شرح سود میں کمی، معیشت کا استحکام
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں کمی کا اعلان کردیا گیا ہے، شرح سودکو ایک فی صد کم کر کے 13 سے 12 فی صد مقرر کیا گیا ہے جب کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ جنوری کا افراط زر دسمبر سے بھی کم رہے گا۔ انھوں نے بتایا کہ 6 ماہ کا کرنٹ اکاؤنٹ 1.2 ارب ڈالر سرپلس رہا، اس سے قبل 4.1 ارب ڈالرکا خسارہ رہا تھا۔ ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کا موقع ملا اور ہماری توقعات سے زیادہ استحکام آیا۔ افراط زرکچھ ماہ میں بہت تیزی سے کم ہوا ہے۔ مئی 2023میں 38 فیصد رہا اورگزشتہ ماہ 4.
اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارک اپ ریٹ میں کمی خوش آیند ہے۔ اس فیصلے سے قرضوں کی لاگت میں کمی، صنعتی ترقی کے فروغ اور ملک میں تجارت و سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک اس سے قبل 5 جائزوں میں تسلسل کے ساتھ شرح سود میں 9 فیصد کمی لاچکا ہے۔
قبل ازیں جون 2024 میں شرح سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی۔ آخری بار 17 دسمبر 2024کو ہونے والے جائزے میں پالیسی ریٹ 2 فیصد کم کر کے 13 فیصد مقررکیا گیا تھا اور اب گزشتہ روز اسے مزید کم کر کے بارہ فی صد کردیا گیا ہے۔ بلاشبہ معیشت میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ بھی بہتر ہوئی ہے۔ پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے جو سب کے سب مثبت انڈیکٹرز ہیں۔ حکومت نے ایک عرصے سے ڈالر ریٹ کو کنٹرول کر رکھا ہے اور ملکی معیشت درست ٹریک پر ہے۔
اس فیصلے کوکاروباری برادری کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا گیا ہے،کیونکہ زیادہ مارک اپ ریٹ طویل عرصے سے ایک بڑی رکاوٹ رہی تھی جس کی وجہ سے کاروبار خاص طور پر ایس ایم ایز کو فنانس تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
مارک اپ ریٹ بائیس فیصد سے کم کر کے بارہ فیصد لانا مثبت اور خوش آیند امر ہے، جس سے کاروباری اداروں کو سازگار شرائط پر قرض تک رسائی فراہم ہوگی جس سے پیداواریت میں اضافہ ہوگا اور معاشی استحکام کو فروغ ملے گا۔ تاہم معیشت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہے ان میں توانائی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اقدامات،کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے ہدف شدہ مدد شامل ہے ۔ پاکستان کی معیشت تین سال کی مندی کے بعد سنبھل رہی ہے ۔
افراطِ زر اور شرح سود میں کمی خوش آیند مگر عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے کا چیلنج اب بھی اسی طرح ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2024 میں 10.3 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو تین سال پہلے 6.3 فیصد تھی۔ بے روزگاری میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی افراطِ زر سے پاکستان کے زیریں اور درمیانی آمدنی والے طبقے کی معیشت پر جو شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اگرچہ حکومتی تخمینوں میں افراطِ ز ر میں اضافے کی شرح تھم گئی ہے مگر بجلی،گیس، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں پچھلے ایک، ڈیڑھ برس میں جو اضافہ ہو چکا ہے، اس کے اثرات عام شہریوں، جن کی آمدنی میں اس دوران کوئی اضافہ نہیں ہوا، کے لیے مستقل درد سر ہے، چنانچہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی تنخواہ دار طبقے کا معاشی توازن بگاڑ دیتا ہے جب کہ وہ شہری جن کے پاس روزگارکے مقررہ وسائل بھی نہیں، ان کی زندگی بدستور معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔
اس وقت حکومتی اعداد و شمار اپنی جگہ پر لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ نہیں ہوا۔ گروتھ نہیں ہو رہی، پٹرول اور توانائی کے دیگر ذرایع کی قیمتوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ موجودہ گروتھ ملازمتوں کے مواقعے پیدا کرنے اور غربت میں کمی کے لیے ناکافی ہے۔
2024 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو سات ارب ڈالرکا قرضہ فراہم کیا جس نے معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔ اس قرضے کی منظوری کے بعد پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور معیشت میں بہتری آئی۔ اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے دوران حکومتِ پاکستان کو ملنے والے بیرونی قرضوں اورگرانٹس کی تفصیلات جاری کی تھیں جن کے مطابق جولائی سے نومبر تک پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے تاہم اس میں تیزی آنے کا امکان ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوششیں اور عوام کو ٹیکس کی ادائیگی پر مائل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کی طرف سے مختلف شعبوں پر ٹیکسیشن زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر ایک عرصے تک پاکستان میں تیزی سے بڑھنے والا سیکٹر تھا لیکن گزشتہ دو برس کی بھاری ٹیکسیشن کی وجہ سے یہ سیکٹر اس وقت شدید مشکلات اور مندی کا شکار ہے۔ حکومت کے پاس ہمارے قرضوں کے بوجھ کے پیش نظر،آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں وزیر خزانہ کی جانب سے اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اب ہم نے 2025 میں گروتھ کی طرف جانا ہے۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ایسی متوازی شرح نمو حاصل کی جائے کہ ہم کسی عدم توازن کا شکار نہ ہوں اور معیشت میں لگاتار بڑھوتری آئے۔ آیندہ سال آئی ایم ایف کے پروگرام کو برقرار رکھنا ضروری ہے، جو بھی آئی ایم ایف کی سفارشات ہیں ان پر حکومت لازمی عمل کرے، اگر ہمارا آئی ایم ایف کا پروگرام ڈی ریل ہوا تو سب کے لیے مشکلات بہت بڑھ جائیں گے۔ حکومت انتہائی قلیل مدت میں معاشی بہتری کے منصوبوں کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا کر عوام کی مشکلات دورکرنے کا اہتمام کیا ہے۔
معاشی اہداف کو مقررہ مدت کے دوران حاصل کرنے کا سبب مخلوط حکومت کی شاندار کارکردگی ہے، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بھی یہ اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔ حکومت نے منظم اور مربوط معاشی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مہنگائی ساڑھے چھ سال کی کم شرح پر لانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس طرح اقتصادی کامیابیاں سمیٹنے کے حوالے سے اہم بات عسکری اور سیاسی قیادت کی بہترین ہم آہنگی بھی ہے۔ سیاسی قیادت کو قومی سلامتی کے ادارے کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے جس پر قومی ترقی کے سفر میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے معاشی استحکام سے عوام کی بہبود کے راستے نکالنے کا ویژن پر کامیابی سے عملدر آمد ہو رہا ہے۔
حکومت کی معاشی حکمت عملی میکرو سطح پر یقینا نتائج دے رہی ہے اور اس کا عکس معاشی اشاریوں میں دکھائی دیتا ہے مگر مائیکرو سطح کے چیلنجز اُسی طرح ہیں اور روزگار کے وسائل میں کمی کے مسائل بھی ابھی حل طلب ہے۔ اس لیے حکومت کو نچلی سطح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ عام آدمی بھی ان معاشی ثمرات سے بہرہ ور ہو سکے۔ اس کے لیے حکومت کو معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، بصورت دیگرآبادی کے اکثریتی طبقے کے لیے معاشی ترقی کے دعوے اور اعدادوشمار محض دکھاؤا ہوں گے۔
افراطِ زر اورشرح سود میں کمی اشیا ئے ضروریہ کی قیمت میں کمی کی صورت میں سامنے آنی چاہیے۔ شرح سود کم ہونے سے کاروباری لاگت میں کمی آئے گی جس سے قیمتیں بھی کم ہونی چاہئیں اوراس کا فائدہ ملکی صارفین کو بھی ہوگا جب کہ برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔ اس سے علاقائی ممالک کے ساتھ مسابقتی اہلیت بھی بہتر ہوگی۔
شرح سود میں کمی کے ساتھ ہم بتدریج جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے قریب آ رہے ہیں، اگرچہ آج بھی شرح سود کے لحاظ سے پاکستان جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک سے آگے ہے تاہم جس تسلسل کے ساتھ کمی کی جا رہی ہے امید کی جانی چاہیے کہ آنیوالے مہینوں میں شرح سود سنگل ڈیجٹ تک پہنچ جائے گی، جو کہ ایک سال پہلے ایک خواب معلوم ہوتی تھی۔گزشتہ ماہ میں ملک میں افراطِ زر کی شرح 4.9 فیصد رہی، جس سے حقیقی شرح سود 10 فیصد ہونی چاہیے، یعنی شرح میں ابھی کم از کم تین فیصد کمی کی گنجائش موجود ہے، تاہم ماہرین کے نزدیک اسٹیٹ بینک کا مرحلہ وار شرح سود کم کرنا درست حکمت عملی ہے۔ اس تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا اور اس سطح کو پائیدار بنیادوں پر قائم رکھنا ہی معاشی حکمت عملی کی کامیابی کی دلیل ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف اسٹیٹ بینک میں اضافہ حکمت عملی کی وجہ سے اضافہ ہو کم کر کے کی جانب کرنے کے کے ساتھ رہی ہے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
تجارتی جنگ اور ہم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔
عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔
چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔
بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔
امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔
امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔
گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔
امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔
آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔
تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!