Nai Baat:
2025-01-30@08:08:53 GMT

کرائے پر دستیاب امریکی ارکان

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

کرائے پر دستیاب امریکی ارکان

کیا آپ کے لئے حیرت انگیز نہیں کہ پاکستان کو کسی قطار،شمار میں نہ لانے والے امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز یہاں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے قراردادیں منظور کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ذاتی سطح پر پوسٹس اور ٹوئیٹس بھی۔ انہیں اس امر میںکیا دلچسپی ہے کہ عمران خان جیل میں ہے اور اسے رہا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے مگر اتنا ہی شرمناک بھی ہے۔ پاکستانیوں بارے ایک امریکی وکیل نے جو گھٹیا کمنٹس دئیے تھے امریکی سیاستدانوں کی حالت اس سے بھی کم تر، گھٹیا اور بُری ہے کہ وہ عین آئینی اور قانونی طور پر کرائے پر دستیاب ہیں۔ پاکستانی اگر کوئی غلطی یا جُرم کرتے ہیں تو اس ملک کا آئین اور قانون اس کی حمایت نہیں کرتا، اسے سپورٹ نہیں کرتا مگر امریکی سیاستدانوں کو ڈالروں کے بدلے خرید لینا ان کے مطابق سو فیصد جائز ہے۔ امریکا کا آئین لابنگ فرمز کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیتا ہے اور میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی بڑی بڑی لابنگ فرمزہر سال لاکھوں ڈالرز کا ریونیو کما لیتی ہیں جیسے براوسٹین کا 2023 ء میں 62.

7 ملین کا ریونیو، ایکن گمپ کا54.7 اورہالینڈ اینڈ نائٹ کا47.7 ملین ڈالر، بی جی آر گورنمنٹ افیئرز ایل ایل سی اور کارنر سٹون گورنمنٹ افیئر کا بالترتیب41.8 اور 41.4 ملین ڈالر۔ یہ لابنگ کی ایک بڑی انڈسٹری ہے جو سینیٹرز اور کانگریس کے ارکان کو خرید سکتی ہے، ان سے پیٹیشنز سائن کروا سکتی ہے، ایوان میں سوالات کروا سکتی ہے۔ یہ انڈسٹری صحافی بھی خریدتی ہے اور پھر وہ صحافی اقوام متحدہ تک میں جا کے سوالات کرتے ہیں۔

