26 ویں ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی، بالآخر فل کورٹ ہی سنے گا: جسٹس محسن
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار+نمائندہ خصوصی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر لائی گئی، مجھے اس خط کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، 26 ویں آئینی ترمیم فل کورٹ میں ہی سنی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار میں وکلاء سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ مجھے بار نے صرف چائے پلانے کے لیے مدعو کیا، پھر مجھے کہا گیا آپ نے صرف کچھ وکلاء کو سرٹیفکیٹ دینے ہیں، پھر یہاں آکر بتایا کہ وہ سرٹیفکیٹ صرف 60 ہیں، پھر یہاں آکر پتہ چلا یہ یہاں تو میڈیا بھی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کے خطاب پر ہال میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے ہم ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجیں گئے، مضبوط میڈیا چاہیے جو لوگوں کے سامنے ہر چیز سامنے رکھے، مضبوط بار چاہیے جن میں سے ججز منتخب کیے جائیں، ہر بار کا حق ہے اس کو جگہ ملے، ہم جلد اسلام آباد سے ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجیں گے، ہم اپنے اسلام آباد کے ہی ججز کو یہاں تعینات کریں گے، جو فریش تعیناتیاں ہوئی وہ بھی اسلام آباد سے ہوں گی، یہ امیج بنا ہوا ہے باہر سے ججز یہاں تعینات ہو جاتے ہیں اور یہاں کے ججز کا حق ختم ہو جاتا ہے، ہونا یہ چاہیے جو جج تعینات ہو وہ اسلام آباد بار سے ہو۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ وکلاء کمپلکس کی تعمیر کے لیے امید ہے خط نہیں لکھنا پڑے گا، حکومت جتنی جلدی قانون سازی کر رہی ہے ان عمارتوں کی تعمیر بھی پوری کرے۔ میری والدہ نے کہا تھا کہ کوئی تمہیں چڑھائے تو مغرور نہ ہو جانا۔ قانون کی درست تشریح سے ہی پاکستان کو ترقی کی منازل پر دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے 26ویں آئینی ترمیم ہی ہو، آپ کو اپنے ارادوں سے مایوس نہیں کر سکتے، اس طرح کے مراحل پاکستان کی تاریخ میں آتے رہے ہیں، ایک خط نے پورے ملک کے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، 26ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنچ ہی سنے گا۔ یہ ایشو پاکستان کی عوام اور نظام کی بقا کیلئے حل ہو گا۔ ہمیں وہ آزاد جج چاہئیں جو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھیں۔ لوگوں کی امید آج عدلیہ، پارلیمان اور میڈیا سے ہے۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی نے کہاکہ جسٹس محسن اختر کیانی نے ہمیشہ آزادی سے کام کیا۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ ججز کو آزاد ہونا چاہیے، ججز کو حکومت سے بھی آزاد ہونا چاہئے، تب جا کے آئین اور قانون کی بات ہو گی۔ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جسٹس محسن اختر کیانی جیسے دلیر اور بہادر ججز کی اس وقت پاکستان کو ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام ا باد ججز کو ایک خط
پڑھیں:
اب تو ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے ونگ بن گئے ہیں. سپریم کورٹ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے طلبہ یونین کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے تشکیل دی گئی حکومتی کمیٹی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے طلبہ یونین پر پابندی کیخلاف کیس کی سماعت کی.(جاری ہے)
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی کی جانب سے عبوری رپورٹ بھی دی ہے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ماضی میں تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ سیاسی ونگز بنے ہوئے تھے، نئے طریقہ کار کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ طلبہ متعلقہ یونیورسٹیوں کے ہی ہوں.
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں مسئلہ نہیں، سرکاری یونیورسٹیوں میں مسائل ہیں، طلبہ ویلفیئر ایسوسی ایشن بننا الگ ہے، سیاسی پارٹیوں کے ونگ بننا الگ بات ہے، سیاسی جماعتوں کے ونگ ہوں گے تو سیاسی جھنڈے تو یونیورسٹی میں آئیں گے. جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ اب تو ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے ونگ بن گئے ہیں، بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز میں بھی اب سیاسی جماعتوں کے ونگ بن چکے ہیں عدالت نے حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی.