WE News:
2025-01-30@07:11:18 GMT

کیا نئی نسل پچھلی نسل سے مکمل طور پر قطع تعلق کر چکی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

کچھ عرصہ سے قریبی دوستوں کی اکثریت کی زبانی نئی نسل سے شکوے کچھ زیادہ ہی سننے کو مل رہے ہیں۔ میرا خیال یہ تھا کہ ہر عہد کے تقاضے اوررجحانات الگ ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں پرانے لوگ یہی شکوہ کرتے ہیں اورنئے عہد اور نئی نسل کی خرابیاں گنواتے ہیں لیکن کچھ ایسی کہانیاں سنیں کہ میں سوچنے پرمجبور ہو گیا۔

جن والدین نے اپنا سکون تج کر اور انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کر کے بچوں کی تربیت کی اورانہیں کامیاب بنایا، وقت آنے پر انہی بچوں نے والدین کو نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ اذیت ناک دکھ پہنچائے۔ جب اس کی وجوہات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تو یہ سمجھ آیا کہ نئی صدی سے پہلے تک ترقی اور تبدیلی کا رجحان اتنا تیز نہیں تھا سو 2 نسلوں کے بیچ فاصلہ اس قدر زیادہ نہیں تھا۔ موجودہ عہد میں چیزیں واقعی بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہیں۔

21ویں صدی میں پیدا ہونے والی نسل بالکل مختلف ہے۔ جیسا کہ آغاز میں عرض کیا کہ ہر نسل کا اس سے پہلی والی نسل کے ساتھ تعلق اس طرح مضبوط تو کبھی بھی نہیں رہا کہ وقت کی اپنی رفتار ہے اور تہذہب ہر لمحہ ارتقا پذیر ہے لیکن عہد موجود جسے سوشل میڈیا کا عہد بھی کہا جاتاہے، ہر حساب سے جدا ہے اوراس دور کے بچے پچھلی نسل سے کچھ زیادہ ہی فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویسٹ انڈیز: کالی آندھی سے کالی دھند تک

انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار کو لاکھوں اور ہزاروں سال کے وقفوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن صنعتی انقلاب کے بعدیہ رفتار دہائیوں کے وقفوں سے ہوتی ہوئی اب سالوں کے وقفوں میں ڈھل چکی ہے۔ بلکہ اقدار کے بدلنے کی رفتار لمحوں تک آ چکی ہے۔ ہر لمحہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے اور جس وقت ہم یہ  پڑھ رہے ہیں خدا جانے دنیا میں کون سا واقعہ یا کون سی نئی ایجاد ہو رہی ہو یا دنیا کے کرتا دھرتا بساطِ دنیا پر کون سی نئی چال چل رہے ہوں جو اگلے چند دنوں میں دنیا کے منظر نامے کو بدل کر رکھ دے۔

ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے کہ چند برس پہلے تک مصنوعی ذہانت کے بارے میں خدشات اور اندازے ہی تھے اوراس پر ابھی سیر حاصل بحث بھی نہ ہوئی تھی کہ اس نے انتہائی سرعت سے دنیا بھرکے نظام کو اپنے قابو میں کر لیا اوراب تو یوں لگ رہا ہے کہ اس کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں۔ خیر یہ بھی ان کا مسئلہ ہے جو ہم سے زمانوں آگے ہیں۔ پچھلی صدی  تک ہمارا باقی دنیا سے فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا اس تیزرفتار ترقی نے بڑھا دیا ہے۔ ہم تو ویسے ہی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ماضی کے ساتھ رومانس ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ہم ہزاروں سال پرانے جھگڑوں کو اب بھی  ضرورت سے زیادہ وقت اوراہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی دوستیاں اور دشمنیاں بلکہ رشتے ناطے ہزاروں سال پرانے مسائل اور قضیوں کے تناطر میں طے ہوتی ہیں۔

کچھ روایات ہیں تماشوں کی

کچھ روایات کا تماشا ہے

(سجاد بلوچ)