میںنے امریکہ سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر شبیر احمد خان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی سینٹرز اور کانگریس مین کو بہت سارے معاملات کا علم نہیں ہوتا مگر دنیا بھر کی تنظیمیں اور ممالک تک امریکہ میں اور امریکہ سے اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں سو ان تک رسائی کے لئے یہ طریقہ کار وہاں کے قانون اور ضابطے کے مطابق غلط نہیں ہے۔ عبداللہ حمید گل بھی ان معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ لابنگ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک ثابت شدہ مجرم کے لئے کس طرح جسٹی فائیڈ ہے کہ وہ ڈالرز دے کر امریکی ارکان خرید لے اور اپنے حق میں دباو ڈلوا لے۔ سینئر اینکر اور تجزیہ کار پی جے میر کہتے ہیں کہ جو بھی ہو، طریقہ کار یہی ہے اور اگر آپ بھی امریکہ میں اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی لابنگ کرنا ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بہت سارے اللے تللے کرتی ہیں، فضول خرچیاں کرتی ہیں اور جہاں پیسے خرچ کرنا چاہئیں وہاں نہیں کرتیں جیسے مسئلہ کشمیر۔ انہیں کون روکتا ہے کہ اس کے لئے وہ لابنگ فرمز ہائر کریں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ بھارت پر دباو بڑھائے۔ان کی بات زمینی حقائق کے عین مطابق ہے مگر کیا یہ اخلاقی تقاضے بھی پورے کرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ قیمت پر مؤقف اور حمایت کا دستیاب ہونا ہرگز کسی اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ منظرنامہ بہت سادہ ہے کہ گولڈ سمتھ فیملی کے ڈالر چلتے ہیں اور امریکی ایوان نمائندگان میں دونوں بڑی جماعتوں کے ارکان اکٹھے ہو کے انسانی حقوق کے نام پر پی ٹی آئی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لیتے ہیں حالانکہ پاکستان میں ایک آئینی حکومت اور عدالت موجود ہے جو کام کر رہی ہے مگر وہ غزہ کے معاملات پر کوئی قرارداد منظور نہیں کرتے۔ وہ کپواڑہ کے قتل عام کے اکتیس برس گزرنے کے باوجود بھارت کو اس کے فوجیوں کو سزا دینے کے لئے نہیں کہتے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل نفی پر مُودی کی سرزنش نہیں کرتے مگر کرائے پر دستیاب ہو کے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیاں سن لیتے ہیں جیسے ابھی پاکستان کے کچھ ریاست مخالف اینکرز اور ایکٹیویسٹس ایک کمرہ کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور کچھ ارکان بھی ، پاکستان کی فوج اور حکومت کے خلاف جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔ مجھے وہ امریکی یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں تو میرا سوال ہے کہ امریکی کیا بیچ رہے ہیں؟ ڈاکٹر شبیر احمد خان نے میرے سوال پر کہا کہ امریکی اس لئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نہ ٹوئیٹ کرتے ہیں اور نہ ہی قرارداد کہ وہاں جیوش لابی بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ایک دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ ایلون مسک جیسی شخصیات کے مقابلے میں امریکی کانگریس مین بہت غریب ہیں۔ وہ اپنا خرچہ اسی فنڈ ریزنگ ، ڈونیشن اور آنریریم سے نکالتے ہیں۔میں امریکی آئین میں دی گئی لابنگ کی اجازت اور امریکی ارکان پارلیمنٹ کی اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہوں تو یہ کیا غلط ہے۔ آپ کچھ بندے جمع کریں ، وہاں ایک ڈنر کا خرچہ کریں اور امریکی پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو بلا لیں۔ وہ آپ سے درخواست لے لے گا، آپ کے ساتھ فوٹو شوٹ کروا لے گا اور اپنے آپ کو آپ کے مفاد کے لئے حاضر کر دے گا۔ کیا یہ ضمیر فروخت کرنے جیسا نہیں ہے اور اگر یہی کام پاکستانی سیاستدان یا صحافی کرے تو اسے کرپٹ کہتے ہیں، لفافہ کہتے ہیں۔

کچھ لوگ گمراہ کرتے ہیں کہ عمران خان کے ذاتی تعلقات موجود ہیں کہ وہ ایک کرکٹر رہا ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے سابق سسرال کو نظرانداز کرسکتے ہیں اور اس کی سابق اہلیہ اور سالا۔ اس کی سابق بیوی پاکستان کے ان تمام یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس سے ملتی اور ان کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواتی ہے جو پاکستان کی فوج کے بھگوڑے ہیں یا پی ٹی آئی کے اینٹی سٹیٹ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ جیسے عادل راجا۔ ایسے میں کیا ہم بھارت اور اسرائیل کی طرف سے پاکستان مخالف فنڈنگ کو نظرانداز کرسکتے ہیں جس کے شواہد الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران بھی ملے اور پی ٹی آئی پر غیر قانونی فنڈنگ ثابت ہوئی۔ یہ پاکستان مخالف قوتوں کا ایک اتحاد ہے جو امریکا میں پاک فوج کے سپہ سالار کی تصویریں لگا کے ٹرک بھی چلواتا ہے اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ ساتھ صحافی بھی خریدتا ہے۔ اگر یہ کوئی نظریاتی جدوجہد بھی ہے تو اس کی بنیادپاکستان کی دشمنی ہے۔ پاکستان کی فوج اور حکومت کی دشمنی ہے اور امریکا کی لابنگ کی صنعت ان کی سہولت کاری کرتی ہے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ لابنگ کی صنعت بنیادی طور پر صحت اور ماحولیات جیسے امور کے لئے ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کی تنظیمیں اور حکومتیں امریکہ کی توجہ اور فنڈز لے سکیں مگر کیا لابنگ کی یہ انڈسٹری واقعی انہی اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے تواس کاجواب نفی میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا میں سوچنے سمجھنے والوں کولابنگ کی اس انڈسٹری بارے غوروفکرکرتے ہوئے کچھ اخلاقی حدود و قیود میں لانا ہوگا ورنہ امریکی سیاستدان شرمناک طریقے سے کچھ مالدار مافیاز کے مفادات کے تحفظ کے لئے برائے فروخت موجود رہیں گے اور وہ اسے آنریریم، فنڈ ریزنگ اور ڈونیشنز جیسے صاف ستھرے نام دیتے رہیں گے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کی کہتے ہیں کرتے ہیں امریکی ا لابنگ کی ہیں اور ہے اور ہے مگر کے لئے ہیں کہ

