سپریم کورٹ اس وقت شدید تقسیم کا شکار نظر آتی ہے جس میں اختیارات کی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے، گزشتہ پیر جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذرعباس کے خلاف توہین عدالت مقدمے کے فیصلے میں کہا کہ فُل کورٹ اس بات کا جائزہ لے کہ عدالتی احکامات کے باوجود ججز کمیٹی نے جس طرح سے بینچ کے سامنے زیرالتوا مقدمہ ہٹایا وہ توہینِ عدالت کے زُمرے میں آتا ہے یا نہیں۔

اگلے روز یعنی منگل کو آئینی بینچ نے اس مقدمے کی بنیاد بننے والے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے احکامات واپس لے لیے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے

سپریم کورٹ میں اختیارات کی اِس رسہ کشی پر سبھی کو تشویش ہے، معروف سیاسی تجزیہ نگار اور پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے نام لیے بغیر آج ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس صورتحال پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے نظر انداز کیے جانے کی صورت میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی روایت کے گن گائے ہیں۔

’یہ ایک قدیم روایت ہے کہ جب ایک ادارے کے سینیئر ترین فرد یا افراد کو قانونی طور پر ہی سہی بائی پاس کر کے ایک نسبتاً جونیئر فرد کو سربراہ بنا دیا جاتا ہے تو نظرانداز کیے جانے والے سینیئرز ریٹائر ہو جاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں، اس روایت میں بہت سی مصلحتیں ہیں۔‘

مزید پڑھیں: کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بنا سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

احمد بلال محبوب کے مطابق بائی پاس ہونے والا سینیئر غیر جذباتی اور منطقی انداز میں سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر ادارے اور نظام کے خلاف منتقمانہ کارروائیاں اور نظام کو تہ و بالا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، یہ صورت حال ادارے اور ملک دونوں کے لیے انتہائی خطرناک ہو جاتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر بھی اسے انتہائی سنجیدہ معاملہ قرار دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم، سوائے پارلیمنٹ کے، ختم نہیں ہو سکتی، حافظ احسان کھوکھر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق اپنا مائنڈ سیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔

 سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ میں جس طرح کی تقسیم نظر آتی تھی اور جس طرح سے سپریم کورٹ جج صاحبان ایک دوسرے کے خلاف خطوط جاری کیا کرتے، وہ صورتحال اُن کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دور میں بھی برقرار رہی۔

لیکن جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے عہدے کی معیاد کے بالکل آخری ایام یعنی اکتوبر 2024 میں 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہوئی جس کے نتیجے میں نہ صرف آئین کے آرٹیکل 191 اے میں آئینی بینچ قائم کیا گیا بلکہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی تبدیل کردیا گیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سے جونیئر جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔

ملک بھر کی اکثریتی وکلا برادری 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیوں ہے؟

اس وقت سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف 20 سے زائد درخواستیں زیرالتوا ہیں، جن میں اکثریتی درخواست گزار وکلا اور وکلا تنظیمیں ہیں، وکلا برادری کا مؤقف ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، اختیارات کی تقسیم کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ اس ترمیم میں سنیارٹی کے اُصول کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

پیر کو جب مقدمے کی سماعت ہوئی تو درخواست گزاروں کا مطالبہ تھا کہ اس درخواست کو فُل کورٹ سنے، جس پر عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔

موجودہ تنازعے کی ابتدا کیسے ہوئی؟

 13جنوری کو ایک مقدمہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 3 رُکنی بینچ کے سامنے آیا تو اُس میں سوال کسٹم ایکٹ کے سیکشن 221 کی ذیلی شق 2 سے متعلق تھا جو کہ کسٹم ایکٹ کو ختم کرنے سے متعلق آئینی طریقہ کار سے کی بابت ہے۔

اس مقدمے میں جب درخواست گزار ایف بی آر نے اعتراض اُٹھایا کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت ریگولر بینچ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتا تو جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے (آئینی بینچ) کے ذریعے سے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا ہے۔

سماعت 16 جنوری تک ملتوی ہوئی تو عدالت نے کہا کہ مقدمے کی ابتدائی سماعت کرنے والے 3 رُکنی بینچ کے سامنے مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جائے اور سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔

20 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ سخت برہم نظر آئے جب اُن کے سامنے مقدمہ سماعت کے لئے مقرر ہی نہ ہوا، اُنہوں نے فوری طور پر ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو طلب کرکےدریافت کیا کہ جو مقدمہ مقرر کرنے کا حکم دیا وہ کیوں نہیں لگا؟ جس پر ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس 27 جنوری کو آئینی بینچ میں لگے گا۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی کیسے نطر انداز کرسکتی ہے، اس سے قبل 17 جنوری کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس نے اس مقدمے کو آئینی بینچ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا تھا اور اس طرح سے یہ مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہوا۔

لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے گزشتہ روز جو حکم نامہ جاری کیا اُس کے مطابق عدالتی حکمنامہ انتظامی حکمنامے سے بڑھ کر ہے اور فُل کورٹ فیصلہ کرے آیا توہینِ عدالت ہوئی ہے کہ نہیں ہوئی۔

’ایسا نہ ہو کوئی اور فائدہ اُٹھا لے‘

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ممتاز ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اب انتہائی سنجید رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے اور ایسا نہ ہو کہ کوئی اور فائدہ اُٹھا لے۔ ’ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی تو مکمل دشمنی کی حد تک چلی گئی ہے۔‘

علی ظفر کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ جتنا جلدی ممکن ہو، کر دینا چاہیے اور اِس میں اب مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔

کیا 26 ویں آئینی ترمیم کی سماعت کے لئے فُل کورٹ بن سکتی ہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بننے کو تو بن سکتی ہے اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی فیصلہ کر دے۔

’معاملہ ساتھی ججز کے خلاف توہینِ عدالت تک پہنچ گیا ہے‘

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور معروف قانون دان حافظ احسان کھوکھر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 10 بارہ سال سے سپریم کورٹ کے اندر یہ کشمکش نظر آ رہی ہے، جب وکلا تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہوئے تو عوام کو عدلیہ سے کافی توقعات وابستہ تھیں کہ مُلک میں نظام انصاف بہتر ہو گا۔

’۔۔۔لیکن بدقسمتی سے عدلیہ اُن عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکی اور ججز ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو گئے اور اب معاملہ یہ ہے یہ میرا اختیار ہے یا اُس کا اختیار ہے یہ جنگ چل رہی ہے۔‘

حافظ احسان کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ ججز کے درمیان اس یہ کشمکش ہمیشہ رہتی تھی، پہلے من پسند بینچز بنائے جاتے تھے اور کُچھ ججز کو بینچز میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، پھر ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

’۔۔۔لیکن اب تو اس معاملے کی انتہا ہو گئی ہے کہ ساتھی ججز کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا کہا جا رہا ہے، موجودہ ججز کو 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق اپنا ذہن بنانا پڑے گا جس میں عدلیہ کی ورکنگ کا طریقہ کار درج ہے۔‘

حافظ احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں اگر کوئی آئینی معاملہ ہے تو اُس کا فیصلہ آئینی بینچ ہی کر سکتا ہے ریگولر بینچ نہیں اور ایسے معاملات اختیارِ سماعت کی حدود میں لانا ہی مناسب نہیں تھا، بینچ تشکیل دینا اب جوڈیشل کمیشن کا کام ہے یہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے ممکن نہیں۔

26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں گزاروں کے فُل کورٹ کی تشکیل کے مطالبے پر حافظ احسان کھوکھر کا موقف تھا کہ فُل کورٹ کا آئین میں کوئی تصور نہیں، 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے بھی یہ تصور نہیں تھا، یہ صرف چیف جسٹس کا اختیار تھا کہ وہ فُل کورٹ تشکیل دے سکتا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم خالصتاً سیاسی معاملہ ہے‘

بیرسٹر علی ظفر 26 ویں آئینی ترمیم کو خالصتاً سیاسی معاملہ سمجھتے ہیں جنہیں سیاسی قوتیں ہی ریورس کر سکتی ہیں۔ اُن کے خیال میں عدالتی فورم سے 26ویں آئینی ترمیم کو ختم نہیں کرایا جا سکتا، 26 ویں آئینی ترمیم سالہا سال سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔

’گزشتہ روز جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنی تقریر میں جن 6 ججز کے خط کا حوالہ دیا اُس خط نے صرف 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے کو مہمیز کیا لیکن عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان مناقشت تو عرصہ دراز سے موجود تھی۔‘

