عدلیہ کی آزادی کیلئے چند نہیں سب فکر مند، جو کام کریں ڈھنگ سے کریں: جسٹس جمال
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز واپس لے لئے۔ آئینی بینچ نے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹمز ڈیوٹی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کا توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز پر نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹمز ڈیوٹی کا کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے۔ کیا اس آرڈر کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر صرف چند لوگوں کو نہیں سب کو ہے۔ جو کام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں۔ کون سی قیامت آ گئی تھی، یہ بھی عدالت ہی ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ اور عدالتوں نے رہنا ہے۔ ہمیں ہی اپنے ادارے کا خیال رکھنا ہے۔ کوئی پریشان نہ ہو، اس ادارے کو کچھ نہیں ہونا۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا ایک حکمنامہ بندیال کے دور میں 7فروری 2021ء کا بھی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عجیب بات ہے 16 جنوری کے حکمنامے میں کہا گیا کیس کو سنا گیا سمجھا جائے۔ یا کیس سنا گیا ہوتا ہے یا نہیں سنا گیا ہوتا ہے۔ یہ سنا گیا سمجھا جائے کی اصطلاح کہاں سے آئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس 13 جنوری کے 2 حکمنامے موجود ہیں۔ ایک حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 27 جنوری ہے۔ دوسرے حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 16 جنوری ہے۔ حکمنامے میں کیس کی تاریخ تبدیل کی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کو رول 27 اے کا نوٹس دیئے بغیر کہا گیا کیس سنا ہوا سمجھا جائے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا ہم نے ریگولر بینچ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا؟ لیکن ہم نے تو صرف کیس سنا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل کے فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، فیصلے میں تو ججز کے نام تک لکھ دیے۔ غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈر ہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم 13جنوری اور 16جنوری کے 2رکنی بینچ کے حکمناموں کو آرٹیکل 191 کی شق 5کے تحت چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمیں ججز کمیٹیوں کے فیصلوں پر بھی اعتماد ہے، اور جوڈیشل آرڈر پر بھی اعتماد ہے۔ نظرثانی بینچ میں ججز کمیٹیوں اور 2 رکنی بینچ کے ججز کو نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ تو جب نظرثانی آئے گی تب کی بات ہوگی۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کوئی کہے مجھے دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میرے ساتھ بڑا ظلم ہوگیا۔ جب اپنی باری آئے تو آئین پاکستان کو ہی اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر اور بیرسٹر صلاح الدین میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مجھے تاثر مل رہا ہے آپ یہاں سنجیدہ نہیں ہیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آپ میری ساکھ پر سوال اٹھائیں گے تو ویسا ہی سخت جواب دوں گا۔ جسٹس امین نے کہا کہ بات کسی اور طرف جا رہی ہے، ایسے نہ کریں جانے دیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جسٹس جمال نے کہا ابھی ہم اس کیس کو یہاں آگے نہیں بڑھا رہے۔ یا تو آپ کہیں میرٹ پر کیس چلانا ہے تو یہیں دلائل دیتا ہوں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ نہیں فائل تو ابھی بند ہے، ہم تو اپنی سمجھ کے لیے آپ سے معاونت لے رہے ہیں۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ فائل بند ہے تو پھر آپ مفروضوں پر سوال پوچھے جائیں، میں مفروضوں پر جواب دیتا ہوں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مجھ سے زیادہ عدلیہ کی آزادی کسی کو عزیز نہیں۔ فرض کریں کل تمام ججز کو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے آئینی بینچز کو نامزد کر دیا جاتا ہے تو کیا 26ویں ترمیم پر اعتراض ختم ہو جائے گا؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2رکنی بینچ کے فیصلے سے تو عدالتی عملہ انتظامی معاونت کرنے میں خوف کا شکار ہو جائے گا۔ جسٹس نعیم افغان نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 13 جنوری کے جسٹس منصور علی شاہ کے عدالتی بینچ کے حکم سے ایسا لگتا ہے کہ آپ ہی ذمے دار ہیں۔ اب آپ نتائج بھگتنے کو تیار نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ایک مرتبہ کہا کہ سارے کیسز آئینی بینچ کو جائیں گے تو ہم کیا کریں گے لیکن خود منصور علی شاہ آئینی معاملات آئینی بینچ کو بھیجتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ جب تک الزام نہ ہو تو اسے آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا۔ وزارت دفاع کے وکیل نے آرمی ایکٹ اور پولیس کی ایف آئی اے میں چارج فریم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا گیا۔ جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج کے بعد انکوائری کمانڈنٹ افسر کرتا ہے، تفتیش کا مکمل طریقہ کار بتاؤں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انکوائری کیسے کرتے ہیں؟۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ الزام لگا دیتے ہیں، چارج اسی کے لیے لفظ استعمال ہوتا ہے، چارج کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ جب تک الزام نہ ہو تو اسے آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا، چارج فریم ہونا ضروری ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتا ہے؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ چارج الگ ہوتا ہے اور دوران ٹرائل چارج فریم ہوتا ہے۔ وکیل وزارت دفاع سے جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ججز یونیفارم میں ہوتے ہیں؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں ججز فوجی یونیفارم میں ہی ہوتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یونیفارم فوجی افسر بطور جج کیسے غیرجانبدار ہو سکتا ہے؟۔ جس پر وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ یونیفارم تو آپ ججز نے بھی پہنا ہوا ہے۔ خواجہ حارث کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کالی اور خاکی وردی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کون تعینات کرتا ہے؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیش کیسے ہوتی ہے اس سے عدالت کو آگاہ کروں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پہلے چارج ہوا، چارج کی بنا پر تفتیش ہوئی، ایف بی علی کیس میں بھی یہی بات ہوئی ہے پہلے چارج فریم ہوتا ہے پھر تفتیش ہوتی ہے، جب تک جرم کو آرمی ایکٹ کے مطابق ثابت نہیں کریں گے کیا وہ ملٹری ٹرائل میں ہی آئے گا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج میں الزامات ثابت کرائے جاتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تفتیش میں چارج نہیں ہوتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ ٹرائل میں بھی چارج فریم ہوتا ہے، ہم نے شروع میں کہا تھا کہ جن کے خلاف ثبوت نہیں ہیں ان کا فیصلہ تو کریں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے ہوئے کہا کہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قانون ہے، یہ قانون جتنا بھی سخت ہو کیا یہ سویلینز پر لاگو ہوگا؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام چیزیں عدالت کے سامنے رکھوں گا کہ کیسے لاگو ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ جو قانون آپ بتا رہے ہیں کہ ان پر واقعی عمل درآمد بھی ہوتا ہے؟۔ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ ٹرائل سے قبل ملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ جج پر اعتراض تو نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آج کل تو یہاں بھی ججوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل کے فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔ بعد ازاں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔ آئینی بینچ نے کہا کہ صرف ملٹری کورٹس کا مقدمہ ہی سنیں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس منصور علی شاہ میں کہا گیا کیس اٹارنی جنرل وزارت دفاع ا رمی ایکٹ کا فیصلہ جنوری کے بینچ کے سنا گیا نہیں ہو رہے ہیں ہیں کہ کے لیے کیس کی
پڑھیں:
کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بنا سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ توہین عدالت کیس کے فیصلے میں مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا توہین کے ملزم بن کر چیف جسٹس خود بینچ بنا سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔ ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس اور ان کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے درخواستگزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ واپس لے سکتے ہیں، درخواست نہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر نذر عباس کے وکیل نے جواب دیا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے، ’ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا توہین عدالت کارروائی ختم ہونے کا آرڈر آچکا ہے، جس پر نذر عباس کے وکیل نے بتایا کہ آرڈر آچکا ہے۔ بعدازاں، وکیل عدالت میں جسٹس منصور کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی بینچ انٹراکورٹ اپیل ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس جسٹس جمال مندوخیل جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس سپریم کورٹ