ایسے میں کسی نئی بات، کسی نئی ایجاد، کسی نئے رجحان کو اپنانا تو دور کی بات ہے اسے تسلیم کرنا بھی ہم اپنے لیے ناممکن بنا دیتے ہیں۔ اور یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جو ہمیں ہر میدان میں مزید پیچھے دھکیل رہا ہے۔ یہ انحطاط زندگی کے ہر شعبے میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ اگلے دن کچھ احباب سے وقت کی پابندی کے حوالے سے اس تناظر میں بات ہو رہی تھی کہ میں نے اکادمی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد یہ طے کیا تھا اور سب دوستوں سے گزارش کی تھی کہ تقریب ٹھیک وقت پر شروع ہو گی لیکن کسی نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔ دوست یہی کہہ رہے تھے کہ آپ جو مرضی کر لیں، جتنا چاہے تاکید کر لیں، کوئی بھی تقریب میں وقت پر نہیں پہنچتا۔ بات ہوتے ہوتے  بڑے ادیبوں اوران کے رویوں کا ذکر چل نکلا کہ وہ دور پھر بھی اچھا تھا کہ لوگ وقت کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ اب وہ بڑے نام جیسے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ گزارش کی کہ یہ حال صرف ادب کا نہیں ہر شعبے کا ہے۔ مذہبی رہنمائوں کو دیکھ لیں، سیاست دانوں کو دیکھ لیں، گلوکاروں، اداکاروں ، فنکاروں یہاں تک کہ کھلاڑیوں کو دیکھ لیں، اب وہ بات نہیں ہے۔ نئی نسل کسی بھی فن اور فنکار کو اس طرح سنجیدہ لیتی ہی نہیں۔ ایک طرف دیکھیں تو سیاسی شعور کے نام پر طوفان مچا ہوا ہے اور یار لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل باشعور ہے لیکن غور کریں تو جن کا فنون لطیفہ کا ذوق اس قدر بودا اور کمزور اور سطحی ہے وہ دیگر چیزوں کا مشاہدہ یا تجزیہ گہرائی کے ساتھ کرنے کی صلاحیت کیسے رکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ دوغلے پن کا شکار ہیں، ایک طرف ذاتی معاملات اور رشتوں کے حوالے سے نئی نسل کی برائیاں کرتے پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف اسی نسل کو باشعور بھی کہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: جب 2 عظیم مصنفین نے 2 دن ایک ساتھ گزارے

یہ نسل وہ ہے جو زندگی کے معاملات میں اپنے والدین کا خیال رکھنے، ان کا احساس کرنے اور اپنی زندگی کی رشتوں کے معاملات طے کرنے اور انہیں نبھانے میں انتہائی عجلت پسند اور سطحی سوچ کی حامل  واقع ہوئی ہے، اور غور کریں توسیاسی و نظریاتی تصوارت اور معاملات میں بھی ان کا یہی وتیرہ ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کی نہیں اکثریت کی بات ہو رہی ہے، ظاہر ہے اس دور میں بھی ایسے نوجوانوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اپنے خانوادوں کی رہنمائی یا اپنی لگن یا کسی درسگارہ  یا کسی اچھے استاد کی رہنمائی کے باعث واقعتاً باشعور اور کتاب اور علم سے حقیقی جڑت رکھنے والے ہوتے ہیں اور دلیل سے بات کرتے اور توجہ سے سنتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد دوسرے گروہ کے مقابلے میں تناسب کے لحاظ سے  بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اگر انسان بھی موسم سرما سو کر گزار سکتے۔۔۔

