جس معاشرے میں قانون کا دفاع کرنے والے خود قاتل، ڈکیت، چور اور ڈاکو بن جائیں تو پھر وہ معاشرے جرائم کی دنیا کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان بھر میں جرائم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں معاملات بجائے سدھرنے کے بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا نے پنجاب پولیس کے پورے نظام کو ننگا کر دیا ہے۔ فکر انگیز بات ہے کہ بہت سے بڑھتے جرائم میں پولیس خود ملوث ہے، پنجاب پولیس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی اس کی بری کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے۔ انہوں نے پنجاب میں بڑھتے کرائم پر آئی جی پنجاب سمیت اعلیٰ افسران کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پولیس کا قبلہ درست کریں اور نمبر گیم کی بجائے کارکردگی پر زور دیا جائے۔ انہوں نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا آپ کا نظام ہے کہ حوالات میں ملزموں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ملزمان بھاگ جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ شہریوں کو سرعام لوٹا اور مارا جا رہا ہے لہٰذا اس سلسلے کو فوراً روکا جائے۔
شکر الحمدللہ سی ایم صاحبہ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے پولیس والوں کو آئینہ دکھا دیا۔ ہمارے نزدیک بجائے پولیس کی وردی میں ملبوس پولیس عوام کی چوکیداری کرے، ان کو تحفظ دے، ان کی جان و مال کی حفاظت کرے اور بڑھتے کرائم کو کنٹرول کرے، وہ خود کرائم کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ لگتا ہے وزیراعلیٰ مریم نواز کو ایک گرینڈ آپریشن کرنا ہوگا تاکہ موجودہ نظام پولیس میں بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اس کے اندر صفائی کی جاسکے۔
سی ایم صاحبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کا عوام کے ساتھ موجودہ طرزعمل کسی طرح قبول نہیں۔ میرے نزدیک تو خود آئی جی پنجاب کی اپنی کارکردگی پر بڑا سوال اٹھ گیا ہے جو یہ بات کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ پنجاب پولیس دوسرے صوبوں سے بہتر ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بہرحال ویسا ضرور ہے جس کا اظہار مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا۔ اگر پولیس کی کارکردگی شاندار ہوتی تو پھر آج شہر لاہور کے علاوہ پنجاب میں ظلمت اور درندگی کے رجحانات میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور 100سپیڈ کی رفتار سے صوبے میں کرائم بے قابو ہو گیا ہے۔ خاص کر آئے روز معصوم کلیوں کو پھول بننے سے پہلے ہی مسلنے کے واقعات سے لے کر کچے کے ڈاکوئوں اور شہر لاہور میں بڑھتے سٹریٹ کرائم نے خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ پنجاب بھر میں نہ قانون، نہ اس کے رکھوالے، نہ وکیل اور نہ منصف، مجبور عدالتیں اور ان کی دی تاریخیں جگہ جگہ قتل عام، مظلوموں کے ساتھ بے انصافیاں، میڈیا پر جھوٹ کے اوپر جھوٹ اور جھوٹے دعوے بعض کرائم کی نہ تردید نہ تصدیق اب لگتا ہے کہ قوم کو ڈاکوں اور چوری میں الجھا دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو پورے قانون کے نظام میں فرشتوں سے نہیں انہی اچھے افراد سے انتخاب ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے قانون بنانے اور توڑنے والے بھی یہی منتخب لوگ ہیں تو پھر ان سے انصاف اور قانون پر عملدرآمد کی توقع کرنا بے سود ہے۔ آئے روز تھوک کے حساب سے کرائم کی خبریں روزانہ کا معمول بن گئی ہیں اور انسانیت سوز واقعات میں ہوشربا اضافہ ہونا میرے نزدیک جہاں پولیس کے موجودہ نظام پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے وہاں ہم انسانی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگتا دیکھ رہے ہیں۔ آج شاید عوام ڈاکوں سے اتنے نہیں ڈرتے جتنے پولیس اور اس کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں کرائم بجائے ختم ہونے کی بجائے خوف پھیل رہا ہے۔ گزشتہ روز شرقپور میں سفاک درندوں نے ایک معصوم کلی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے آنے والے کل کو اندھیروں میں غرق کر دیا۔ اس طرح کے واقعات نے ایک خوف پیدا کر رکھا ہے اور پولیس اس وقت متحرک ہوتی ہے جب ملزمان اس کی پہنچ سے دور جا چکے ہوتے ہیں کہ تباہی اس میں ہماری پولیس کے بنائے غلط سسٹم کا بڑا ہاتھ ہے۔ اول تو وہ ملزم تک پہنچ نہیں پاتے۔ اگر پکڑ لے جاتے ہیں تو عدالتیں ان کو ضمانت دے کر ان کا مزید حوصلہ بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اس پوری گفتگو میں سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہم نے اچھی پولیس کا انتخاب کرنا بند کر دیا ہے یعنی اچھی پولیس نہ اس کی اچھی کارکردگی نظرآ رہی اور ان کی ذمہ داریاں اور نہ ان کی طرف سے زندگی کو تحفظ دینے کے اقدامات نظر آئے۔ میرے نزدیک عوام اور پولیس کے درمیان بہت فاصلے بڑھ چکے ہیں اور عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ آپ نے ماڈل تھانے تو بنا دیئے مگر ماڈل پولیس نہ بنا سکے شاید ایسی ہی تباہیاں اور دل ہلا دینے والے منظر ہم صبح سے رات گئے تک ٹی وی چینلز پر دیکھ کر پریشان ہیں، یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ آئے روز مائوں کی گود کو اجاڑا جائے اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی کہ وہ اس کو اچھال رہا ہے۔ مریم نواز کے بیان کے بعد شدت کے ساتھ یہ بات سوچ رہا ہوںکہ ہماری جیتی جاگتی زندگی ماند کیوں پڑگئی، رشتہ داریاں اور وابستگیاں اب خوف میں کیوں بدل گئیں۔ شاید ہم قانون کے ہوتے ہوئے بھی تحفظ میں محسوس نہیں کرتے کہ قانون شہریوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ جب رشوت، کرپشن اور سیاسی تعلقات کے سائے میں پولیس سسٹم بنے گا تو پھر کاہے کے گلے شکوے… عوام تو پہلے ہی لٹتے رہے ہیں،لٹ رہے ہیںاور آگے بھی لٹتے رہے گے۔
پولیس کے لاقانونیت کے اس ماحول میں آج قائداعظمؒ کی روح ہم سب سے کچھ مانگ رہی ہے کہ پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والی قوم پریشان حال ہے۔ بجائے پولیس کا نظام چلانے والے اپنے اندر کی خامیوں کو تلاش کریں۔ افسران کے درمیان بھی ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ اب معیار کی بجائے تعداد پر توجہ صرف ہو رہی ہے۔ دیکھنے کو تو بہت فوٹو شوٹس مگر عمل میں صفر پلس صفر… میرے نزدیک الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا یعنی کرائم کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی بھی یہاں پر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا اور تو اور سوشل میڈیا پر کرائم کی غلط خبر کو بھی جس طرح ٹویٹ کیا جاتا ہے اور اس خبر کو الیکٹرانک میڈ یا بغیر تحقیق کے مزید سنسنی پھیلا دیتا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں، بعض اوقات ایک معمولی واقعہ کو اس قدر بڑھ چڑھ کر بیان کیا جاتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
میڈیا پر پھیلائے جانے والا جرائم اور اس کا طرزعمل اور وتیرہ عوام کو خطرناک حدود میں لے چکا ہے۔ اس کو روکنا بھی بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اگر اس سلسلے کو ابھی سے نہ روکا گیا اور شہروں میں بڑھتے کرائم کو مزید کھلی چھٹی دیدی گئی تو پھر دیانتدار اور بااصول پولیس افسران پر انگلیاں تو اٹھیں گی اور میری وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اولین فرصت میں صوبے میں بڑھتے کرائم کو روکنے کے لئے پولیس کے اندر بے دریغ کالی بھیڑوں کو باہر نکالیں جو بڑھتے کرائم کے ذمہ دار ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ جس طرح وہ صوبے کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے تیز رفتاری سے گامزن ہیں وہاں وہ عوام کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے عمل کو بھی تیز کریں گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بڑھتے کرائم میرے نزدیک سوشل میڈیا میں بڑھتے مریم نواز پولیس کے پولیس کا پولیس کی نے والے کے ساتھ رہے ہیں رہا ہے ہے اور تو پھر گیا ہے کر دیا
پڑھیں:
سانحہ فیصل چوک مال روڈ کے شہداء کی آٹھویں برسی، پنجاب پولیس کی جانب سے خراج عقیدت
لاہور:آج 8 ویں برسی پر پنجاب پولیس نے سانحہ فیصل چوک (چیئرنگ کراس) کے بہادر شہیدوں کو یاد کیا، جو ملک و قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر گئے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن شہداء کے ساتھ تجدید عہد کا ہے۔
2017ء میں آج کے دن، فیصل چوک مال روڈ لاہور پر 7 پولیس افسران اور اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا.
شہداء میں ڈی آئی جی سید احمد مبین، ایس ایس پی زاہد گوندل، اے ایس آئی محمد امین، ہیڈ کانسٹبل عصمت اللہ، اور کانسٹیبلز محمد اسلم، عرفان محمود، اور ندیم تنویر شامل ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ شہید پولیس افسران اور جوانوں کی قربانیاں ہمیشہ دلوں میں تازہ رہیں گی۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پنجاب پولیس 1650 سے زائد شہداء کی قربانیوں کی امین ہے اور دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔
ڈاکٹر عثمان انور نے شہداء کے اہلخانہ کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات اور قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
ترجمان پنجاب پولیس نے اس عزم کی تجدید کی کہ شہداء کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