Jasarat News:
2025-04-16@13:19:55 GMT

ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

جب پورا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو، عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں اور مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، ایسے میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فی صد اضافہ، کیا انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کی باز گشت ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنی ر وز مرہ کی ضروریات کی عدم تکمیل پر نفسیاتی عذاب کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب حکمران طبقہ ہے جس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کا نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ خبر آئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فی صد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی سفارشات وزیر اعظم جناب شہباز شریف کو ارسال کردی ہیں، ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہ و مراعات پانچ لاکھ انیس ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے، اس حوالے سے فنانس کمیٹی نے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں، واضح رہے کہ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں، اس اضافے سے ارکانِ پارلیمنٹ کی سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی ہو جائیں گی، قبل ازیں پنجاب اسمبلی نے بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کردی ہے۔ 83 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے پارلیمانی سیکرٹری اب 4 لاکھ 65 ہزار روپے تنخواہ وصول کریں گے، جبکہ ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں کیا گیا یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر لاگو ہوتا ہے، جبکہ انہیں حاصل ہونے والے ٹی اے، ڈی اے، مفت طبی سہولت، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ بل کی منظوری کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ کو وفاقی سیکرٹری کے برابر سہولت حاصل ہوں گی، المیہ یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ دس لاکھ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر بھلا ہو اسپیکر ایاز صادق کا جنہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی یہ دلیل دی گئی کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ کم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی اور اس کی فیملی کو علاج معالجے کی مفت سہولت کے علاوہ پورے سال جاری رہنے والے اسمبلی میں اجلاس میں شرکت کے لیے ٹی اے، ڈی اے کی مد میں بھی خطیر رقم دی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں حصہ لینے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیوں کر پیچھے رہتا، اس ادارے نے بھی بلاجھجھک مطالبہ کیا ہے کہ اسے اپنے افسران کے لیے 6 ارب مالیت کی 1010 گاڑیاں دی جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا اس کے برخلاف اپنی ہی مراعات میں اضافہ کروا کے عملاً قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ جنہیں وہ اپنا مسیحا، ہمدرد و خیرخواہ سمجھتے ہیں وہ قطعاً ایسے نہیں انہیں عوامی مشکلات اور مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر 120 ارب ڈالر سے زاید کے بیرونی قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہو، جس ملک کا عام شہری تک اس قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو، جہاں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہو، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہو، 40 فی صد سے زاید افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، جس ملک کی شرح خواندگی فخر کے قابل نہ ہو، جہاں ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول نہ جا پاتے ہوں، جہاں بے روزگاری کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں 12 لاکھ 78 ہزار نوجوان بہتر روزگار کے لیے ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جاچکے ہوں، جہاں 96 فی صد شہری اور 89 فی صد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو، جہاں باپ اپنے بچوں کی خواہشات نہ پوری کرنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہا ہو، بچے فروخت کیے جارہے ہوں۔ خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہو، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہو، غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں، وہاں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومتی ارکان اور عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل و مشکلات کی قطعاً پروا نہیں، ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے! لطف کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے آرزو مند، اور ملک میں ’’انصاف‘‘ کا بول بالا کرنے کا عزم رکھنے والوں نے مراعات کے حصول کے لیے اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے وقت کوئی عار محسوس نہیں کی، نہ انہیں عوام یاد آئے نہ عوامی مسائل، اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرانے والوں نے عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کی کس گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ارکانِ اسمبلی مالی آسودگی پانے کے بعد عوامی مسائل و مشکلات کے لیے یکسو ہو جائیں گے اور ان مراعات کے بعد عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے وہ میدان ِ عمل میں کود پڑیں گے! بل منظور کرانے والوں نے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے، انہوں نے نہ عوام کی معاشی مشکلات کا خیال کیا نہ ہی اپنے اْس حلف کا پاس رکھا جس میں درج تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی و عوامی مفادات پر ترجیح دیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنا نہ حکومت کی ترجیح ہے نہ ان سیاسی جماعتوں کی جو عوام کو سبز باغ دکھاکر ایوان تک پہنچتی ہیں، آج عوام کس صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں کن معاشی مشکلات کا سامنا ہے؟ کوئی نہیں جو عوام کے لیے سوچے اور گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے لیے کچھ کرے۔ حکومت نے ایک مزدور کی جو تنخواہ مقرر کی ہے کیا وہ تنخواہ ایک مزدور اور اس کے خاندان کے لیے کفالت کا باعث ہے؟ کیا اسے ملنے والی تنخواہ میں کوئی میں اقتصادی جادوگر چار پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنا سکتا ہے؟۔ ایک جانب کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس نوع کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے عوام میں سخت مایوسی اور بددلی پھیل جاتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے نزدیک ملک کو درپیش معاشی بحران کی اہم وجہ ہی شاہانہ اخراجات اور موجود وسائل کے درمیان توازن کو نہ ہونا ہے۔ پیش آمدہ صورتحال کے تناظر میں یہ صرف جماعت ِ اسلامی ہی ہے جس سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں نے مراعات کی آلائشوں سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا اور ملکی وسائل کو ذاتی مفاد میں استعمال سے گریز کرکے پارلیمانی سیاست میں امانت و دیانت کی لازوال مثال قائم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کی اقتصادی حالت جس ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے اور جس طرح سے عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کیے جا رہے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت اس کے علاوہ نہیں ہے کہ عوام انتخابات کے موقع پر ان گندم نما جو فروشوں کے چہرے یاد رکھیں اور اپنا ووٹ ایسے افراد اور جماعت کے حق میں استعمال کریں جو خدمت اور دیانت کا شعار رکھتے ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسمبلی کی تنخواہ تنخواہوں میں عوامی مسائل کی تنخواہوں مراعات میں میں اضافہ یہ ہے کہ عوام کے ہے کہ ا کے لیے رہا ہو کی شرح

