WE News:
2025-04-13@15:28:31 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

صوبہ خیبرپختونخوا ایک بار پھر سیاسی، ریاستی اور علاقائی سرگرمیوں اور پراکسیز کا “میدان”  بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی روایتی میڈیا کی شہ سرخیوں سے زیادہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

ایک طرف خیبرپختونخوا سمیت پوری پشتون اور بلوچ بیلٹ میں سیکورٹی فورسز اور ریاست مخالف گروپوں کی سرگرمیوں میں اصافہ ہوا ہے، تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی خیبرپختونخوا حکومت کی شکل میں موجود اپنے سیاسی “مورچے” میں جاری تجربات کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی طرح خطے میں رونما ہونے والی بعض متوقع علاقائی تبدیلیوں اور پراکسیز کے ڈانڈے بھی اسی بیلٹ ہی سے ملائے جا رہے ہیں۔

اس تمام صورت حال نے صوبے کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے، اور ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہاں ایک بار پھر مختلف عالمی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسیز کا “جنگی تھیٹر” سجنے یا سجانے والا ہے۔

جہاں تک صوبے کی سیکورٹی صورت حال کا تعلق ہے، جاری کارروائیوں میں گزشتہ 2 برسوں کی طرح جنوری 2025 کے پہلے مہینے یعنی جنوری میں بھی ریکارڈ تعداد میں کارروائیاں کی گئیں، اور امن و امان کی بحالی کا کام ہی سب سے بڑا چیلنج بنا رہا۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف جنوری کے آخری ہفتے کے دوران سیکورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع میں آپریشن کیے، جس کے نتیجے میں کالعدم گروپوں کے 3 اہم کمانڈروں سمیت تقریباً 38 حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک درجن کے لگ بھگ کو زخمی یا گرفتار کرلیا گیا۔

ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان کے 3 مختلف پشتون علاقوں میں کی گئیں، جہاں افغانستان سے دراندازی کرنے والے 2 گروپوں سمیت 2 مزید کارروائیوں کے نتیجے میں جنوری کے مہینے میں تقریباً 40 حملہ آوروں (دہشت گردوں) کو ہلاک کردیا گیا۔

دوسری جانب کالعدم گروپس ٹی ٹی پی، لشکر اسلام، جماعت الاحرار اور حافظ گل بہادر گروپ نے نہ صرف یہ کہ اس مہینے فورسز خصوصاً خیبرپختونخوا پولیس اور سرکاری ملازمین کو ریکارڈ تعداد میں نشانہ بنایا اور مختلف علاقوں میں باقاعدہ ناکہ بندیاں کرتے ہوئے لوگوں، گاڑیوں کی تلاشیاں لیں، بلکہ متعدد اہم لوگوں کو اغواء بھی کیا۔

اس دوطرفہ کارروائیوں سے ہٹ کر فریقین نے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کمپینز پر بھی کافی توجہ مرکوز رکھی اور کوشش کی گئی کہ بعض واقعات کو اصل حقائق سے ہٹ کر پیش کیا جائے۔

دیگر ریاست مخالف گروپوں نے اس “کمپین” میں حسب معمول فورسز کی مخالفت کی پالیسی اختیار کی اور ان میں صوبے کی برس اقتدار جماعت پی ٹی آئی بھی شامل رہی۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کے امن کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس قوت (افغان حکومت) کے ساتھ جنگ لڑرہی ہیں، جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ قیدی نمبر 804 اور نام نہاد مذاکراتی عمل کی گہما گہمی میں پاکستان کے سیاسی قائدین اور میڈیا نے مذکورہ بیان یا بیانیہ کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی، حالانکہ اس پر ایک سنجیدہ بحث کی اشد ضرورت تھی کیونکہ عالمی اور علاقائی میڈیا یہ اطلاعات فراہم کرتا رہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور ان کی پشت پر کھڑی افغان عبوری حکومت ریاست کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

بھارتی میڈیا نے تو اس پس منظر میں باقاعدہ ایک میڈیا کمپین ڈیزائن کرکے خصوصی رپورٹس اور تجزیے پیش کیے۔ پاکستان کے میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات اور اعلانات پر بھی توجہ نہیں دی جن میں خطے خصوصاً افغانستان سے متعلق خطرناک اور غیر مروجہ اقدامات کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اس ضمن میں 2 اعلانات کی مثال دی جاسکتی ہے، ایک میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان میں انخلا کے وقت رہ جانے والے اسلحہ کو واپس لائے گا اور یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو دی جانے والی امداد بند کی جارہی ہے۔

دوسرا نئے سیکرٹری خارجہ کا وہ بیان جس میں کہا گیا کہ اگر افغان طالبان اور ان کی حکومت نے وہاں قید امریکیوں کو رہا نہیں کیا تو امریکہ ان کے لیڈروں کے سروں کی قیمت لگا دے گا اور یہ کہ یہ قیمت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی قیمت سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ دھمکی نئے امریکی سیکریٹری خارجہ نے 26 جنوری کو دے دی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے خلاف توقع جنگ زدہ صوبے کے اپنے” مورچے” کو مزید طاقتور بنانے کے لیے جنوری کے آخری ایام میں متعدد نئی تبدیلیاں کیں جو کہ اس جانب اس جانب اشارہ سمجھا گیا کہ 8 فروری کو اعلان کردہ احتجاج کا مرکز ایک بار پھر جنگ زدہ خیبرپختونخوا ہی رہے گا۔

عمران خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے پارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ واپس لیتے ہوئے یہ عہدہ نسبتاً غیر فعال لیڈر جنید اکبر خان کو دے دیا اور عین اسی دوران موصوف کو غیر متوقع طور پر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے بھی نوازا گیا۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے ان دونوں اقدامات پر حیرت کا اظہار کیا، کیونکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کے دیگر لیڈروں کے ساتھ لاکھ کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔

ان میں گروپ لیڈر عاطف خان بھی شامل تھے، جن کے بارے میں مذکورہ “تبدیلیوں” کے بعد یہاں تک کہا جانے لگا کہ وہ اگلے مرحلے کے دوران علی امین گنڈاپور کی جگہ وزیر اعلیٰ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

تجزیہ کار اس تمام ڈرامہ نما تبدیلی کو علی امین گنڈاپور اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر کے خلاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مشاورت اور “مہم جوئی” کا نتیجہ قرار دیتے رہے جو کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پا چکی ہیں اور عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس سزا میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا ہاتھ ہے۔

حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی عمران خان کے وہ 2 “کھلاڑی” تھے، جن کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سزاؤں سے قبل وہ اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور ڈپلومیسی یا ڈیلنگ چلاتے آرہے تھے۔

اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کو سیکورٹی چیلنجز اور بیڈ گورننس کے چیلنجر کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پاکستان کے اس حساس ترین صوبے کو پی ٹی آئی نے اپنے ریاست مخالف مورچے کا سٹیٹس بھی دے رکھا ہے۔

اس کے منفی اثرات مستقبل قریب میں صوبے کے سیکورٹی حالات اور معاشی، سماجی تبدیلیوں پر کس انداز میں اثر انداز ہوں گے اس کا انحصار ریاستی صف بندی پر ہے۔

تاہم ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مختلف اندرونی اور بیرونی قوتوں کے لیے خیبرپختونخوا اب بھی ایک بہترین “تجربہ گاہ” کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کوئی بھی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور وزیر اعلی پی ٹی آئی صوبے کے اور ان کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاق اندر سے ملے ہوئے ہیں، میاں افتخار کا دعویٰ

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبر پختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور وفاق اندر سے ملے ہوئے ہیں۔

پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران میاں افتخار حسین نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025ء کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، اس بل کا مسودہ امریکی کنسلٹنٹ نے بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرل بل 2017ء پہلے سے موجود ہے، اعتراضات کے باجود بل کا ڈرافٹ کابینہ سے منظور کیا گیا۔

اے این پی کے صوبائی صدر نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ کے وقت سے 18ویں ترمیم رول بیک کرنے کی کوشش جاری ہے، جس کے مطابق قدرتی وسائل پر صوبے کا اختیار ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے اس لیے لڑے کہ وہ ہمارے وسائل لےکر جارہے تھے، کسی طور اجازت نہیں دیں گے کہ 18ویں ترمیم کو رول بیک کریں۔

میاں افتخار حسین نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہر روز وفاقی حکومت سے لڑائی کی باتیں کررہی ہے لیکن یہ اندر سے ملے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء سےاب تک لیز کی مد میں صوبے کو کیا ملا، تفصیلات شیئر کی جائیں، لارج اسکیل لیز کےلیے 50 کروڑ روپے سیکیورٹی شرط کہاں کا انصاف ہے۔

اے این پی رہنما نے یہ بھی کہا کہ مجوزہ مائنز اینڈ منرل بل کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے مشروط کیا جارہا ہے، بل پی ٹی آئی بارگینگ کےلیے استعمال کررہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آپ پختونوں کے وسائل پر بارگیننگ نہیں کرسکتے ہیں، بل پاس کروایا گیا تو عدالت میں چیلنج کریں گے اور احتجاج بھی ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی حکومت نے عمرہ زائرین اور ائیر لائنز کیلئے نیا ہدایت نامہ جاری کر دیا
  • ن لیگ کی پرویز خٹک کو پارٹی کا صوبائی صدر بنانے کی تردید
  • جے یو آئی پنجاب کا پی ٹی آئی سے اتحاد سے متعلق اہم فیصلہ
  • آٹھ فروری کو حقیقی نمائندوں کے بجائے جعلی قیادت مسلط کی گئی، تحریک تحفظ آئین
  • ججز تقرری کیس، گلگت بلتستان حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی
  • پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاق اندر سے ملے ہوئے ہیں، میاں افتخار کا دعوی
  • پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاق اندر سے ملے ہوئے ہیں، میاں افتخار کا دعویٰ
  • خیبرپختونخوا صحت کارڈ سے اب منشیات کے عادی افراد بھی مستفید ہوسکیں گے
  • بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا
  • خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس، اہم فیصلوں کی منظوری