Nai Baat:
2025-01-30@08:09:36 GMT

ڈیجیٹلائزیشن: ٹیکس اصلاحات کا واحد راستہ!

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ڈیجیٹلائزیشن: ٹیکس اصلاحات کا واحد راستہ!

گزشتہ دنوں میں نے اپنے ایک کالم میں تفصیل سے لکھا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکس کولیکشن بڑھی ہے لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح اب بھی کم ہے۔اس وقت بقول وزیرخزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 10 فیصد کے قریب ہے جسے وہ اگلے 3سال میں 13.5 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی یہ خواہش اور سوچ درست ہے کیونکہ ورلڈ بینک کے مطابق، جی ڈی پی کا 15 فیصد ٹیکس ریونیو معیشت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے معاشی استحکام لانے میں مدد ملتی ہے۔ جب حکومت کے پاس اضافی وسائل ہوتے ہیں تو وہ ان کو صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں خرچ کرتی ہے، جو عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بناتا ہے۔ اس طرح سے ٹیکس کی شرح میں اضافہ معاشی ترقی، استحکام اور سماجی مساوات میں بہتری لاتا ہے، جو ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لیکن وزیرخزانہ کی خواہش اور سوچ کو عملی جامہ پہنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے جس سے دو کام ہوں۔ ایک تو ان لوگوں کے لیے نظام میں آسانیاں پیدا کی جائیں جوٹیکس دینا توچاہتے ہیں لیکن ٹیکس نظام سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں رجسٹرڈ ہونے کے بعد انہیں ٹیکس سے زیادہ متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کو نوازنے کے لیے پیسے خرچ نہ کرنا پڑیں اور دوسرا ان ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایسا نظام وضح کیا جائے کہ اربوں روپیہ افراد کی جیبوں میں جانے کے بجائے ملکی خزانے میں جمع ہو۔

میری نظر میں یہ دونوں کام کرنے کا ایک بہترین راستہ ڈیجیٹلائزیشن کا فروغ ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن دنیا کا مستقبل ہے۔ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ پاکستان میں سرکاری کاموں میں اس کا استعمال اب بھی پوری طرح نہیں ہوپارہا جس کی وجہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے پچھلے دنوں بتائی کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، انہیں سرکاری اداروں کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ رشوت کے بازار کو ختم کرنا ہے یا نہیں؟ اگر رشوت کو ختم کرنا اور نظام میں شفافیت لانا ہے تو ڈیجیٹل ہونا پڑے گا۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور اور وزیر آئی ٹی شیزہ فاطمہ کی باتوں کا خلاصہ کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں کو مسائل اور ان کا حل دونوں معلوم ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی سطح پر بے بسی کا شکار ہیں۔ حکومتی اور عوامی نمائندوں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے دنوں خبرآئی کہ ایف بی آر نے اپنے افسران کے لیے اربوں روپے مالیت کی 1010 گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا تھا کہ ایک ہزار دس گاڑیاں ایف بی آر کس لیے خرید رہا ہے جس پر وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے لیے خریدی جارہی ہیں۔سینیٹر سلیم ماونڈوی والا نے پوچھا کہ کیا پہلے فیلڈ افسر سائیکل پر سفر کرتے تھے؟ اہم حلقوں میں محبوب سمجھے جانے والے سینیٹر فیصل واوڈا نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف بی آر مخصوص کمپنی سے گاڑیاں خرید رہا ہے، یہ بہت بڑا سکینڈل ہے۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے افسران کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان افسران کے لیے گاڑیاں ضرور خریدیں گے، آپریشنز کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ حد یہ ہے کہ جب ایک صحافی نے چیئرمین ایف بی آر سے پوچھا کہ ’کیا آپ اپنے ٹارگٹس حاصل کرلیں گے‘، تو اس کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں نے ابھی جوتشی والا کام شروع نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ٹیکس جمع کرنے والوں کی اپنی ترجیحات کیا ہیں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کتنے مؤثر ہیں۔

