پاکستان کی سیاست کی کو ئی کل سیدھی نہیں ہے، یہاں کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حریف کل کے حلیف بنتے ذرا دیر نہیں لگتی ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ مفادات کے حصول کے گرد گھومتی ہے۔ جس کو جہاں اپنا فائدہ نظر آیا وہ اس طرف چلا جاتا ہے ، اصول اور نظریات جو کسی زمانہ میں سیاست کی جان ہوا کرتے تھے اب یہ الفاظ اپنی قدر کھو چکے ہیں ۔ قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح حاصل ہو چکی اور یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت کو عوام سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا ہے ۔ اراکین پارلیمنٹ بھی آپ کو الیکشن کے دنوں میں ہی نظر آتے ہیں اور اس کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سیاست خدمت کی بجائے پیسوں کاکھیل بن چکی ہے اور عام آدمی الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ اب امراء کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں سب سے اہم کردار ایک سیاسی کارکن کا ہوتا ہے۔ کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی اس جماعت کا کارکن ہوتا ہے لیکن کارکن ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے جسے سیاستدان اپنے مطلب کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا اور ضرورت پوری ہونے پر چھوڑ دیتا ہے۔ کارکن ہمیشہ جذباتی اور محب وطن ہوتا ہے جس کیلئے سب کچھ اپنا وطن اور جماعت ہوتی ہے ‘ وہ اپنے ملک و قوم کی ترقی کیلئے اپنے لیڈر کی میٹھی میٹھی باتوں سے متاثر ہو کر اسے قوم کا مسیحا سمجھنے لگتا ہے اور ملک و قوم کی محبت کی آڑ میں سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان کارکن کے ان جذبات کا فائدہ اٹھا کر اسے خوب استعمال کرتا ہے۔جہاں تک زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے اس طرح کی نہیں جیسا کہ مغربی ممالک کی سیاسی جماعتیں ہیںجو باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہیں۔ ہمارے ہاں عوام سب کی عزت کرتے ہیں مگر ان کی عزت کون کرتا ہے؟
ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ قانون ساز ادارہ میں کیا ایسے افراد ناپید ہیں جو عوام کی بھلائی کیلئے قانون سازی کر سکیں؟ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہمیشہ سے مہنگائی ہی رہا ہے۔ گو مہنگائی کم کرنا اراکین پارلیمنٹ کا کام نہیں لیکن حکومتی و اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین حکومت پر دبائو تو ڈال سکتے ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرے۔ اس کے علاوہ ہر فرد کو صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی حکومت کا کام ہے۔ لیکن آپ کسی سرکاری ہسپتال چلے جائیں آپ کو نا لائقی اور کرپشن کی مثالیں قدم قدم پر نظر آئیں گی ۔تھانہ کچہری کلچر کے ڈسے عوام کی دہائی الگ داستانیں سنا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھے لوگوں کی اس معاشرہ میں کمی نہیں لیکن بحیثیت مجموعی معاشرہ گراوٹ کا شکا ر ہے۔ دھوکہ دہی، فراڈ، بے ایمانی، ملاوٹ، کرپشن جیسی معاشرتی برائیاں معاشرہ کیلئے ناسور بن چکی ہیں ۔ کیا یہ نظام ٹھیک ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر شریف اور ایماندار آدمی کے ذہن میں موجود ہے۔ اس سوال کا جواب تو یہ ہونا چاہئے کہ یہ نظام ضرور بدلے گا لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں‘ اس کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا آپ بدلنا ہو گا۔ ایک سیاسی جماعت کا شاید سلوگن تھا ’یہ نظام تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔‘ میرے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ شر اور خیر کی لڑائی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ کبھی شر کی قوتیں زور پکڑ لیتی ہیں تو کبھی خیر غالب آ جاتی ہے۔وقتی طور پر آپ کو شاید لگے کہ شر کی قوتیں جیت رہی ہیں لیکن آخری فتح خیر کی ہو تی ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہی وتیرہ رہا ہے کہ ہر نئی حکومت دو طرح کے وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے ایک وعدہ عام لوگوں سے کیا جاتا ہے جبکہ خواص سے دوسری نوعیت کا وعدہ ہوتا ہے۔ عوام الناس سے کیے جانے والے عام وعدوں میں بہتر معیار زندگی،بے روزگاری میں کمی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔خصوصی وعدے سیاستدانوں سے انفرادی اور گروہی سطح پر کیے جاتے ہیں یہ وعدے حکومتی پارٹی کی حمایت کے صلے میں سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کیلئے انفرادی مراعات اور ان کے انتخابی حلقوں میں ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے ترقیاتی کاموں کا اجرا ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا ایک اور عجیب طرزِ عمل ہے۔ یہاں سیاست عوامی مفاد سے زیادہ مخصوص لیڈروں کی خواہشات کے گرد گھومتی ہے اور ماضی وحال میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اور مستقبل میں بھی مزید مثالیں سامنے آئیں گی۔ پاکستان کے 24 کروڑ عوام بہترین زندگی نہیں صرف جینے کا حق چاہتے ہیں، پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس، دو وقت کی روٹی، پرامن ماحول، وہ بیرون ممالک میں نہیں پاکستان کے سرکاری ہسپتال میں علاج کرانا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو امریکا میں نہیں پاکستان میں پڑھوانا چاہتے ہیں۔انہیں ان کا حق دیا جائے لیکن یہ گتھی اتنی آسانی سے سلجھنے والی نہیں۔ بقول شاعر ؎
غیرممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
آخر میں ‘ میں تمام سیاسی جماعتوں سے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ عوام اس نظام سے تنگ آ چکے ہیں‘ وہ سیاستدانوں کی آپسی لڑائیوں سے سخت نالاں ہیں جو اپنے مفادات کی خاطرباہمی دست و گریبان ہیں ۔ عوام کی خواہش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھیں اور ملکی مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اور قابل عمل لائحہ عمل بنائیں ۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے‘ نوجوان افرای قوت ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ ہے۔عوام حسرت بھری نگاہوں سے سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے مفادات اور خواہشات کا گلہ گھونٹ کر ان کے حلق میں پانی انڈیلیں۔خدارا‘ ان کی امید ٹوٹنے نہ دیں۔ کل کیا ہو گا کسی کو کچھ پتہ نہیں لیکن پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا ‘ تاہم یہ وقت ہے کہ سیاستدان اپنے طرزِ عمل سے ا س تاثر کو زائل کرتے ہوئے نفرت‘ انتشار اور تقسیم کا خاتمہ کریں۔ باقی سیاست تو چلتی رہے گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سیاسی جماعت ہے کہ سیاست ہیں لیکن جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
سڑکوں کی سیاست بھی کرنا جانتے ہیں، تصادم نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے، عالیہ حمزہ
لاہور:پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ کا کہنا ہے کہ ہم سڑکوں کی سیاست بھی کرنا جانتے ہیں لیکن تصادم نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے اور اگر مفاہمت کرنی ہے تو پرچے کیوں درج کیے جا رہے ہیں۔
لاہورمیں صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ نے کہا کہ عوام کا فیصلہ نہیں مانا گیا اور بانی پی ٹی آئی کو بے گناہ جیل میں رکھا گیا ہے جس سے ملک تباہی کی طرف گیا لیکن ہم تو اس ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو مینار پاکستان جلسے کی درخواست لے کر ڈپٹی کمشنر آفس جا رہی ہوں جہاں ہم جسلہ کریں گے۔
عالیہ حمزہ نے کہا کہ نے کہا کہ مجھے آج تک فارم 45 یا فارم 47 نہیں ملا، لوگوں نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے لہٰذا مجھے میری سیٹ دی جائے اور اگر آپ جیتے ہیں تو کیوں فارم 45 فارم 47 نہیں دیے جا رہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا مقدمہ ہر عدالت میں لڑا ہے، کیا فارم 45، 46، 47 کی کاپیاں دینا میرا حق نہیں؟ آر او کو کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو جواب آتا ہے کہ درخواست گزار بات نہیں کر سکتی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ این اے 118 کے لوگوں نے اعتماد کیا ہے اور کارکنان کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اعتماد کیا، لوگ بکے نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عہدہ ایک ذمہ داری ہے اور میرا عہدہ وغیرہ پی ٹی آئی کے نام ہے، عالیہ حمزہ پاکستانیوں کی آواز ہے۔ اب راج کرے گی خلق خدا!
قبل ازیں، الیکشن ٹربیونل نے این اے 118 میں حمزہ شہباز کی کامیابی کے خلاف عالیہ حمزہ کی درخواست کے قابل سماعت پر ہونے پر دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 30 جنوری تک ملتوی کر دی۔
الیکشن ٹربیونل کے جج رانا زاہد محمود نے عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت کی۔ عالیہ حمزہ کے وکیل کی جانب سے الیکشن ٹریبونل میں ایک اور درخواست دائر کی گئی۔
درخواست میں موقف دیا کہ حمزہ شہباز فارم 45 اور فارم 47 الیکشن ٹریبونل میں جمع کروائیں، الیکشن کمیشن 8 فروری کو الیکشن مینجمنٹ سسٹم پر اپلوڈ ہونے والے فارم 47 اور 45 کی مصدقہ کاپیاں فراہم کرے۔