نئی نسل فن کی باریکیوں کی بجائے ہلے گلے اور شور شرابے  میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ ٹک ٹاک کی دنیا ہے، ان کا فوکس چند لمحوں کا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ توجہ کا کم ہوتا دورانیہ بھی ہے جو ایک اسکرین کے اندر گم ہونے کے باعث بہت ہی مختصرہوتا جا رہا ہے۔ چند مربع انچ کی ایک اسکرین ہی ان کی پوری دنیا ہے اور اسی کھڑکی سے انہیں سب علم، سب اقدار، رشتے، ناطے، نظریات مل رہے ہیں۔ وہ اسکرین جن کے کنٹرول میں ہیں اب وہ جانیں اور یہ نئی نسل اور ا ن کی دنیا جانے۔ لیکن اس کے بارے میں سوچنے سمجھنے والے دماغ بھی مجھے کہیں سنجیدگی سے بات کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے۔ جس طرح ہم بہت چھوٹے بچوں کو ان کے رونے سے تنگ آ کر موبائل پکڑا دیتے ہیں، اسی طرح آگے چل کروہ جوں جوں بڑے ہوتے ہیں ان کی دیگردلچسپیاں بھی اپنی جان چھڑانے کے لیے قبول کرتے جاتے ہیں اور ایک دن وہ وقت آتا ہے کہ ہمارے قابو میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ یہ بے بسی پچھلی نسل کا مقدر ہو چکی ہے اور یہ آزادی نئی نسل کا خطرناک مستقبل ہے، جو خدا جانے انہیں ابھی مزید کیسے کیسے مسائل سے دوچار کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

پچھلی نسل پرانی نسل نئی نسل نئی نسل سے شکوے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پچھلی نسل دیتے ہیں ہوتے ہیں کے ساتھ رہے ہیں ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

شہر میں پانی کی فراہمی و سیوریج مسائل ذمے دار پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ہے،منعم ظفر خان

کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی اور سیوریج کا نظام بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کی براہ ِ راست ذمے داری پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر عاید ہوتی ہے ، پیپلز پارٹی 16سال سے سندھ اور کراچی پر مسلط ہے ، قابض میئر مرتضیٰ وہاب واٹر کارپوریشن کے چیئر مین ہیں لیکن وہ بھی کراچی میں پانی اور سیوریج کا مسئلہ حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں ، اقتدار پر مسلط اورعوامی مینڈیٹ پر قابض ٹولہ شہریوں کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے نہ اختیارات و وسائل دینے پر تیار ہے ، جماعت اسلامی نے مختصر وقت میں اختیارات کی کمی اور وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے 9ٹائونز میں عوام کی مثالی خدمت کی ہے ، صرف گلبرگ ٹائون میں20 اور دیگر ٹائونز میں 125پارکوں کا از سر نو بحال کر کے افتتاح کیا گیا ، ہم عوام کی خدمت جاری رکھیں گے اور کراچی کی میئر شپ اور سندھ حکومت پر قابض ٹولے کے خلاف جدو جہد اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے گلبرگ ٹائون کے تحت یوسی 7میں ابو بکر صدیق پارک و اوپن ائر جم کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے امیر ضلع گلبرگ وسطی کامران سراج ، ٹائون چیئر مین گلبرگ نصرت اللہ ، یوسی چیئر مین زبیر ولی و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ تقریب میں نائب امیر ضلع گلبرگ وسطی فاروق نعمت اللہ ، وائس یوسی چیئرمین الیاس میمن ، ڈائریکٹر پارک ندیم حنیف و دیگر ذمے داران نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پر خواتین و بچوں سمیت علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جنہوںنے جماعت اسلامی کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کوششوں کو سراہا اور نوجوانوں ، بچوں اور فیملیز کے لیے پارک کی بحالی اور صحت مند ماحول کی فراہمی پر تشکر کا اظہار کیا ۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اپنے ٹائونز میں روڈ سائیڈجنگل اور اوپن ائر جم کا نیا تصور پیش کیا اور ٹائون کے تحت آنے والے اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جس کے بعد ان اسکولوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہوا اور پارکوں و کھیل کے میدانوں سے بچوں اور نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کے مواقع پیدا ہوئے ، منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ کراچی ساڑھے 3 کروڑ آبادی کا شہر ہے ، صوبے کا دارالحکومت اور پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے ، گزشتہ سال بھی کراچی نے 2500ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے مگر افسوس کہ کراچی کے عوام کو بنیادی ضروریات اور سہولیات میسر ہیں نہ یہاں کے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کی کوئی ڈیڈ لائن مقرر ہوتی ہے ، منصوبے شروع تو کر دیے جاتے ہیں مگر مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے ، ریڈ لائن منصوبہ عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے ، اسلام آباد انڈر پاس تو 42دنوں میں مکمل ہو گیا لیکن کریم آباد انڈر پاس کو2 سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن ابھی تک 30فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا ، 1.3بلین روپے کا یہ منصوبہ 3.4بلین روپے تک پہنچ گیا ہے ، پانی کے ، کے فور منصوبے کو 19سال ہوگئے ، نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے 650ملین گیلن یومیہ کے منصوبے کو کم کر کے 260ایم جی ڈی کر دیا گیا مگر وہ بھی مکمل ہوتا نظر نہیں آتا اور پیپلز پارٹی کی بدترین حکمرانی و نا اہلی کا یہ حال ہے کہ کٹوتی شدہ کے فور منصوبہ بن بھی گیا تو اس کے ذریعے ملنے والے پانی کی فراہمی کے لیے شہر میں ترسیلی نظام کو بہتر نہیں کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے شہریوں کو پانی ، سیوریج ، ٹرانسپورٹ اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری سمیت کسی شعبے میں عملاً کوئی ریلیف نہیں دیا ۔ کامران سراج نے کہا کہ کراچی اور سندھ پر برسراقتدار ٹولہ جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی ذہنیت کا حامل ہے ، پیپلز پارٹی نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اس کا جمہوریت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ، اس نے اقتدار ، اختیارات اور وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق نہیں دیا جاتا ، کراچی میں عوامی مسائل کے حل اور خدمت کا کام جب بھی ہوا ہے ، جماعت اسلامی کے دور میں ہوا ہے ، عبد الستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں کراچی میں جو تعمیراتی اور ترقیاتی پروجیکٹ مکمل ہوئے وہ کسی اور دور میں نہیں ہوئے ، پانی کاK-2منصوبہ عبد لستار افغانی نے مکمل کیا اور نعمت اللہ خان نے K-3مکمل کر کے K-4شروع کیا ،K-4منصوبہ اگر اپنی اصل گنجائش اور وقت پر مکمل ہوجاتا تو آج کراچی کے عوام کو پانی کی موجودہ قلت اور سنگین بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ نصرت اللہ نے کہا کہ ’’پھول جیسے لوگ ، پھول جیسا ٹائون ‘‘ ہمارا سلوگن ہے اور ہم نے اس سلوگن کے مطابق ٹائون کو اور ٹائون میں موجود پارکوں کو پھولوں اور درختوں سے خوشنما اور دیدہ زیب بنایا ہے ان کو دیکھ کر اور ان میں گھوم پھر کر علاقہ مکینوں کے چہروں پر خوشیاں اور مسکراہٹیں پھیل جاتی ہیں ، ہمارا عزم اور کوشش ہے کہ ہم گلبرگ ٹائون کو پورے شہر میں ایک مثالی اور ماڈل ٹائون بنائیں گے اور حافظ نعیم الرحمن کے وژن اور وعدے کے مطابق جتنے بھی وسائل اور اختیارات موجود ہیں اس سے بڑھ کر عوام کی خدمت کریں گے ۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان گلبرگ ٹاؤن یوسی7میں پارک اورجم کا افتتاح کررہے ہیں‘امیرضلع گلبرگ وسطی کامران سراج اور ٹاؤن چیئرمین نصراللہ بھی موجود ہیں

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے عین جالوت سے لد تک
  • تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی
  • دنیا تباہی کے قریب! قیامت کی گھڑی میں ایک سیکنڈ مزید کم
  • ڈومز ڈے کلاک : دنیا مکمل تباہی سے صرف 89 سیکنڈ دُور!
  • جب وقت پر اسٹیڈیم تیار نہ کرنے پر بھارت پوری دنیا کے سامنے شرمندہ ہوا
  • افسوس میرے سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی
  • پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے
  • پی ٹی وی میں ڈگریوں کی تصدیق 31 جنوری تک مکمل کر لیں گے‘ عطاتارڑ
  • شہر میں پانی کی فراہمی و سیوریج مسائل ذمے دار پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ہے،منعم ظفر خان