پڑھیں:

ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

جب پورا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو، عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں اور مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، ایسے میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فی صد اضافہ، کیا انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کی باز گشت ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنی ر وز مرہ کی ضروریات کی عدم تکمیل پر نفسیاتی عذاب کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب حکمران طبقہ ہے جس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کا نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ خبر آئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فی صد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی سفارشات وزیر اعظم جناب شہباز شریف کو ارسال کردی ہیں، ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہ و مراعات پانچ لاکھ انیس ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے، اس حوالے سے فنانس کمیٹی نے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں، واضح رہے کہ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں، اس اضافے سے ارکانِ پارلیمنٹ کی سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی ہو جائیں گی، قبل ازیں پنجاب اسمبلی نے بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کردی ہے۔ 83 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے پارلیمانی سیکرٹری اب 4 لاکھ 65 ہزار روپے تنخواہ وصول کریں گے، جبکہ ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں کیا گیا یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر لاگو ہوتا ہے، جبکہ انہیں حاصل ہونے والے ٹی اے، ڈی اے، مفت طبی سہولت، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ بل کی منظوری کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ کو وفاقی سیکرٹری کے برابر سہولت حاصل ہوں گی، المیہ یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ دس لاکھ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر بھلا ہو اسپیکر ایاز صادق کا جنہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی یہ دلیل دی گئی کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ کم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی اور اس کی فیملی کو علاج معالجے کی مفت سہولت کے علاوہ پورے سال جاری رہنے والے اسمبلی میں اجلاس میں شرکت کے لیے ٹی اے، ڈی اے کی مد میں بھی خطیر رقم دی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں حصہ لینے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیوں کر پیچھے رہتا، اس ادارے نے بھی بلاجھجھک مطالبہ کیا ہے کہ اسے اپنے افسران کے لیے 6 ارب مالیت کی 1010 گاڑیاں دی جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا اس کے برخلاف اپنی ہی مراعات میں اضافہ کروا کے عملاً قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ جنہیں وہ اپنا مسیحا، ہمدرد و خیرخواہ سمجھتے ہیں وہ قطعاً ایسے نہیں انہیں عوامی مشکلات اور مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر 120 ارب ڈالر سے زاید کے بیرونی قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہو، جس ملک کا عام شہری تک اس قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو، جہاں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہو، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہو، 40 فی صد سے زاید افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، جس ملک کی شرح خواندگی فخر کے قابل نہ ہو، جہاں ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول نہ جا پاتے ہوں، جہاں بے روزگاری کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں 12 لاکھ 78 ہزار نوجوان بہتر روزگار کے لیے ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جاچکے ہوں، جہاں 96 فی صد شہری اور 89 فی صد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو، جہاں باپ اپنے بچوں کی خواہشات نہ پوری کرنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہا ہو، بچے فروخت کیے جارہے ہوں۔ خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہو، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہو، غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں، وہاں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومتی ارکان اور عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل و مشکلات کی قطعاً پروا نہیں، ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے! لطف کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے آرزو مند، اور ملک میں ’’انصاف‘‘ کا بول بالا کرنے کا عزم رکھنے والوں نے مراعات کے حصول کے لیے اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے وقت کوئی عار محسوس نہیں کی، نہ انہیں عوام یاد آئے نہ عوامی مسائل، اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرانے والوں نے عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کی کس گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ارکانِ اسمبلی مالی آسودگی پانے کے بعد عوامی مسائل و مشکلات کے لیے یکسو ہو جائیں گے اور ان مراعات کے بعد عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے وہ میدان ِ عمل میں کود پڑیں گے! بل منظور کرانے والوں نے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے، انہوں نے نہ عوام کی معاشی مشکلات کا خیال کیا نہ ہی اپنے اْس حلف کا پاس رکھا جس میں درج تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی و عوامی مفادات پر ترجیح دیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنا نہ حکومت کی ترجیح ہے نہ ان سیاسی جماعتوں کی جو عوام کو سبز باغ دکھاکر ایوان تک پہنچتی ہیں، آج عوام کس صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں کن معاشی مشکلات کا سامنا ہے؟ کوئی نہیں جو عوام کے لیے سوچے اور گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے لیے کچھ کرے۔ حکومت نے ایک مزدور کی جو تنخواہ مقرر کی ہے کیا وہ تنخواہ ایک مزدور اور اس کے خاندان کے لیے کفالت کا باعث ہے؟ کیا اسے ملنے والی تنخواہ میں کوئی میں اقتصادی جادوگر چار پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنا سکتا ہے؟۔ ایک جانب کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس نوع کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے عوام میں سخت مایوسی اور بددلی پھیل جاتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے نزدیک ملک کو درپیش معاشی بحران کی اہم وجہ ہی شاہانہ اخراجات اور موجود وسائل کے درمیان توازن کو نہ ہونا ہے۔ پیش آمدہ صورتحال کے تناظر میں یہ صرف جماعت ِ اسلامی ہی ہے جس سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں نے مراعات کی آلائشوں سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا اور ملکی وسائل کو ذاتی مفاد میں استعمال سے گریز کرکے پارلیمانی سیاست میں امانت و دیانت کی لازوال مثال قائم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کی اقتصادی حالت جس ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے اور جس طرح سے عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کیے جا رہے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت اس کے علاوہ نہیں ہے کہ عوام انتخابات کے موقع پر ان گندم نما جو فروشوں کے چہرے یاد رکھیں اور اپنا ووٹ ایسے افراد اور جماعت کے حق میں استعمال کریں جو خدمت اور دیانت کا شعار رکھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ مناسب نہیں تھا، امریکی وفد کے سربراہ کا اعتراف
  • چاہتے ہیں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کے پاس اپنا گھر ہو، امریکی سرمایہ کار جینٹری بیچ
  • کالعدم ٹی ٹی پی کے سینکڑوں ارکان سرحد سے دیگر علاقوں میں منتقل
  • ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!
  • کالعدم ٹی ٹی پی کے سیکڑوں ارکان سرحد سے دیگر علاقوں میں منتقل
  • نوازے ہوؤں کو نوازے ہے سرکار میری
  • عمران خان کو جیل میں کیا کیا سہولت دستیاب ہے ؟سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ نے عدالت کو بتادیا
  • عمران خان کو اڈیالہ جیل میں کونسی سہولیات دستیاب ہیں؟سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ نے عدالت کو بتادیا
  • ایپل کا سستا ترین آئی فون، خریدنےکے خواہشمندوں کیلئے بڑی خوشخبری