پی ٹی آئی نہ آئی، مذاکرات ملتوی: کمیٹی قائم رہے گی، سپیکر
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( اپنے سٹاف رپورٹر سے +نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے نہ آنے پر گزشتہ روز مذاکراتی کمیٹی کا چوتھا اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا تاہم کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایاز صادق نے اجلاس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ 7 ورکنگ دنوں میں دوبارہ اجلاس ہوگا، آج 7 دن پورے ہوگئے، اس سے متعلق ہم نے سب کو اجلاس کی دعوت دی، توقع تھی کہ اپوزیشن کے ارکان آئیں گے۔ ہم نے 45 منٹ انتظار کیا، ان کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ نہیں آئیں گے، میں نے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا ہے، پی ٹی آئی ارکان نے کہا ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے بتائیں گے۔ اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے مذاکرات نہیں چل سکے، اس میٹنگ کو آگے رکھنے کا کوئی مقصد نہیں بنتا، اس لیے آج کی میٹنگ ملتوی کررہے ہیں لیکن میرے دروازے کھلے ہیں، توقع رکھتا ہوں دونوں طرف سے مذاکرات کیے جائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اعلان کیا کہ مذاکراتی کمیٹی قائم رہے گی اسے تحلیل نہیں کررہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم اگر اجلاس میں آئے ہیں تو کچھ نہ کچھ لے کر آئے ہوں گے، ہم نے پی ٹی آئی کے مطالبات کا جواب تیار کیا ہوا ہے، ہماری مثبت کوشش ہے کہ بات چیت آگے بڑھے، اس سے پہلے بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں، امید کرتے ہیں وہ آئیں گے، ہم جواب دیں گے اور ہم جواب دینا چاہتے تھے، جب تک آئیں گے نہیں تو جواب کیسے دیں گے۔ جبکہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے عملی طور پر آج مذاکرات ختم کردئیے، حکومتی کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہے گی، اس دوران پی ٹی آئی نے دوبارہ سپیکر سے رابطہ کیا تو ہماری کمیٹی ان کے ساتھ بیٹھ جائے گی۔ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے آج آتی تو ان کے لئے راستے کھل سکتے تھے۔ منگل کو پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آج اس مذاکراتی عمل کو ختم کردیا ہے جس کا انہوں نے خود آغاز کیا تھا، غیرجانبدار قانونی ماہرین سے رائے لی اور کوشش کی کہ ان کے مطالبات کو زیادہ سے زیادہ قابل عمل بناسکیں، ہماری توجہ اس پر مرکوز رہی۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے جواب کی تفصیلات جاری نہیں کریں گے، کیونکہ کمیٹی کا کمیٹی سے معاملہ تھا، اگر وہ آتے تو ہم اپنا جواب ان کے سامنے رکھتے، وہ اسے پڑھتے اور جائزہ لیتے اور جن نکات پر انہیں اعتراض ہوتا انہیں اٹھاتے یا اپنے نکات شامل کرتے تو پھر شاید کچھ معاملات بہتر ہوجاتے، یا پھر ہم ان کے مطالبات اور اپنے جواب پر ایک اور میٹنگ کر لیتے کہ بات آگے بڑھنی ہے یا نہیں بڑھنی کیونکہ ان کی 31 جنوری کی ڈیڈ لائن برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ پی ٹی آئی تشریف نہیں لائی اس لیے مذاکرات کا سلسلہ عملاً ختم ہوچکا ہے، ہماری کمیٹی ابھی قائم ہے، ہم نے اسے تحلیل نہیں کیا، یہ کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہے گی۔ اگر اس دوران پی ٹی آئی حکومت سے رابطہ کرتی ہے تو ہماری کمیٹی 31 جنوری سے پہلے پہلے ان کے ساتھ بیٹھ جائے گی اور اگر وہ 31 جنوری کے بعد بھی یہ عمل جاری رکھنا چاہیں تو ہم جاری رکھیں گے۔ انہوں نے جس عمل کو شروع کیا تھا اسے خود ہی سبوتاژ کردیا۔ ہم نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، ادھر سے سول نافرمانی کی تحریک چلی، پیسے نہ بھیجنے کا کہا گیا، خطرناک ٹویٹس آئے، آرمی چیف اور مسلح افواج پر حملے کیے گئے، ہمارے وزیراعظم کو گالیاں دی گئیں، ہم نے اسے بھی برداشت کرلیا، ہم نے کسی چیز کو جواز نہیں بنایا، سول نافرمانی کی تحریک ملتوی کرنے کی درخواست بھی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بڑے سلیقے کے ساتھ مذاکرات کے طریقہ کار کے تحت آگے بڑھتے رہے مگر انہوں نے یہ طرز عمل اختیار کرکے سپیکر کی بھی توہین کی ہے جس سے رابطہ کرکے انہوں نے وزیراعظم کے ذریعے یہ کمیٹی بنوائی تھی، وزیراعظم ہی کمیٹی تحلیل کریں گے‘ پی ٹی آئی نے وعدہ کیوں توڑا‘ ہماری بھی بے توقیری کی ہے اور جمہوری روایت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ اگر عمران خان کہتے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھیں گے تو یقین دلاتا ہوں میاں صاحب کی جانب سے مثبت جواب آتا‘ عجیب و غریب تبصرہ کیا گیا کہ میاں صاحب بارہویں کھلاڑی بن گئے‘ میاں صاحب نے 21 اکتوبر کا کہا کہ ملک جہاں پہنچ گیا ہے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔ جیل جا کر ملاقات کرنا اور چیز ہے۔ نواز شریف کی جانب سے قومی ایشوز پر ہٹ دھرمی کا رویہ نہیں اپنایا گیا۔ میاں نواز شریف عمران خان کی تیمارداری کے لئے ہسپتال اور گھر بھی گئے۔ پارلیمانی جمہوری سسٹم مذاکرات سے آگے بڑھتا ہے ڈیڈ لاک سے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو جو راستہ سڑک سے نکالنا چاہتے تھے پہلے نکلا نہ آئندہ نکلے گا۔ اگر اس بات کو اب بھی نہ سمجھیں گے تو اپنا اور جمہوریت کا نقصان کریں گے۔ راستہ جب بھی نکلنا ہے وہ مذاکرات کی ٹیبل سے نکلنا ہے۔ 25 نومبر کو اگر سنگجانی بیٹھ جاتے تو مذاکرات سے راستہ نکل آتا۔ پی ٹی آئی نے دوبارہ آج غلطی کی کہ مذاکرات سے باہر ہوئے۔ پی ٹی آئی کا انتظار آئندہ الیکشن 2029ء تک کریں گے۔ وزیراعظم نے بھی مذاکرات کا راستہ اپنانے کا کہا ہے۔ رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنی بات پر قائم رہے لیکن مذاکرات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پارلیمانی سسٹم میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف آپس میں بائیکاٹ نہیں کر سکتے‘ یہ ڈیڈ لاک ہوتا جس سے پارلیمنٹ آگے نہیں چل سکتی‘ پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ہے‘ انہیں سیاست کرنے کا حق ہے۔ پنجاب میں جو ایک کمیٹی بنی ہے‘ گورنر ہاؤس میں اجلاس میں تمام مسائل حل کئے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں کوئی ایشو نہیں‘ اگر بلاول صاحب کو کوئی ایشوز پتا ہیں تو ہمیں بلائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سپیکر سردار ایاز صادق نے اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب کو ٹیلیفون کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے‘ ٹیبل ٹاک اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ عمر ایوب نے سپیکر ایاز صادق کو بانی پی ٹی آئی کے فیصلے سے آگاہ کیا اور کہا کہ حکومت نے ہمارے مطالبات پر تاخیری حربے اختیار کئے‘ جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے بنا مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ذرائع نے کہا کہ بانی چیئرمین کے کہنے پر پی ٹی آئی نے مذاکراتی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے جوڈیشل کمشن کے قیام کے مطالبے پر قائم ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مذاکرات کے راستے بند کرنا جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس آمد کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ ن خواجہ آصف نے کہا حالات جیسے بھی ہوں مذاکرات سے مسائل کا حل نکل ہی آتا ہے، پی ٹی آئی نے اگر مذاکرات میں بیٹھنے سے انکار کیا ہے تو یہ ایک لاحاصل مشق ہے، مذاکرات کے راستے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ جب حکومت جوڈیشل کمشن کا اعلان کردے گی تو ہم اس کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھ جائیں گے۔ سینیٹرعلی ظفر کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کو فلور آف دا ہائوس میں بولنا چاہیے جہاں وہ اپنی ، تجاویز دے سکتے ہیں، آج بدقسمتی سے سینٹ اجلاس میں قائد حزب اختلاف کو ہی بولنے نہیں دیا گیا، لیڈر آف دی اپوزیشن اور لیڈر آف دا ہاؤس کسی بھی وقت اٹھ کر بول سکتے ہیں، اپوزیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ جب ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہو تو اس میں لامتناہی سلسلہ نہیں چلے گا، حکومت چاہتی ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں، تحریری مطالبات پر دن ضائع کیے ہیں۔ سپیکر نے جو رول ادا کیا ہے ہم نے اس کی تعریف کی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے فیصلے کون کرے گا، اگر یہ کہہ دیں کہ ہم جوڈیشل کمشن بنائیں گے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کریں گے تو ہم بیٹھ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیکا کا بل ہو یا کوئی بھی ہو اس میں سیر حاصل گفتگو کے بغیر پاس نہیں کرنا چاہیے، اس بل میں سٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ نہیں لیا گیا۔شبلی فراز نے کہا کہ اس ترمیم کے مطابق اگر کوئی رائے ناپسند ہے تو صحافی کو جیل میں ڈالا جاسکتا ہے اور سزا بھی ہوسکتی ہے۔ اس بل کا ٹارگٹ پی ٹی آئی اور صحافیوں کے علاہ ہر وہ شخص ہے جو سچ بولنا چاہتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: مذاکراتی کمیٹی انہوں نے کہا کہ نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمشن کہ پی ٹی آئی پی ٹی آئی نے مذاکرات کے مذاکرات سے کہ مذاکرات مذاکرات کا میاں صاحب پی ٹی ا ئی اجلاس میں نے پی ٹی کریں گے نہیں کر کے ساتھ نہیں ا رہے گی ہیں تو کیا ہے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کا مستقبل کیا؟ اسپیکر، حکومت شش و پنج کا شکار
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کا مستقبل کیا؟ اسپیکر، حکومت شش و پنج کا شکار WhatsAppFacebookTwitter 0 29 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے جب کہ اس حوالے سے قائم حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا کیا مستقبل ہو گا، اسپیکر قومی اسمبلی کا افس اور حکومت شش و پنج کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کو تمام تر صورتحال سے آگاہ کردیا گیا، اسپیکر ایاز صادق کمیٹی برقرار رکھنے جب کہ حکومت 31 جنوری کے بعد اسے ختم کرنے کی خواہاں ہے۔
ذرائع اسمبلی نے کہا کہ حکومت نے تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا جواب سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا، حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق یکسر انکار نہیں کیا، حکومت نے ان حالات کا ذکر کیا جن میں عدالتی کمیشن بن سکتا ہے، کمیشن کیوں نہیں بن سکتا، رپورٹ میں وجوہات کا بھی ذکر کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ نو مئی پہلے ہی عدالت میں زیر سماعت، کمیشن بنانے سے متعلق رائے مانگی گئی، رپورٹ میں کیس اور کمیشن سے متعلق آئینی و قانونی نکات کا حوالہ دیا گیا، حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے متبادل خصوصی کمیٹی یا پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر کی سربراہی میں موجودہ کمیٹی کو ہی پارلیمانی کمیٹی کا درجہ دینے کی بھی تجویز ہے، حکومت نے تحریک انصاف کے لاپتہ افراد کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا، حکومتی کمیٹی نے بانی چیئرمین سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی سے متعلق قانونی و عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے قانونی طور پر ان کی عدالتوں سے ضمانت یا رہائی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، اسپیکر قومی اسمبلی یا حکومت جواب کو ابھی پبلک نہیں کرینگے، تحریک انصاف مذاکرات میں واپس آئے گی تو جواب کمیٹی میں پیش ہوگا۔