Jasarat News:
2025-01-30@08:11:50 GMT

پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے


بچے پھولوں کا گیت ہیں۔ سر بفلک پہاڑوں، چاند ستاروں، خوش نما پھولوں، رنگین تتلیوں، تصویروں اور حسین چہروں کو جس سرشاری سے بچے دیکھتے ہیں یہ مناظر بھی بچوں کو اسی خوشی سے دیکھتے ہیں، ان سے زندگی کا احساس لیتے ہیں۔ بچے دنیا کے بارے میں عظیم آسمانی منصوبے کا حصہ ہیں۔ بچے ہماری میراث، ہمارا اثاثہ ہیں۔ شیطان ہمیں اکساتا ہے کہ ہم ظلم کریں، بے رحمی کریں۔ بچوں کو دنیا میں آنے سے روکیں۔ یہ وہ بدترین ظلم ہے جو شیطان ہم سے چاہتا ہے۔ زیادہ بچے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سجدہ ریزی ہے۔ اللہ کے اس فرمان پر یقین کی علامت: ’’اپنی اولاد کو فقرو فاقہ کے خیال سے قتل مت کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ روئے زمین پر چلنے والے جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔

جو خالق اتنی بڑی کائنات تخلیق کرسکتا ہے کیا اسے ہی یہ علم نہ ہوگا کہ 2025 اور اس کے بعد کے ادوار میں انسانی ضروریات کتنی ہوں گی اور انہیں کیسے پورا کرنا ہے۔ وہ جو کہتا ہے ’’میں سب سے بڑا منصوبہ بنانے والا ہوں‘‘ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی ان کوششوں پر کیسے ہنستا ہوگا۔ ہزاروں برس سے یہ دنیا آباد ہے۔ کھربوں انسان آئے اور چلے گئے، کیا وہ بھوکے مر گئے تھے جو اب مرجائیں گے۔ کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کم ہوئے ہیں جواب ہوجائیں گے۔

کم بچوں کی کوشش شیطان کو سجدہ ہے۔ آدم ؑاور نسل آدم کے خلاف جس کی جنگ شدت سے جاری ہے۔ انسان جلد باز ہے۔ خوف وہراس اس کی کمزوری ہے۔ زیادہ بچوں کی تعداد سے اسے ڈرایا جاتا ہے تو شیطان شہ دیتا ہے، تنگی اور خوف کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یوں ربّ کائنات کے خالق اور مالک ہونے کے عقیدے پر ضرب لگا کر انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔ زیادہ بچے والدین اور گھروں کی برکت ہیں۔ وہ جن کے ایک دو بچے ہیں، اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائیں، نافرمان نکل جائیں تو پھر تنہا والدین کہاں جائیںگے، کیا کریں گے۔ جن والدین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں ان کا بڑھاپا عشرت میں گزرتا ہے۔ آج اِس بچے کے گھر مہمان، کل اُس بچے کے گھر مہمان، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں گھرے ہوئے۔

یہ بچوں پر ظلم کا بدترین دور ہے۔ ہلاکو اور چنگیزخان بچوں کو سنگینوں میں پروتے تھے۔ آج کی مہذب دنیا ماں کے پیٹ ہی میں انہیں قتل کررہی ہے، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ۔ نہ جانے کون کون سے نشتر ان کے بدن میں چبھوکر، کون کون سے زہر ان کے رگ وپے میں اتار کر۔ اس پر جواز غربت، افلاس، پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو جیسے پُر فریب نعرے۔ کل کہیں گے جب سنبھال نہیں سکتے تو پالتے کیوں ہو۔

بچے کم پیداکرنے کے لیے وضع کیے گئے دلائل، میڈیا ہائو سز سے فیملی پلا ننگ کے قصیدے، اشتہار، ٹاک شوز، پروگرام اور سیمیناروں میں کی گئی تقریریں مسلمانوں کی اکثریت غلاظت کے ڈھیروں پر پھینک دیتی ہے جب اللہ کی آخری کتاب انہیں آگاہ کرتی ہے: ’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کو بھی‘‘ (ھود: ۶) اور جب اس مقام سے جو آسمان کے نیچے ایک بہت ہی ادب والا مقام ہے، جو عرش سے بھی نازک ہے، جہاں جنید اور بایزید جیسی ہستیاں اپنا سانس روکے ہوئے آتی ہیں اس مقام ادب سے یہ فرمان جاری ہوتا ہے ’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ میں کل قیامت میں تم لوگوںکی زیادہ تعداد کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروںگا‘‘۔ تو پھر کون مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کی بکواس پر عمل کرے گا۔

