WE News:
2025-01-30@07:18:58 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

صوبہ خیبرپختونخوا ایک بار پھر سیاسی، ریاستی اور علاقائی سرگرمیوں اور پراکسیز کا “میدان”  بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی روایتی میڈیا کی شہ سرخیوں سے زیادہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

ایک طرف خیبرپختونخوا سمیت پوری پشتون اور بلوچ بیلٹ میں سیکورٹی فورسز اور ریاست مخالف گروپوں کی سرگرمیوں میں اصافہ ہوا ہے، تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی خیبرپختونخوا حکومت کی شکل میں موجود اپنے سیاسی “مورچے” میں جاری تجربات کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی طرح خطے میں رونما ہونے والی بعض متوقع علاقائی تبدیلیوں اور پراکسیز کے ڈانڈے بھی اسی بیلٹ ہی سے ملائے جا رہے ہیں۔

اس تمام صورت حال نے صوبے کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے، اور ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہاں ایک بار پھر مختلف عالمی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسیز کا “جنگی تھیٹر” سجنے یا سجانے والا ہے۔

جہاں تک صوبے کی سیکورٹی صورت حال کا تعلق ہے، جاری کارروائیوں میں گزشتہ 2 برسوں کی طرح جنوری 2025 کے پہلے مہینے یعنی جنوری میں بھی ریکارڈ تعداد میں کارروائیاں کی گئیں، اور امن و امان کی بحالی کا کام ہی سب سے بڑا چیلنج بنا رہا۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف جنوری کے آخری ہفتے کے دوران سیکورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع میں آپریشن کیے، جس کے نتیجے میں کالعدم گروپوں کے 3 اہم کمانڈروں سمیت تقریباً 38 حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک درجن کے لگ بھگ کو زخمی یا گرفتار کرلیا گیا۔

ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان کے 3 مختلف پشتون علاقوں میں کی گئیں، جہاں افغانستان سے دراندازی کرنے والے 2 گروپوں سمیت 2 مزید کارروائیوں کے نتیجے میں جنوری کے مہینے میں تقریباً 40 حملہ آوروں (دہشت گردوں) کو ہلاک کردیا گیا۔

دوسری جانب کالعدم گروپس ٹی ٹی پی، لشکر اسلام، جماعت الاحرار اور حافظ گل بہادر گروپ نے نہ صرف یہ کہ اس مہینے فورسز خصوصاً خیبرپختونخوا پولیس اور سرکاری ملازمین کو ریکارڈ تعداد میں نشانہ بنایا اور مختلف علاقوں میں باقاعدہ ناکہ بندیاں کرتے ہوئے لوگوں، گاڑیوں کی تلاشیاں لیں، بلکہ متعدد اہم لوگوں کو اغواء بھی کیا۔

اس دوطرفہ کارروائیوں سے ہٹ کر فریقین نے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کمپینز پر بھی کافی توجہ مرکوز رکھی اور کوشش کی گئی کہ بعض واقعات کو اصل حقائق سے ہٹ کر پیش کیا جائے۔

دیگر ریاست مخالف گروپوں نے اس “کمپین” میں حسب معمول فورسز کی مخالفت کی پالیسی اختیار کی اور ان میں صوبے کی برس اقتدار جماعت پی ٹی آئی بھی شامل رہی۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کے امن کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس قوت (افغان حکومت) کے ساتھ جنگ لڑرہی ہیں، جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ قیدی نمبر 804 اور نام نہاد مذاکراتی عمل کی گہما گہمی میں پاکستان کے سیاسی قائدین اور میڈیا نے مذکورہ بیان یا بیانیہ کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی، حالانکہ اس پر ایک سنجیدہ بحث کی اشد ضرورت تھی کیونکہ عالمی اور علاقائی میڈیا یہ اطلاعات فراہم کرتا رہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور ان کی پشت پر کھڑی افغان عبوری حکومت ریاست کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

بھارتی میڈیا نے تو اس پس منظر میں باقاعدہ ایک میڈیا کمپین ڈیزائن کرکے خصوصی رپورٹس اور تجزیے پیش کیے۔ پاکستان کے میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات اور اعلانات پر بھی توجہ نہیں دی جن میں خطے خصوصاً افغانستان سے متعلق خطرناک اور غیر مروجہ اقدامات کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اس ضمن میں 2 اعلانات کی مثال دی جاسکتی ہے، ایک میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان میں انخلا کے وقت رہ جانے والے اسلحہ کو واپس لائے گا اور یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو دی جانے والی امداد بند کی جارہی ہے۔

دوسرا نئے سیکرٹری خارجہ کا وہ بیان جس میں کہا گیا کہ اگر افغان طالبان اور ان کی حکومت نے وہاں قید امریکیوں کو رہا نہیں کیا تو امریکہ ان کے لیڈروں کے سروں کی قیمت لگا دے گا اور یہ کہ یہ قیمت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی قیمت سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ دھمکی نئے امریکی سیکریٹری خارجہ نے 26 جنوری کو دے دی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے خلاف توقع جنگ زدہ صوبے کے اپنے” مورچے” کو مزید طاقتور بنانے کے لیے جنوری کے آخری ایام میں متعدد نئی تبدیلیاں کیں جو کہ اس جانب اس جانب اشارہ سمجھا گیا کہ 8 فروری کو اعلان کردہ احتجاج کا مرکز ایک بار پھر جنگ زدہ خیبرپختونخوا ہی رہے گا۔

عمران خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے پارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ واپس لیتے ہوئے یہ عہدہ نسبتاً غیر فعال لیڈر جنید اکبر خان کو دے دیا اور عین اسی دوران موصوف کو غیر متوقع طور پر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے بھی نوازا گیا۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے ان دونوں اقدامات پر حیرت کا اظہار کیا، کیونکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کے دیگر لیڈروں کے ساتھ لاکھ کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔

ان میں گروپ لیڈر عاطف خان بھی شامل تھے، جن کے بارے میں مذکورہ “تبدیلیوں” کے بعد یہاں تک کہا جانے لگا کہ وہ اگلے مرحلے کے دوران علی امین گنڈاپور کی جگہ وزیر اعلیٰ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

تجزیہ کار اس تمام ڈرامہ نما تبدیلی کو علی امین گنڈاپور اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر کے خلاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مشاورت اور “مہم جوئی” کا نتیجہ قرار دیتے رہے جو کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پا چکی ہیں اور عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس سزا میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا ہاتھ ہے۔

حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی عمران خان کے وہ 2 “کھلاڑی” تھے، جن کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سزاؤں سے قبل وہ اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور ڈپلومیسی یا ڈیلنگ چلاتے آرہے تھے۔

اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کو سیکورٹی چیلنجز اور بیڈ گورننس کے چیلنجر کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پاکستان کے اس حساس ترین صوبے کو پی ٹی آئی نے اپنے ریاست مخالف مورچے کا سٹیٹس بھی دے رکھا ہے۔

اس کے منفی اثرات مستقبل قریب میں صوبے کے سیکورٹی حالات اور معاشی، سماجی تبدیلیوں پر کس انداز میں اثر انداز ہوں گے اس کا انحصار ریاستی صف بندی پر ہے۔

تاہم ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مختلف اندرونی اور بیرونی قوتوں کے لیے خیبرپختونخوا اب بھی ایک بہترین “تجربہ گاہ” کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کوئی بھی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور وزیر اعلی پی ٹی آئی صوبے کے اور ان کے لیے

پڑھیں:

شام: نئی قیادت کی جانب سے آئین منسوخ، احمد الشرع عبوری صدر مقرر

شام: نئی قیادت کی جانب سے آئین منسوخ، احمد الشرع عبوری صدر مقرر WhatsAppFacebookTwitter 0 30 January, 2025 سب نیوز

شام کے ڈی فیکٹو رہنما احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی آئندہ سے شام کے عبوری صدر ہوں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق احمد الشرع نے جہادی دھڑوں کے اجلاس میں آئین تحلیل کرکے صدر ہونے کا اعلان کیا۔ احمد الشرع اب شام کی صدارت کے فرائض سنبھالیں گے۔
رپورٹ کے مطابق احمد الشرع بطور صدر عالمی فورمز پر شام کی نمائندگی کریں گے۔ اس حوالے سے اجلاس سے خطاب میں احمد الشرع نے کہا شام میں پہلی ترجیح حکومت میں موجود خلا کو جائز اور قانونی طریقے سے پر کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ کرنا ہے اور شام کے شہریوں کو پُرامن ماحول فراہم کرنا ہے۔
احمد الشرع کا مزید کہنا تھا کہ شام کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔ اقتصادی انفراسٹرکچر کو ترقی دی جائے گی۔ ایک جامع حکومت کے لیے انتخابات ہوں گے جس کے انعقاد میں چار سال لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے گزشتہ برس 2024 میں محمد الجولانی کی سربراہی میں ہیئت تحریر الشام نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • شام: نئی قیادت کی جانب سے آئین منسوخ، احمد الشرع عبوری صدر مقرر
  • شام، نئی قیادت نے آئین منسوخ کر دیا، احمد الشرع عبوری صدر مقرر
  • گلبر خان کی قیادت میں گلگت بلتستان میں علاقائی جماعت کی تشکیل کیلئے کوششیں شروع
  • پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے عہدیداران کا اہم اجلاس آج طلب
  • علی امین کا بطور صوبائی صدر استعفیٰ منظور وزیراعلیٰ تبدیل نہیں ہو رہے: عمر ایوب وزیراعلیٰ کے کہنے پر نیا صدر مقرر کیا: بیرسٹر گوہر 
  • پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا تنظیمی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں لانے کی تیاری
  • علی امین گنڈاپور،عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کی صوبائی صدارت سے مستعفی
  • خیبرپختونخوا: تعلیم کے میدان میں پی ٹی آئی کی کارکردگی، طلبہ و اساتذہ کیا کہتے ہیں؟
  • خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر سمیت پی ٹی آئی کے 9 اراکین کی رکنیت تاحال معطل