اپنے ملک یا ریاست کو ترقی دینا ہر حکمران کی اولیں ترجیح ہوتی ہے لیکن اِس کے ساتھ کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے ریاست یا ملک کے مفاد متاثر ہوں یا لاحق خطرات میںشدت آئے معاشی ترقی سے دفاعی مضبوطی بھی اہمیت کے اعتبار سے کم نہیں موجودہ دورمیں معاشی اور حربی مضبوطی دنیا سے جُڑے رہنے میں ہے مگر صدرٹرمپ کے اقدامات اور احکامات امریکی تنہائی کاباعث بن سکتے ہیں ٹھیک ہے ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کے نعرے پر انتخاب جیتااوراب صدرکے منصب پر براجمان ہیں اگر امریکی سب سے پہلے امریکہ کے نعرے کو پسندنہ کرتے توہر گزووٹ نہ دیتے لیکن بے احتیاطی کی اُنھیں اجازت نہیں ملی اپنے چارسالہ عہدے کی مدت کے آغازکے پہلے ہی دن بے احتیاطی کامظاہرہ کیاہے اورسو احکامات ایسے جاری کیے ہیں جن سے ایک طرف ملک کے کئی طبقوں میں تشویش کی لہرہے تودوسری طرف عالمی سطح پربھی امریکہ بارے پریشانی میں اضافہ ہواہے پریشانی کاشکارکئی قریبی اتحادی کینیڈا،فرانس ،جرمنی ، ڈنمارک سمیت دیگر کئی یورپی ممالک بھی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ امریکہ کے اپنے اتحادیوں سے بھی سیاسی اور دفاعی مفادات میں پڑسکتے ہیں۔
امریکہ بڑی طاقت ضرورہے لیکن اُس کی حربی ومعاشی قوت میں اتحادیوں کا اہم کردار ہے ڈالرکوجو غلبہ غاصل ہے یہ بھی اتحادیوں کا مرہونِ منت ہے ڈالرکا زوال امریکی ہوگا گزشتہ کئی دہائیوں سے تیل کی تجارت ڈالر میں ہورہی ہے جس کی وجہ امریکہ اورسعودی عرب میں طے پانے والا معاہدہ ہے معاہدے کے تحت سعودیہ اپنے دفاع کی ذمہ داری کے عوض تیل کی تجارت ڈالرمیں کر تا ہے مگر گزرے تین عشروں میں حالات کافی حدتک تبدیل ہوچکے عالمی معاشی نظام میں دیگر ممالک نے پیش رفت کی ہے جس سے امریکہ کوحاصل معاشی وحربی بالادستی میںکمزوری آئی چین سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک نے معیشت کے ساتھ اپنی حربی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے روس اپنے کھوئے وقارکی بحالی کے لیے سرگرم ہے برکس،شنگھائی تعاون تنظیم اور جی ایٹ جیسی تنظیموں میں شامل ممالک کا امریکہ پر انحصارکم ہوا ہے مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی میں تجارت کے معاہدے ہونے لگے ہیںیہ ایسی تبدیلی ہے جو امریکہ اور ڈالر کی بالادستی کے لیے بڑے چیلنجزکی طرف اِشارہ کرتی ہے اور احتیاط کی متقاضی ہے لیکن ٹرمپ کے احکامات اور اقدامات جارحانہ ہیں جن سے درپیش چیلنجز کم ہونے کی بجائے اضافہ ہوسکتا ہے ٹرمپ کی جیت ظاہر کرتی ہے کہ امریکی مقتدرہ فی الحال ایک قدم پیچھے ہو گئی ہے اور ملکی نظم ونسق اور پالیسی سازی میں مداخلت روک دی ہے جس سے نہ صرف امریکی بالادستی کو زوال آسکتا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی عدم مداخلت کی یہ پالیسی تلاطم لا نے کاموجب ہوسکتی ہے۔
امریکی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے سے ممکنہ معاشی و حربی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے لیے دنیا میں صف بندی کاآغاز ہو گیا ہے جرمن چانسلر اولاف شولس کا دورہ پیرس کے دوران اپنے میزبان فرانسیسی صدر امانوئل میکغوں کواعتماد میں لینا اِس بناپر بہت اہم ہے کہ دونوں میں یورپی یونین کی طرف سے ایک متفقہ اور جامع موقف اختیارکرنے اور اِس حوالے سے وسیع تر کوششوں پربھی اتفاق ہوگیا ہے تاکہ پورپی یونین میں شامل تمام ممالک کی نہ صرف معاشی ترقی ممکن ہو بلکہ دفاعی حوالے سے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے خودانحصاری کی پالیسی اپنائی جائے یہ بہت حیران کُن بات ہے دراصل ٹرمپ کے صدربننے سے یورپی یونین میں امریکہ مخالف لہر نے جنم لیا ہے ڈنمارک سے گرین لینڈ خریداری کے حوالے سے ٹرمپ کالہجہ دھمکی آمیز رہا ایسے لہجے کو کوئی بھی آزاد و خود مختار ملک پسند نہیں کر سکتا اب جبکہ حالات بدل چکے ہیں نوآبادیاتی نظام کے لیے حالات سازگار نہیں کیمونزم کاخطرہ دم توڑچکا علاوہ ازیں معاشی بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے یورپ کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصاربھی کم ہو رہا ہے اور نہ صرف یورپی ممالک کی معاشی صورتحال ماضی کی بہ نسبت بہترہے بلکہ حربی حوالے سے ترقی بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہی لیکن امریکہ چاہتاہے یورپی یونین نیٹودفاعی تنظیم کے اخراجات میں تعاون بڑھائے حالانکہ نیٹوامریکہ اور یورپی یونین دونوں کے لیے اہم ہے اسی لیے امریکی مطالبے کویورپی یونین میں شامل کچھ طاقتور ممالک سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ امریکی مطالبات پورے کرنے سے زیادہ اپنے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں ڈنمارک نے تو واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ وہ گرین لینڈ کے حوالے سے امریکی مطالبہ پوراکرنے کی بجائے سخت موقف رکھے گا ٹرمپ احکامات اتحادیوں کودورکر سکتے ہیں نہ صرف یورپ سے سیاسی و معاشی اختلافات تبدیلیوں کی راہ ہموار گی بلکہ امریکہ کا عالمی کردار محدودہونے کے ساتھ دنیامیں بڑے پیمانے پر معاشی و حربی تبدیلیاںیقینی ہیں ۔
ٹرمپ کو سب سے پہلے امریکہ کانعرہ لگاتے ہوئے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بطورصدر اُنھیں اپنے ملک کے مسائل حل کرنے اختیارحاصل ہواہے دنیاکودھمکانے اورلوٹنے کا اختیارنہیں مل گیا اگر وہ مستقبل میں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتے تونہ صرف اہم اتحادیوں سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ قرب وجوارمیں بھی ناپسندیدہ صورتحال جنم لے سکتی ہے کینیڈاسے ملک کو ضم کرنے کا مطالبہ وگرنہ بھاری ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دانشمندانہ نہیں یہ خطے میں بااعتماد ساتھیوں کوکھونے پر منتج ہوسکتی ہے پیرس کے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے(جس پر دوسو سے زائد ممالک کے دستخط ہیں)سے علیحدگی،بیرونی امداد بندکرنے اور عالمی اِدارہ صحت سے الگ ہونے کا اعلان امریکی مفادکے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا ہواتو دنیامحتاجی سے نکلے گی اگر ایک راستہ بند ہو تومتبادل ملنانظامِ قدرت ہے ملک یا ریاست وہی زیادہ محفوظ اور مستحکم ہوتی ہے جو قُرب وجوار میں خطرات سے محفوظ ہومگرتارکینِ وطن کی بے دخلی ،کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر پچیس فیصد ڈیوٹی عائد کرنے جیسے اعلانات سے ہمسائیگی میں نفرت بڑھے گی کینیڈا کی وزیرِ خارجہ نے توصاف کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ اقدامات پر اُن کی حکومت سخت ردِ عمل دے گی یہ ٹرمپ اقدامات پر ہمہ گیر خطرات کی طرف اِشارہ ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: یورپی یونین حوالے سے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں
پاکستان اور امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹس اور اداروں کے درمیان جو گہرے مراسم ہیں ان کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی اپنے ٹرمپ کارڈ سے محروم بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیماب صفت اور جذباتی ضرور ہیں لیکن پاگل نہیں، یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور اینکر پرسن فہد حسین نے اپنے نئے بلاگ میں کیا ہے جو ملک کے معروف انگریزی اخبار میں شائع ہوا ، فہد حسین لکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کھیل حتمی اور سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ پہلے نیٹ پریکٹس جاری تھی اب میچ شروع ہو گیا ہے اور پچ غیر متوقع ہے، بال بہت زیادہ سوئنگ کر رہی ہے، سپن بھی زیادہ ہے، آٹ فیلڈ بھی تیز ہے، اور تماشائیوں کا شور کھلاڑیوں کو نروس کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے حلف اٹھا لینے کی وجہ سے پاکستان کی راج نیتی کے کھیل کی گاڑی کو اگلا گیئر لگ گیا ہے، آنے والے دنوں میں مختلف حوالوں سے تیز رفتار پیش رفت ہو گی، اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ 190 ملین پائونڈ کیس میں کوئی سخت فیصلہ دے کر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی