عدالت نے ٹرمپ کے وفاقی فنڈنگ روکنے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا جس کے تحت انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے اداروں کو ہونے والی فنڈنگ روک دی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے دن ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے امریکا بھر میں اسپتالوں، سکولوں، ہاؤسنگ پراجیکٹس، خیراتی تنظیموں، غربت مکاؤ پروگراموں اور دیگر فلاحی کاموں پر وفاقی حکومت کی طرف سے ہونے والی فنڈنگ روک دی تھی۔
اس حکمنامے کو ڈیموکریٹک پارٹی سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:بائیڈن کے تمام ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کا حلف سے قبل خطاب
ناقدین نے اسے نئے صدر کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعمال قرار دیا تھا جس سے لاکھوں امریکی شہریوں کو اس اہم فنڈنگ سے ملنے والی خدمات اور امداد متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔
اس حکم نامے کا سب سے بڑا اثر امریکا میں جاری ’میڈیک ایڈ‘ پروگرام پر پڑنے کا خدشہ تھا جس سے ملک بھر میں 70 ملین شہری مستفید ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کی فنڈنگ وفاقی حکومت اور متعلقہ ریاست مل کر کرتی ہے۔
امریکی صدر کے اس فیصلے کو امریکا میں ان تنظیموں نے عدالت میں چیلنج کیا تھا جنہیں اس فنڈنگ کے رُکنے سے آپریشنز بند ہونے کا خطرہ تھا۔ تاہم اب امریکی عدالت کی طرف سے اس فیصلے پر عمل در آمد عارضی طور پر روک دیا گیا ہے اور اس معاملے کی اگلی سماعت پیر کے دن ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Donald Trump حکم نامے ڈونلڈ ٹرمپ فنڈنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے
پڑھیں:
تہور رانا کی بھارت حوالگی روکنے کی خط وکتابت سامنے آگئی
٭ تہور رانا کو پاکستانی نژاد مسلمان ہونے کی وجہ سے بھارت کی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ٭بھارت حوالگی امریکا میں اب تک کی مکمل اور منصفانہ پیش رفت پر سوالیہ نشان ہو گی، وکیل کا خط
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور حسین رانا نے بھارت حوالگی سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ کو ایک خط لکھا تھا۔
تہور رانا کے وکیل جان ڈی کلائن نے21 جنوری 2025ء کو امریکی محکمۂ خارجہ کو خط لکھ کر اپنے مؤکل کی بھارت حوالگی روکنے کی ایک آخری کوشش کی تھی۔
وکیل نے خط میں لکھا کہ تہور رانا کی بھارت حوالگی اس کیس میں امریکا میں ہونے والی اب تک کی مکمل اور منصفانہ پیش رفت پر سوالیہ نشان ہو گی۔
وکیل نے امریکی محکمۂ خارجہ کو تہور رانا کی صحت کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے خبردار بھی کیا کہ ان کے مؤکل کو پاکستانی نژاد مسلمان ہونے کی وجہ سے بھارت کی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور ایسے میں خرابیٔ صحت کی وجہ سے ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
وکیل نے خط میں لکھا کہ تہور رانا کی صحت لاس اینجلس کے میٹرو پولیٹن ڈیٹینشن سینٹر میں تقریباً 5 سال قید رہنے کے بعد اب مسلسل بگڑتی جا رہی ہے، ان میں 2024ء میں پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد سے ان کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
وکیل نے خط میں لکھا ہے کہ بیماری کی وجہ سے تہور رانا زیادہ سردی برداشت نہیں کر سکتے، انہیں سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے، سماعت اور ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہے، مثانے میں بھی تکلیف ہے، دل اور گردے بھی صحیح سے کام نہیں کر رہے، یہاں تک کہ گردے کی پیوند کاری کی ضرورت پڑے گی۔
وکیل نے خط میں یہ بھی لکھا کہ تہور رانا کی حالت اس قدر خراب ہے کہ انہیں دل کا دورہ پڑنے، فالج، ذیا بیطس، ٹی بی اور پروسٹیٹ کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔
تہور رانا کے وکیل کے اس خط کے جواب میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے دفتر نے تہور رانا کے وکیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تہور رانا کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین بالخصوص تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن کی پیروی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے تہور رانا کا علاج جاری رکھنے میں مدد کے لیے بھارتی حکام کو ان کے میڈیکل ریکارڈز فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔
واضح رہے کہ بھارت نے شکاگو میں مقیم 64 سالہ تاجر تہور حسین رانا پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 2008ء کے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی۔
بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق تہور حسین رانا کو 18 دنوں کے لیے انسدادِ دہشت گردی ایجنسی (این آئی اے) کی تحویل میں جمعرات کی شام بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پہنچایا گیا ہے۔