پڑھیں:

آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا ریلیف ملے گا؟ اہم خبر آگئی

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا ریلیف ملے گا، اس حوالے سے مجوزہ تفصیلات سامنے آ گئیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین کو ریلیف دینے کے لیے قابل ٹیکس آمدن کی حد 6 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے جب کہ ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے۔تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینےکے لیے  تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی۔ دوسری جانب بھاری پنشن لینے والے پنشنرز پر بھی 5 فیصد سے 20 فیصد تک ٹیکس کی تجویز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

تجارتی جنگ میں شدت، چین پر ٹیرف  245 فیصدکردیا گیا

ایف بی آر کے مطابق آئندہ بجٹ میں صرف نیچے والے سلیبز کو تبدیل کیا جائے گا۔ بجٹ میں زیادہ تنخواہ والے طبقے کے لیے فی الحال کوئی ریلیف کی تجویز نہیں ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 3تجاویز زیر غور ہیں، جن میں پہلے سلیب میں ماہانہ 50 ہزار سے زائد تنخواہ والوں کے لیے سالانہ آمدن کی شرح بڑھائے جانے کا امکان ہے اور قابل ٹیکس آمدنی کی حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے سالانہ تک کیے جانے کی تجویز ہے البتہ حتمی فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔اسی طرح انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا اور ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی۔

خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشیں ، اسلام آباد میں ژالہ باری سے گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے

بجٹ میں 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن کے سلیب میں ریلیف بھی دیے جانے کا امکان ہے۔ 8لاکھ روپے سالانہ تک پنشن آمدنی پر 5فیصد،8سے 15 لاکھ سالانہ آمدنی پر 10 فیصد ،15 سے 20 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پرساڑھے 12 فیصد،20 سے 30 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 15فیصد اور 30لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی پر 20 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔ ابھی ابتدائی تجاویز ہیں، تاہم اس بارے میں تفصیلی جائزہ اور مشاورت کے بعد تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا ریلیف ملے گا؟ اہم خبر آگئی
  • آئندہ بجٹ،تنخواہ دار طبقے کے لئے بڑی خوشخبری آگئی
  • یہود دشمنی پر معافی مانگو یا مراعات چھوڑو، ہارورڈ یونیورسٹی کو ٹرمپ کا الٹی میٹم
  • دورہ پاکستان ، کیا واقعی امریکی ارکان کانگریس کے وفد نے عمران خان سے متعلق کوئی بات کی ہے؟ حقیقت سامنے آگئی 
  • اورسیز پاکستانیوں کیلئے مراعات : خصوصی عدالتیں قائم وفاقی یونیورسٹیز میں بچوں کیلئے 5میڈیکل کالجز میں 15فیصد کوٹہ ‘ فائلز تصور کیا جائیگا نوکری کیلئے خواتین کو عمر کی رعایت میر پور ایئرپورٹ بنایا جائیگا : وزیراعظم 
  • پنجاب اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی ہنگامہ آرائی، حکومت کیخلاف نعرے بازی
  • قومی اسمبلی میں فلسطینی عوام کےساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئےمتفقہ قراردادمنظو ر
  • تنخواہیں جمود کا شکار اور مہنگائی تاریخی سطح پر‘ تنخواہ دار طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو ا ہے.سیلریڈ کلاس الائنس
  • پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی اپنے ملازمین کی تنخواہ سے ٹیکس کاٹنے کا اختیار مل گیا
  • سندھ حکومت اور اپوزیشن اپنے منشور کے مطابق مسائل حل کرنے میں ناکام، رپورٹ