سینیٹرکامران مرتضیٰ کی ترامیم کو ریکارڈ کاحصہ بنانے سے انکار کیا،اگر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کمیٹی کے اجلاس کو چند دن کے لیے موخرکردیتے تو حکومت صحافتی تنظیموں سے مذاکرات پرمجبورہوجاتی ،گوکہ بیرسٹرگوہرنے یہ بیان دے دیاہے کہ فیصل سلیم کو مشکوک کرداراداکرنے پر پارٹی کی طرف سے شوکازنوٹس دیاجائے گاواضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظورکے موقع پر بھی فیصل سلیم غائب ہوگئے تھے اور انہوں نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی مگر ووٹ پورے ہونے کی صورت میں حکمران اتحاد نے ان سے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں لیاتھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تحریک انصاف فیصل سلیم کمیٹی کے
پڑھیں:
‘ہماری معدنیات وفاق کے حوالے نہ کی جائیں‘، خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل متنازع کیوں؟
خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل 2025 کو کابینہ سے منظوری کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مجوزہ بل کے خلاف طوفان کھڑا ہو گیا ہے اور اپوزیشن کے علاوہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین بل کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
بل کے خلاف پارٹی اراکین کی مخالفت کے بعد پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین عمران خان کی بہن علیمہ خان نے مجوزہ قانون سازی کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اٹک میں سونے کے ذخائر کی نیلامی جلد، 2 مزید مقامات پر ذخائر ملے ہیں، وزیر معدنیات پنجاب
علیمہ خان نے روالپنڈی میں میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ عمران خان رہائی تک مجوزہ بل کو پاس نہ کیا جائے۔ تاہم پارٹی اراکین اور رہنماؤں کی جانب سے سخت تنقید کے بعد بھی وزیرا علیI خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور مجوزہ بل کے حق میں بول پڑے اور تنقید کوفواہ اور غلط فہمی قرار دیا۔
مجوزہ بل میں ہے کیا؟خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025، 139 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں شروع میں لکھا ہے کہ اس بل کے ذریعے صوبے میں کان کنی کے شعبے کو جدید اور بین اقوامی معیار کے مطابق کرنا اور مقامی اور بین اقوامی کان کنوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی ہے۔
مائنز اینڈ منرلز ڈائریکٹوریٹمجوزہ بل میں صوبائی حکومت نے صوبے میں مائنز اینڈ منرلز ڈائریکٹوریٹ کے قیام کی تجویز دی ہے۔ جس کے ذریعے لائسنسنگ اور ایکسپلوریشن کی نگرانی ہو گی۔ جبکہ اس کے ساتھ مائنز اینڈ منرل فورس میں لائسنسنگ اور ایکسپلوریشن سیکشنز کے قیام کی سفارش کی گئی ہے۔
مزید پڑھیے: واجب الادا 75 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وزیراعظم کو خط
اگرچہ مجوزہ بل میں زمینداروں کے حقوق کے تحفظ اور مقامی کمیونٹیز کے لیے تربیت اور دیگر مواقع فراہم کیے گئے ہیں لیکن یہ اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ آیا مقامی افراد کو اپنے اپنے علاقوں میں کان کنی کے کاموں سے کوئی حصہ ملنا ہے کہ نہیں۔
منرل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹیبل میں منرل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹی کو بحال رکھا گیا ہے۔ منرل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹی کے اختیارات اور افعال کو 12 سے بڑھا کر 16 کر دیا گیا ہے۔
وفاق کو اختیاراتمجوزہ بل 2025 میں 2017 کی نسبت وفاق کو راستہ دیا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر کان کنی میان وفاقی کان کنی ونگ کی تجویز پر فیس، کرایہ اور رائلٹی کا جائزہ لینے کے لیے وفاق مداخلت کر سکے گا جبکہ بل میں وفاق یا وفاقی ادارے کو وسیع پیمانے پر مشاورتی کردار کی تجویز ہے جو ریزرو قیمت، مالیاتی ضمانتیں، ماڈل معدنی معاہدے پر نظرثانی کے فارمولے پر نظرثانی کر سکے گا۔
