کالعدم ٹی ٹی پی کے سینکڑوں ارکان سرحد سے دیگر علاقوں میں منتقل
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
ایک سینئر افسر نے نئی پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے دیرینہ خدشات کے پیش نظر طالبان کا حالیہ اقدام انتہائی ناکافی ہے، منتقل افراد میں زیادہ تر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خاندان کے لوگ ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کی بڑھتی ناراضی کے پیش نظر طالبان حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ ارکان کو سرحدی علاقے سے ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل کر دیا، پاکستان نے کابل کے اس اقدام کو انتہائی ناکافی قرار دے دیا۔ ایک سینئر افسر نے نئی پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے دیرینہ خدشات کے پیش نظر طالبان کا حالیہ اقدام انتہائی ناکافی ہے، منتقل افراد میں زیادہ تر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خاندان کے لوگ ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی طالبان حکومت نے ایسے ہی اقدامات کئے جن سے خاص فرق نہیں پڑا تھا، کیونکہ صرف ٹی ٹی پی کے ارکان منتقل کیے گئے، جنگجو نہیں۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ پیش رفت متحدہ عرب امارات کے کابل پر دباؤ کا نتیجہ ہے، تاہم اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کے کردار کی کابی یا اسلام آباد نے تصدیق نہیں کی۔ ایک اور افسر نے بتایا کہ بعض اندازوں کے مطابق افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی تعداد 6 سے 8 ہزار کے درمیان ہے، ان کے خاندانوں کے 20 ہزار کے لگ بھگ ارکان بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں، ان میں چند سو افراد کی منتقلی پاکستان کے مطالبے کا جواب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں سے ٹی ٹی پی کی منتقلی کی تجویز افغان طالبان کی طرف سے آئی کیونکہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کا اظہار کیا تھا۔
اس تجویز پر پاکستان نے ہمیشہ شک و شبہ کا اظہار کیا کیونکہ طالبان اس بات کی ٹھوس ضمانت دینے کیلئے تیار نہ تھے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کیلئے خطرہ نہیں بنے گی۔ ادھر ذرائع نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ارکان کی منتقلی کی خبر پاکستان کے سرحد پار فضائی حملوں کے کچھ ہفتے کے بعد آئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی کے پاکستان کے بتایا کہ
پڑھیں:
اسرائیل جلد ایرانی جوہری پروگرام پر حملہ کر سکتا ہے، امریکی اخبار کا دعویٰ
WASHINGTON:امریکی اخبار کی رپورٹ میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل آنے والے مہینوں میں ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کرسکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ امریکی انٹیلیجنس کے مطابق اسرائیل آنے والے مہینوں میں ایرانی جوہری پروگرام پر حملہ کرسکتا ہے، جس سے تہران کے جوہری پروگرام کو ہفتوں یا مہینوں میں بڑا دھچکا لگے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حملے سے پورے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پھیل جائے گی اور وسیع پیمانے پر علاقائی تنازع دوبارہ مزید سنگین ہوجائے گا۔
اسرائیل کے ممکنہ حملے سے متعلق وارننگ کئی انٹیلیجینس رپورٹ پر مبنی ہے جو بائیڈن انتظامیہ کے خاتمے اور ٹرمپ انتظامیہ کے آغاز کے دوران تیار کی گئی ہیں، جن میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے ڈائریکٹوریٹ اور ڈیفنس انٹیلیجینس ایجنسی کی تیار کردہ انتہائی ہم ہے جو جنوری کے شروع میں دی گئی تھی۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ اسرائیل ہوسکتا ہے ایران کے فاردو اور ناتانز جوہری تنصیبات پر حملے کی کوشش کرسکتا ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے ردعمل دینے سے گریز کیا اورواشنگٹن پوسٹ نے بھی لکھا کہ اسرائیلی حکومت، سی آئی اے، ڈیفنس انٹیلیجینس ایجنسی اور نیشنل انٹیلیجینس کے ڈائریکٹر آفس نے بھی جواب نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے ٹرمپ کے حوالے سے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ طویل عرصے سے جاری امریکی تنازعات مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کو ترجیح دیں گے اور اگر ایران نے معاہدے کی خواہش ظاہر نہیں کی تو پھر وہ انتظار بالکل نہیں کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے امریکا کے باخبر موجودہ اور سابق عہدیداروں نے بتایا کہ اسرائیل اکتوبر میں ایران پر بمباری اور ایران کے ایئرڈیفنس کو نقصان پہنچا کر اس کی صلاحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہے تاہم مذکورہ عہدیداروں کے نام نہیں بتائے گئے۔
واشنگٹن پوسٹ نے مزید لکھا کہ ایران کے دو مخصوص مقامات پر ممکنہ حملوں میں امریکا بھی فضائی اور انٹیلیجینس تعاون کے ساتھ شریک ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے اور خاص طور پر اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔
یاد رہے کہ 2015 میں امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی اور امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں محدود کیا گیا اور اس پر عائد معاشی پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔
بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں معاہدے سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں تاہم گزشتہ ماہ جنیوا میں ایران کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مذاکرات دوبارہ شروع کیے تھے۔