میری رائے میں اگر حکومت اصلاحات چاہتی ہے تو اسے ٹیکس نہ دینے والوں اور اپنے اداروں پر رٹ منوانے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے کہ ٹیکس چوری کا سانپ بھی مرجائے اور حکومتی بھرم کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت تھوڑا حوصلہ کرکے ٹیکس نظام میں ڈیجیٹلائزیشن پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی، ٹیکس چوروں کی پکڑ اور افسر شاہی کے غیر ضروری عمل دخل کا خاتمہ ایک ساتھ ہو۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے خرید و فروخت کا ایسا نظام بنایا جائے کہ ٹیکس چوری ہو ہی نہ سکے۔ حکومت ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو فروغ دے۔ فوری طورپر کریڈٹ اور ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے خریداری پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے5 فیصد کردیا جائے تاکہ ڈیجیٹل پیمنٹس کے ذریعے خریداری کو فروغ ملے اور جتنی بھی ادائیگیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ باضابطہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوں۔ اب ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں لوگ کارڈ کے ذریعے پیمنٹس کو ترجیح دیتے ہیں جس پر 16 فیصد کی بجائے 5 فیصد سیلز ٹیکس کٹتا ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگاکہ حکومت کے پاس ٹیکس بیس کر بڑھانے کے لیے ڈیٹا دستیاب ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت پوائنٹ آف سیل نظام کو مزید بہتری لانے کے اقدامات بھی کرے۔

پاکستان میں ٹیکس اور دیگر سرکاری نظام کی ڈیجیٹلائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہو سکتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے، ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی اور سرکاری اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت اس سمت میں سنجیدہ اقدامات کرے تو نہ صرف معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ عوام کی زندگی کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا ہو سکے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افسران کے لیے پاکستان میں ایف بی ا ر کے ذریعے یہ ہے کہ

پڑھیں:

آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے ماہ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی

آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے ماہ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی جس دوران مارچ میں پہلے جائزے کیلئے معاشی کارکردگی کا جائزہ لے گی ۔
ٹاپ لائن ریسرچ کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم مارچ میں پہلے جائزے کیلئے معاشی کارکردگی کا جائزہ لے گی، پاکستان میں آئی ایم ایف کےنمائندے نے مجوزہ شیڈول پر فی الحال تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے ۔وزیرخزانہ محمد اورنگزیب آئی ایم ایف وفد کے آئندہ ماہ دورہ پاکستان کا عندیہ دے چکے ہیں ۔
جائزے کے کامیاب اختتام کی صورت میں ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط ملنے کا امکان ہے، 3سالہ قرض پروگرام 2024 سے ستمبر 2027 تک محیط ہے، 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف پروگرام کے تحت 6ششماہی جائزے مکمل کئے جائیں گے، اگلی قسط کی ادائیگی کئی شرائط پر عملدرآمد سے مشروط ہے۔
آئی ایم ایف کے 7 نئے اہداف میں سے زیادہ تر پر حکومت کی کارکردگی مثبت ہے، حکومت نے ستمبر اور دسمبر 2024 کے زرمبادلہ اہداف کو پورا کیا، اسٹیٹ بینک کے ڈومیسٹک ایسٹس کا ہدف بھی پورا ہو رہا ہے، پہلا بجٹ خسارہ اور نئے ٹیکس فائلرز کے اہداف بھی قابلِ حصول ہیں، بعض اہداف پر معمولی انحراف کے ساتھ درست اقدامات پر بورڈ چھوٹ دے سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے کچھ ریونیو اہداف پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے، تاجر دوست اسکیم کے تحت ٹیکس وصولی ان اہداف میں سے ایک ہے، ٹارگٹڈ کیش ٹرانسفر کے حوالے سے ڈیٹا اب تک دستیاب نہیں ہے، حکومت کی موجودہ کارکردگی زیادہ تر معیارات پر پوری اتر رہی ہے، یہ کارکردگی آئندہ قسط کے حصول کے لیے امید افزا ہے، ٹیکس اہداف پورا کرنے سمیت بعض کمزوریاں توجہ طلب ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومتی آئی پی پیز کیساتھ نظر ثانی معاہدے کرنے جا رہے ہیں‘ اویس لغاری
  • آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے ماہ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی
  •  رواں سال سے بجلی کی خرید و فروخت حکومت کی ذمہ داری نہیں رہے گی: اویس لغاری
  • برصغیر کی وہ واحد ریاست جو برطانوی راج سے آزاد رہی
  • ایک ہی راستہ بچا ہے
  • غیر ظاہر شدہ آمدن اور اثاثوں کا راستہ روکنے کا فیصلہ
  • عدالتی اصلاحات اور ججوں کی تعداد میں اضافہ موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے،  امیر مقام
  • حکومت کا  گیس کی قیمتوں سے متعلق نیا نظام لا نے کااعلان
  • حکومت نے ملک میں کالے دھن کا راستہ روکنے کے لیے کیا بڑا فیصلہ کیا ہے؟