بل میں بڑے پیمانے پر کان کنی کے لیے کم از کم 500 ملین کی سرمایہ کاری کی تجویز دی گئی ہے۔ بل کے مطابق اسٹریٹجک معدنیات کی وضاحت اور مطلع حکومت کی طرف سے یا ایف آئی ایم اے کے ذریعے وفاقی معدنیات ونگ کی رہنمائی پر کی جائے گی۔ جبکہ نایاب زمینی معدنیات کی نشاندہی صوبائی حکومت یا وفاقی مائننگ ونگ کی رہنمائی پر کرے گی۔
مجوزہ بل پر اعتراضات کیا ہیں؟خیبر پختونخوا اسمبلی میں جب گزشتہ ہفتے ایکٹ کو پیش کیا گیا تو حکومت نے جلدی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی جانب سے اعتراض اور تنقید کے بعد اگلے ہفتے تک مؤخر کر دیا۔
’18ویں ترمیم کے بعد کان کنی صوبائی معاملہ، وفاق کو دینا درست نہیں‘سابق صوبائی وزیر و پی ٹی آئی رکن اسمبلی شکیل خان اسمبلی اجلاس مجوزہ بل کے خالف کھڑے ہو گئے۔ اپنے خطاب میں وزیر قانون سے بل پیش نہ کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس بل کو پاس کرنا سب سے بڑی غلطی ہو گی اور آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔
مزید پڑھیں: کان کنی اور معدنیات کے شعبے میں ایس آئی ایف سی کی ایک سالہ کامیابیاں
انہوں نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں کان کنی کا شعبہ ایک صوبائی موضوع ہے اور وفاق کو اختیارات دینا درست نہیں۔
پشاور کے سینیئر صحافی اور پارلیمانی امور اور قانون سازی پر گہری نظر رکھنے والے منظور علی بھی شکیل خان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 18 ویں ترمیم کے کان کنی صوبائی سبجیکٹ ہے اور مجوزہ بل میں وفاق کو اہم کردار کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا لگ رہا ہے کہ بل صوبائی حکومت نے خود تیار نہیں کی بلکہ وفاق سے تیار ملا تھا۔ جیسے اسلام آباد میں جاری منرلز کانفرنس کے دوران ہی منظور ہونا تھا۔ لیکن حکومتی اراکین کی مخالفت کے باعث نہ ہو سکا۔
منظور علی نے بتایا کہ مجوزہ بل میں بہت سے پوائنٹس واضح نہیں جبکہ اس سے مقامی کان کنوں کو نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ رات اور بجری نکالنے والوں کو بھی بینک تصدیق دینا ہو گا۔
مائن اونرز ایسوسی ایشن نے بھی مجوزہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق بل پر مشاورت نہیں کی گئی اور اسے صوبے کے غریب طبقے کو نقصان ہو گا۔
صوبائی حکومت کیا کہتی ہے؟بل کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں تو ہی حکومت کے مطابق اسے صوبے میں ترقی ہو گی اور معدنیات کے شعبے میں سرمایہ ماری کے ساتھ شفایات ہو گی۔
وزیرا علیٰ علی امین نے بھی مائنز اینڈ منرل ایکٹ میں مجوزہ ترمیم سے متعلق بیان میں مؤقف اپنایا کہ اس حوالے سے غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ترمیم میں صوبائی حکومت کا کوئی بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کا اختیار نہ کوئی کسی کو دے سکتا ہے اور نہ کوئی ہم سے لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ معدنیات کے شعبے میں اصلاحات کر رہے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ اصلاحات کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ کوئی مافیا ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے اصلاحات کی مخالفت کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر کے دریاؤں میں پائی جانیوالی قیمتی معدنیات
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پچھلے 76 سالوں سے صوبے میں پلیسر گولڈ کے چار سائٹس میں غیر قانونی مائننگ ہو رہی تھی۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے اس غیر قانونی مائننگ کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سنبھالتے ہی ایک صاف اور شفاف طریقے سے پلیسر گولڈ کے ان 4 سائیٹس کی نیلامی کر دی جس سے حکومت کو 5 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خیبر پختونخوا معدنیات خیبرپختونخوا اسمبلی خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل 2025