کہا جاتا ہے کہ نسل انسانی کے کم ہونے سے وسائل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ مہنگائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے تو پھر مغرب کے بیش تر ممالک کیوں مہنگائی سے بے حال ہیں۔ بچے کم پیدا کرنا تو ایک طرف جہاں لوگ بچے پیدا کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ وہاں تو نسل انسانی وسائل پر بوجھ نہیں ہے۔ پھر مہنگائی اور وہ بھی ایسی مہنگائی کیوں ہے کہ فرانس میں لوگ مہینوں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور آگ لگاتے رہے۔ امریکا اور یورپ میں تو بچے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں پھر وہاں مہنگائی کیوں ہے۔ مسئلہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کا نہیں ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ وہ تقسیم جس نے دولت کو اکثریت کے ہاتھوں سے چھین کر دنیا کے چند امیر ہاتھوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کو خواتین کی صحت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کی صحت اور جان کو لاحق خطرات کی صورت میں خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت ہے مگر انفرادی سطح پر۔ کیس ٹو کیس۔ با امر مجبوری۔ اسے تحریک بنا کر معاشرے پر ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ تحریک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت رزاقیت کا انکار ہے۔ ان تحریکوں کا مقصد مالی منفعت اور اربوں کھربوں روپے کی اس صنعت کا فروغ ہے جو مانع حمل ادویات اور آلات تیار کرتی ہیں۔ مانع حمل ادویات اور طریقوں نے عورتوں کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنادیا ہے۔ خطرناک امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام کاری اور فحاشی کا دروازہ کھول دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان عورتوں کو ہی ہوتا ہے۔ عورت جس طرح آج بازار کی جنس ہے شاید ہی کسی بھی زمانے میں رہی ہو۔

خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کا آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر میں یورپ میں ہوا۔ اس کا محرک برطانیہ کا مشہور ماہر معاشیات مالتھس تھا۔ اس نے حساب لگایا تھا کہ اگر نسل انسانی اسی طرح اپنی فطری رفتار سے بڑھتی رہی تو زمین انسان کے لیے تنگ پڑجائے گی۔ یہ تحریک ایک عالمی تحریک اس وقت بنی جب امریکا کے وزیر خارجہ جان مارشل نے 1947ء میں دنیا کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ وہ دراصل مسلمانوں کی بڑی آبادی سے پریشان تھا۔ اس منصوبے سے اس کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی کوشش کرنا تھا، لیکن جو اصل ہدف تھے یعنی مسلمان وہ تو اس مغربی سازش سے اس قدر متاثر نہ ہوئے۔ لیکن مغرب کو اس نظریے نے اس طرح برباد کیا کہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے خاتمے کے خوف میں مبتلا ہیں۔

دنیا کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ اگر کسی بھی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے تو اسے اگلے پچیس سال تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو اس طرح برقراررکھنا ہے کہ ہر خاندان میں اوسطاً 2.

11 شرح پیدائش برقرار رہے۔ اگر یہ شرح کم ہوکر 1.9 پر آجائے تو خطرہ اور اگر 1.3 پر آجائے تو ایسی تہذیب دنیا سے نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ چند برس پہلے تک فرانس کی موجودہ شرح پیدائش 1.8 فی صد ہے، انگلینڈ کی 1.6 یونان کی 1.3 اٹلی کی 1.2 اور اسپین کی 1.1 فی صد ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے 31 ممالک کی شرح پیدائش 1.38 فی صد ہے۔ یہ وہ شرح افزائش ہے جس کی موجودگی میں قومیں فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

غربت کے خاتمے کے لیے بچوں کا قتل عقل مندی نہیں تہذیب جدید کی درندگی ہے اس سطحی حل کے بجائے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی لکیر کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کھوج اور ان کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ انصاف پسند اور درد مند حکمرانوں کی ضرورت ہے جو دردمندی سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خاندانی منصوبہ بندی کی کی ضرورت ہے زیادہ بچے جاتا ہے کو بھی

پڑھیں:

غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!

لاس اینجلس میں لگی آگ کی راکھ ابھی صاف بھی نہ ہوپائی تھی کہ سیمابی طبیعت کے حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ کی صفائی کا خیال ستانے لگا، ان کی خواہش ہے کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن کو قائم کیا جاسکے، اس ضمن میں انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات بھی کرلی ہے جب کہ مصری صدر سے بھی رابطے کے خواہش مند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ہم اس سارے معاملے کو صاف کررہے ہیں، میں پوری غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، یہاں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے، دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ امریکا غزہ کے باشندوں کی بڑی تعداد انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے، دریں اثناء امریکی وزیرخاجہ مارکو روبیو نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا حصہ بننے پر اظہارِ مسرت کیا، مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت برقرار رکھنا ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی ترجیح ہے، ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں، خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہیں، نیتن یاہو نے اسرائیل کی دفاع کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال پر مصر کی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کو مسترد کردیا ہے، اردن کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرتا ہے اور اس عزم میں ہم ثابت قدم اور غیر متزلزل ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید اور مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کا کہنا ہے کہ ہم تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے، ہم نے 15 ماہ تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کیا ہے، ہم نے موت اور تباہی تک کو برداشت کیا، ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان اطلاعات پر غزہ کے باشندوں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے، یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے، ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے کہ ہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایا جائے، ماضی میں بھی ہمیں اپنی مقدس سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی اب پھر کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد غزہ میں اچانک جنگ بندی پر کئی حلقے اس امر کے منتظر تھے کہ ’’دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟‘‘ بادی النظر میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ فلسطین اور یوکرین سمیت ہر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے کوشش کریں گے جہاں جنگ جاری ہے مگر جو حقائق و عزائم سلسلہ وار منظر پر عام آرہے ہیں، اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے، یوں تو فلسطینیوں کو بے گھر کرکے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے تاہم غزہ جنگ کے فوری بعد بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نہ بھی کیا جاتا تب بھی غزہ پر اسرائیل کسی صورت حملے سے باز نہیں آتا، اب ایک بار پھر اس خدشے کے عملی مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اسرائیل غزہ کو اس کے ساحلی گیس کے وسائل کی وجہ سے مکمل طور پر خالی کرانے کا خواہش مند ہے، جب اس خواہش کی بیل کسی طور منڈھے نہ چڑ ھ سکی تو اس نے 8 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کو جواز بنا لیا، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جان بوجھ کر انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا گیا، پے درپے بمباری کے ذریعے اسپتالوں اور رہائشی مکانوں کو ملیا میٹ کیا گیا، رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ کو عملاً کھنڈرات میں اسی لیے تبدیل کیا گیا کہ غزہ کسی طور رہائش کے قابل نہ رہ سکے اور غزہ کے باشندے غزہ خالی کردیں اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے، بد قسمتی سے امریکی انتظامیہ اسرائیل کے ان عزائم اور منصوبوں کی ہمرکاب ہے، غزہ پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری اور اب ٹرمپ کے حالیہ عزائم اس امر کی حقیقت پر دال ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ارشادات انہی منصوبے کا حصہ ہیں، اس صورتحال کو غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، فلسطین کے ساحل سے تقریباً 36 کلومیٹر مغرب میں بحیرۂ روم میں واقع ایک قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے، یہ ذخیرہ فلسطینی علاقوں میں دریافت ہونے والا پہلا گیس فیلڈ ہے، جو غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے میدان میں ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذخیرہ 1.1 ٹریلین کیوبک فٹ گیس پر مشتمل ہے، جو بیس سال تک سالانہ 1.5 بلین مکعب میٹر گیس فراہم کر سکتا ہے۔ گیس کے یہ ذخائر سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور غزہ میں جب تک حماس موجود ہے اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تاہم اسرائیل، امریکا اور مغرب کے جو بھی عزائم ہوں، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت پر کسی طور خط ِ تنسیخ نہیں پھیرا جاسکتا اور نہ ہی زور بردستی غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جاسکتا ہے، اردن سے کہا جارہا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دے جب کہ بائیس لاکھ فلسطینی پہلے ہی وہاں پناہ گزین کمیپوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ لبنان، شام، مصر، سعودی عرب، کویت، قطر، ترکی اور دیگر ممالک میں لاکھوں فلسطینی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے ہی ہفتے جس نوع کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی پر مبنی امریکا کی تباہ کن خارجہ پالیسی جوں کی توں برقرار رہے گی اور ٹرمپ بھی صہیونی قیادت کی زلفِ گرہ گیر کے اسی طرح اسیر رہیں گے جس طرح ان کے پیش رواسرائیلیوں پر فریفتہ تھے، جو مہلک بم، بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس سے انسانی المیہ جنم لے گا، اسرائیلی محبت میں وہ مہلک بم بھی اسرائیل کو فراہم کردیے، اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں تاریخ میں انہیں امن قائم کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے مگر حالیہ بیان کسی طور بھی ان کی اس خواہش سے ہم آہنگ نہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے سے وہاں کے باشندوں کی جبری بے دخلی جنگی جرم اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے، فلسطینی باشندے کسی بھی قیمت پر ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، 15 ماہ تک غزہ کے عوام نے اپنے عزم، ہمت اور استقامت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ غزہ تو کیا اس کی ایک انچ زمین سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کی علی الرغم جارح قوت کو روکنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے عزائم جلتی پر تیل چھڑنے کے مترادف ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ تیل چھڑک کر آگ لگانے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، امریکا اور مغرب کا یہی وہ دہرا طرز عمل ہے جس کے رد عمل کو دہشت گردی پر محمول کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کپتان پر 9 مئی کی منصوبہ بندی کا صرف الزام ہے،ثبوت ایک بھی نہیں ،وکیل عمران خان
  • عمران خان پر 9مئی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے مگر ثبوت ایک بھی نہیں، وکیل
  • ’’عمران خان پر نومئی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے مگر ثبوت ایک بھی نہیں‘‘
  • فارم 47 کی حکومت تو صرف ایک کٹھ پتلی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی رضا مندی کے بغیر ناشتہ بھی نہیں کر سکتے
  • غزہ پٹی کے مستقبل کی منصوبہ بندی کا وقت آ چکا، چانسلر شولس
  • پاک فضائیہ کی ترقی:عالمی درجہ بندی میں بڑی کامیابی
  • آپ نہیں ہیں تو میری روح کو چپ لگ گئی ہے، شگفتہ اعجاز نے شوہر کی قبر پر پھول چڑھانے کی ویڈیو شیئر کر دی
  • ڈنمارک کا گرین لینڈ اور جزائر فیرو کے ساتھ شراکت پر دو ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ
  • غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ!