فلسطین کی فتح حقیقی معنوں میں مقاومت کا نتیجہ ہے، جنرل امیر علی حاجی زادہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں ایرانی ایرو سپیس یونٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آج ساری دنیا یہی کہہ رہی ہے کہ فلسطین جیت گیا اور اس کے دشمن اپنا کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہ کر سکے جبکہ اس کے مقابلے میں غزہ و فلسطین اپنے تمام مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز کے چیف آف ایرو سپیس یونٹ جنرل "امیر علی حاجی زادہ" نے کہا کہ استقامت و ثابت قدمی فلسطینی عوام کی فتح کا سبب بنی۔ اس بار استقامتی محاذ متحد ہو کر فلسطین کی عوام کی حمایت میں سامنے آیا۔ قبل ازیں دشمن سے الگ الگ محاذوں پر ٹکراو ہوتا تھا لیکن اس بار جنگ فلسطینی علاقے میں شروع ہوئی اور یمن، عراق، شام، ایران و حزب الله نے اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے صیہونی دشمن سے پنجہ آزمائی کی۔ جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ان خیالات کا اظہار مختلف سفیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات کے بعد کیا۔ انہوں نے صیہونیوں کے سامنے فلسطینیوں کی ثابت قدمی و مقاومت کا ذکر کیا۔
جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا کہ فلسطینی عوام کی فتح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اگر صحیح معنوں میں استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا جائے تو کامیابی ملتی ہے۔ آج ساری دنیا یہی کہہ رہی ہے کہ فلسطین جیت گیا اور اس کے دشمن اپنا کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہ کر سکے جب کہ اس کے مقابلے میں غزہ و فلسطین اپنے تمام مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے جو کہ ایک بڑی کامیابی شمار ہوتی ہے۔ ایرانی ایرو سپیس یونٹ کے کمانڈر نے کہا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن حقائق کو مسخ کرنے یا الٹا دکھانے کی کوشش کرے گا۔ ہمارے داخلی و بیرونی دوست بھی دھوکہ کھا گئے کہ شاید ایران کمزور ہو گیا ہے لیکن ان دِنوں حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امیر علی حاجی زادہ
پڑھیں:
فلسطین فلسطینیوں کا ہے
اہل ِ غزہ کی ثابت قدمی اور کامیابی کے لیے دُنیا شک و شبہ میں پڑی تھی۔ غزہ کے کھنڈر سے اُنہیں کوئی اُمید نہیں تھی۔ اسرائیل کی طاقت امریکا کی پشت پناہی اور دُنیا کی خاموشی یہ سب مل کر دُنیا اسرائیل کے منصوبوں کی کامیابی اور اُن پر عملدرآمد کا یقین کرچکی تھی۔ ان کے خیال میں ایٹم بم کے برابر گرائے گئے بارود تلے غزہ پر اہل غزہ کا حق دفن کردیا گیا تھا۔ خیال تھا کہ اب تو ایک اعلان باقی ہے بس پھر اسرائیلی بستیاں غزہ کی پٹی پر آباد کی جانے لگیں گی اور ایک نقشہ جو لہرایا گیا تھا اس کی صورت گری کی جائے گی۔ انہیں خبر ہو کہ چار سو پینسٹھ دن کی نسل کشی کے بعد قابض اسرائیلیوں کو اس حماس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا جس کو فنا کرنے کا ارادہ لے کر وہ اہل غزہ پر چڑھ دوڑے تھے۔ وہی معاہدہ اور معاہدے کی وہی شقیں جن کو سال قبل مسترد کیا گیا تھا۔ مان لیا گیا۔ یہ معاہدہ حماس کی کامیابی کا ثبوت ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد کرنے اور نظر رکھنے والی تکنیکی کمیٹیاں اور فالو اپ ٹیمیں حماس کے پاس موجود ہیں جو معاہدے میں تحریر نکات کے مسائل سے نمٹتی رہیں گی۔ انہیں خبر ہو کہ غزہ میں سیکورٹی اور امن برقرار رکھنے کے لیے فلسطینی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جارہا ہے۔ سڑکوں کو کھولنا اور ان کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ حماس کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک بڑی اور حقیقی کامیابی ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ جنگ بندی ہونے کے بعد القسام کے مجاہدین غزہ میں پھر تعینات ہوگئے ہیں اور یہ قدم نیتن یاہو کے لیے ایک کھلا پیغام ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے اور غرب اردن میں نئی جارحیت کا آغاز کیا ہے۔ بقول نیتن یاہو مغربی کنارے کے شہر جنین میں کارروائی کا مقصد علاقے میں دہشت گردی یعنی حماس کا خاتمہ ہے۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ حالانکہ غزہ میں تمام تر تباہی کے باوجود وہ حماس کو ختم نہیں کرسکا۔
پندرہ ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے جنگجو پھر سڑکوں پر موجود ہیں۔ انہوں نے اپنا وجود برقرار رکھا ہے، غزہ میں ان کا کنٹرول قائم ہے، اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کی بھرپور امداد اور معاونت کے باوجود حماس کو ختم نہیں کرسکا، یہ اسرائیل کا پہلا ہدف تھا۔ لیکن اب جنگ کا اختتام ہوا، بقول اسرائیلی انٹیلی جنس کے افسر مائیکل ملنٹن کے حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں دہشت گردی سے لڑنا اب اسرائیلی فوج کی اولین ترجیح ہے۔ یعنی اسرائیل نے جنگ کے لیے ایک دوسرا میدان منتخب کیا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے سے اسرائیلی افواج کے حملوں کا نشانہ ہے۔ جنین کے گورنر ابوالبرب کے مطابق اسرائیلی فوج نے لاوڈ اسپیکروں کے ذریعے کیمپ خالی کرنے کے لیے دھمکیاں دی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں ٹھیک تین دن کے بعد جنین میں بقول ان کے ایک وسیع اور اہم آپریشن شروع کردیا ہے۔ غزہ کی طرح جنین کو دہشت گردی کا اڈا قرار دے کر اسرائیلی فوج وہاں فلسطینیوں پر حملے کررہی ہے۔ ان حملوں میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اسرائیلی قابض آباد کار بھی شامل ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی جنین کیمپ پر کئی ہفتے کریک ڈائون کیا، یہ فلسطینیوں کا فلسطینیوں کے خلاف اقدام تھا۔ لیکن اسی ہفتے جنین بٹالین نے اعلان کیا کہ اس کو ختم کرنے کے لیے اور فلسطینی قومی اتحاد کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مجرمانہ قبضے کی مزاحمت کے جائز حق کو برقرار رکھا یعنی اسرائیلی تشدد اور کارروائیوں کے مقابلے میں فلسطینی حق ِ مزاحمت کو برقرار رکھا گیا ہے، یہ بھی ایک طرح سے حماس کی کامیابی ہے۔ اب اسرائیلی فوج بلڈوزروں اور جنگی مشینوں کے ذریعے جنین کیمپ پر حملہ آور ہے، ان کے اسنائپرز عمارتوں کے اوپر موجود ہیں جو ہر حرکت کرنے والی چیز پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کہہ رہے ہیں کہ ان کی فوج مغربی کنارے میں غزہ میں سیکھے گئے اسباق کو دہرائے گی۔
جنین مغربی کنارے پر آباد ہے اسرائیل مغربی کنارے پر اپنی بستیاں بسانے اور اپنے علاقے کو وسیع کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ جنین کیمپ جنین شہر کے اندر آدھے کلو میٹر سے بھی کم علاقے پر موجود ہے جہاں اس مختصر جگہ پر چودہ ہزار فلسطینی رہتے ہیں۔ اس ہفتے اسرائیلی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے کئی قصبوں پر حملے کیے، عمارتوں اور گاڑیوں میں آگ لگائی، چالیس فلسطینی زخمی ہوئے اور دس سے زیادہ شہید ہوئے۔ مغربی کنارے کے علاقوں پر فلسطینیوں کے گھر، دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے اور فلسطینیوں کو زخمی اور شہید کرنے کو حماس نے اسرائیل کا دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے اور فلسطینیوں کو ان حملوں کا جواب دینے کے لیے تمام شکلوں کی مزاحمت پر زور دیا ہے۔ کیونکہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ اسرائیلی فوج کو غزہ سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