بیرسٹر علی ظفر کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کے اسی خط سے سیاسی قوتوں کو جواز مِلا اور اُنہوں نے یہ ترمیم کردی لیکن انہیں یہ ترمیم واپس ہوتی نظر نہیں آتی۔

حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ ججز کو چاہیے کہ اِن معاملات پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے انصاف کی فراہمی پر توجہ دیں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں، سپریم کورٹ میں کئی کئی ماہ لوگوں کے مقدمات کی پہلی سماعت ہی نہیں ہو پاتی اُس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

’سپریم کورٹ کو پُرانے 56 ہزار مقدمات کو ختم کرنے کے لیے نئی حکمتِ عملی بنا کر اپنے کام کرنے کے اوقات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

حافظ احسان کھوکھر کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم میں ہائی کورٹ ججز کی پرفارمینس آڈٹ کا کہا گیا ہے اُس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ انفرا اسٹرکچر بہتر کرے اور عدالتوں میں نئے جج صاحبان تعینات کیے جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی ترمیم بیرسٹر علی ظفر حافظ احسان کھوکھر سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیرسٹر علی ظفر حافظ احسان کھوکھر سپریم کورٹ کہ 26 ویں ا ئینی ترمیم ویں ا ئینی ترمیم کے جسٹس منصور علی شاہ حافظ احسان کھوکھر ایک دوسرے کے خلاف بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ میں کے خلاف توہین بینچ کے سامنے اختیارات کی کی ضرورت ہے چیف جسٹس جنوری کو سماعت کے مقدمے کی کے مطابق ف ل کورٹ کورٹ کے کرنے کی کے لیے کہا کہ ججز کو ججز کے گیا ہے تھا کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت کے خلاف اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2025 )سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت کے خلاف اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی، عدالت نے قرار دیا ہے کہ بینچ کی اکثریت انٹراکورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی جسٹس جمال مندوخیل نے 2 رکنی بینچ کے فیصلے پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیاگیا، اب میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاﺅں گا.

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت شوکاز نوٹس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی ریگولربینچ نے سماعت کی سماعت کے آغاز میں درخواست گزار نذر عباس کے وکیل نے اپیل واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت کی اجازت ہو تو اپیل واپس لینا چاہتے ہیں. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ واپس لے سکتے ہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ وکیل نے موقف اپنایا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا توہین عدالت کارروائی ختم ہونے کا آرڈر آچکا ہے؟نذر عباس کے وکیل نے کہا کہ جی آرڈر آچکا ہے اور عدالت میں جسٹس منصور کا فیصلہ پڑھ کر سنا دیا وکیل نے کہا کہ دونوں کمیٹیوں کیخلاف توہین عدالت معاملے پر فل کورٹ کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا ہے.

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ کن 2 کمیٹیوں کی بات ہو رہی ہے؟ وکیل نے بتایا کہ ایک ریگولر بینچز کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ہے، دوسری آئینی بینچز کی جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس میں تو چیف جسٹس بھی شامل ہیں، کیا ایک توہین عدالت کے ملزم کو فل کورٹ بنانے کے لیے معاملہ بھیجا گیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فل کورٹ میں توہین عدالت کے ملزمان بھی بیٹھیں گے؟.

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت نے فیصلے کے ذریعے اپنا مائنڈ ظاہر کردیا تو اسی وقت توہین عدالت کی کارروائی شروع کیوں نہ کی؟ جسٹس مندوخیل نے ساتھ جج کی رائے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہاں بلا لیتے، ہم پیش ہو جاتے، اٹارنی جنرل کو بلائیں، کہاں ہیں وہ؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مرکزی کیس آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے کل مقرر ہے.

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کاربیان کیا گیا ہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کے لیے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے،کیا ججز کے لیے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں؟ جب ف±ل کورٹ بنے گاتو کیا مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہوں گے؟ ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہو جاتے.

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا انٹرا کورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہے ہی نہیں کیا اسے دیکھ سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں؟ یہ معاملہ ہم اسی کیس کے تسلسل میں دیکھ رہے ہیں اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں.