امیدوں پر پانی بھی پھیر سکتی ہے کیونکہ عمران خان کو اب تک عدت کیس جیسے جتنے بھی بے سروپا مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں ان کے مقابلے میں 190ملین پائونڈ کیس واحد مقدمہ ہے جس کی انتہائی ٹھوس بنیاد ہے، اس لئے یہ کیس عمران خان کے خلاف حکومت کا ٹرمپ کارڈ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ریاست کی طاقت نے معاملات کو حکومت کی فیور میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، حکومت اپنی پوزیشن کے حوالے سے بہت پر اعتماد ہے، لیکن اس سب کے باوجود حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی تینوں امریکہ اور واشنگٹن کی طرف بے چین نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی امریکہ میں سب کچھ بدل گیا ہے لیکن کیا اس کی وجہ سے آیا ہمارے ہاں بھی تبدیلی آئے گی؟ یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پی ٹی آئی کی تمام تر امیدیں اس وقت امریکہ سے وابستہ ہیں اور ریڈ زون کے طاقتور لوگ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے امریکہ اور ٹرمپ کے سرکلز میں پی ٹی آئی اور اوورسیز پاکستانیوں کی پہنچ اور اثر و رسوخ کا اندازہ لگانے میں غلطی کی اور اسے انڈر ایسٹیمیٹ کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 نئے جج صاحبان بھی ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے 2 روز بعد اپنا حلف اٹھا چکے ہیں، اس دوران پی ٹی آئی 190 ملین پائونڈ کیس میں اپنے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کی سزا کیخلاف اپیل دائر کر چکی ہے، اس کیس کی سماعت کے لئے جو بنچ تشکیل دیا جائے گا اس کی ساخت پر بھی بہت کچھ منحصر ہے کہ یہاں سے بھی نظر آ جائے گا کہ عمران خان اور بشری بی بی کو کس حد تک ریلیف ملنے جا رہا ہے، اگر حکومت ٹرمپ اور اسلام آباد ہائیکورٹ والے 2 اہم مراحل کو کامیابی سے عبور کر لیتی ہے تو پھر آنے والے مہینوں کے دوران وہ پرسکون انداز میں اپنے معاملات چلانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
جہاں تک پی ٹی آئی اور عمران خان کا تعلق ہے ان کا انحصار بھی انہی دو باتوں پر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ عمران خان کو چھوڑتی ہے یا نہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو یاد رکھتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں ۔ حتمی طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اگر امریکہ میں وائٹ ہائوس سے یا پاکستان میں شاہراہ دستور سے ٹرمپ کارڈ مل جاتا ہے تو نتائج غیر متوقع بھی ہو سکتے ہیں۔فہد حسین نے اپنے انگریزی بلاگ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اسے ٹرمپ کے تازہ اقدامات سے بھی تقویت مل رہی ہے، ٹرمپ کا پاکستانی اور عرب ووٹرز سے رات گئی بات گئی والا تازہ ترین سلوک اس حوالے سے الارمنگ ہے ، اس نے اپنے انتخابی وعدوں کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی فراہمی بحال کر دی ہے، اور یہ دعوی بھی سامنے آ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی وائٹ ہائوس نے جھنڈی کرا دی ہے۔ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانیوں اور مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں امریکہ کے عرب اور پاکستانی مسلم ووٹرز کا بڑا ہاتھ ہے اس لئے فلسطین اور غزہ کے ایشو پر بھی ٹرمپ کی پالیسیاں فلسطینیوں اور عربوں کو ریلیف دلوانے والی ہوں گی اور پاکستان سے متعلق پالیسیوں میں بھی تبدیلی آئے گی اور ان سے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملے گا، لیکن یہ تمام خواب اس وقت خواب پریشاں بن کر رہ گئے کہ جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں واضح اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے۔ حالیہ پیشرفت میں انہوں نے اسرائیل کو دوہزار پائونڈ طاقت کے بموں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو سابقہ بائیڈن انتظامیہ کے آخری دور میں لگائی گئی تھی ۔ ( جاری ہے)