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین کو فالو کریں گے آرڈر کو نہیں، یہاں سوال اختیارات سے تجاوز کا ہے، کیا کمیٹی نے اپنا اختیارات سے تجاوز کیا؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج وکلا آپ کے سامنے کہہ رہے تھے کہ بینچز اختیارات کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے، آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوتے ہی ملٹری ٹرائل والا کیس آئینی بینچ میں آ گیا وہ کس نے لگایا؟جسٹس حسن اطہر رضوی نے کہا کہ 13 جنوری کو پہلا آرڈر ہوا اس میں پہلا سوال ہی اسی اعتراض کا ہے.

وکیل نے موقف اپنایا کہ انٹرا کورٹ اپیل اس درخواست کیخلاف تھی وہ ختم ہو گیا جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ہوا ہماری بدقسمتی ہے اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بینچ سے الگ ہو جاﺅں گا ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہمارے سامنے جو اپیل تھی وہ غیر موثر ہو چکی، اگر بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں معذرت کروں گا.

اس موقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوگئے اور موقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل کسی اجلاس میں گئے ہیں جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا اس سارے معاملے پرموقف کیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک مسئلہ ہے کہ یہ فیصلہ ہمارے سامنے چیلنج نہیں ہے ہم تب ہی اس فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں جب چیلنج ہوا ہو جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر فیصلے پرسوموٹو لینا ہے تو اس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہے جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہین عدالت تو نہیں کر رہے؟.

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے ایک بار اس سارے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے یہ تماشا تو ختم ہو، دیکھ لیتے ہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی،دیکھ لیتے ہیں کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بینچ کے سامنے چیلنج ہوئے تھے؟. جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ کہا گیا ہے ہمارا مفادات کا معاملہ ہے اس لئے ہم نہ بیٹھیں آج یہ مفادات والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں آئینی بینچ میں شامل کر کے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ یہ کون سا مفاد ہے جس کی بات کی جا رہی ہے؟ کیا کوئی پلاٹ شلاٹ دیے ہیں؟ ہم دو دو بینچ روزانہ چلا رہے ہیں یہ مفادات ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آئینی بینچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر جو نہیں شامل وہ متاثرین میں آئیں گے، مفادات والے اور متاثرین دونوں یہ کیس پھر نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، یا پھر عالمی عدالت انصاف کو کیس بھیجنا پڑے گا.

بینچ کے سربراہ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی ایک وکیل مجھے بتا دے ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا مفاد مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بینچ میں بیٹھے ہیں؟ ہمیں بتایا جائے کیا مفادات حاصل کیے ہیں؟ آخر پتہ تو چلے مفادات کیا ہیں، ایسا نہ ہو کوئی اور میرے نام پر مفاد لے رہا ہو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ توہین عدالت کے نوٹس کا سلسلہ رکے اس لیے چاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں، آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں.

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا، بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، چھ ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ تیسری مرتبہ یہ بات کہ رہے ہیں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ بینچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا.

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل شاہد جمیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دو رکنی بینچ میں فل کورٹ کی استدعا کی تھی؟ وکیل نے کہا کہ اس بینچ میں بھی استدعا کر رہا ہوں کہ فل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہو جائے گی اب کیس کل آئینی بینچ کے سامنے مقرر ہے، آئینی بینچ کا کیس کوئی لے گا تو آئینی بینچ توہین عدالت کانوٹس جاری کردے گا، پھر کیا ہوگا؟بعدازاں سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت کیخلاف اپیل نمٹا دی.

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ آئینی بینچ نے جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے
  • اختلاف یااختیارات کی جنگ، سپریم کورٹ ججز پھر تقسیم 
  • جس انداز میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا کمیٹی اجلاس میں نہیں جائوں گا،جسٹس جمال مندوخیل
  • 26ویں ترمیم ، آئینی معاملی یہی بنچ سنے گا، اسی کوفل کورٹ سمجھیں سپریم کورٹ
  • ۔26 ویں ترمیم کیس براہ راست نشر اور فل کورٹ بنانے کیلیے نوٹس
  • پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ،ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر نظرانداز کیا، سپریم کورٹ
  • جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیاگیا کمیٹی اجلاس میں نہیں جاوں گا: جسٹس جمال مندوخیل
  • جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا: جسٹس جمال مندوخیل
  • سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت کے خلاف اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی