لاہور کا نوجوان جو چاول کے دانے پر نام لکھنے کے فن میں مہارت رکھتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
لاہور:
پاکستان میں ہنر مند افراد کی کمی نہیں، لاہور کے شاہی قلعہ میں ایک ایسا نوجوان موجود ہے جس کا ہنر نہایت منفرد اور دلچسپ ہے, غلام مصطفیٰ نامی یہ نوجوان چاول کے دانے پر نام لکھنے کی مہارت رکھتا ہے، اور اس کا یہ فن مقامی اور غیر ملکی سیاحوں میں یکساں مقبول ہے۔
غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ فن انہوں نے لاہور ہی سے سیکھا ہے۔ ان کے استاد نے انہیں یہ ہنر سکھایا، جس کے ذریعے وہ نہایت باریک چاول کے دانے پرانگریزی حروف تہجی سمیت دو یا تین نام باآسانی لکھ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ عام چاول کے دانے ہی ہوتے ہیں، اور اس کے لیے کسی خاص قسم یا کمپنی کے چاول کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ وہ دال، گندم کے دانے، چھلے، قلم اور کچن کی دیگر اشیاء پر بھی نام لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ اس کام کے لیے انہیں کسی خاص آلے یا لینز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ عام نظر کے ساتھ ہی یہ باریک کام کر لیتے ہیں، اگرچہ بار بار کام کرنے سے نظر پر دباؤ پڑتا ہے اور نظر تھوڑی کمزور ہو سکتی ہے۔ ایک چاول کے دانے پر نام لکھنے میں انہیں صرف 30 سیکنڈ لگتے ہیں، اور وہ ایک دانے پر تین یا چار نام تک لکھ سکتے ہیں۔
چاول کے دانے کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ وہ ایک خاص کیمیکل استعمال کرتے ہیں جسے “رائس کیمیکل” کہا جاتا ہے۔ اس کیمیکل کے ذریعے چاول کے دانے کو محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ پانی میں جانے کے باوجود لکھائی خراب نہ ہو۔ وہ مختلف اشکال کے لاکٹ بناتے ہیں، جنہیں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سیاح بھی بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔ خاص طور پر انگلینڈ اور دیگر ممالک سے آئے سیاح اس منفرد ہنر کو بہت پسند کرتے ہیں۔
غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ انہوں نے چاول کے دانے پراردو، انگریزی، اور ہندی زبان میں نام لکھے ہیں۔ انڈونیشیا سے آئے ایک سیاح نے بھی ان سے ایک خاص تحریر لکھوائی تھی۔ وہ نہایت نفاست کے ساتھ باریک اور پیچیدہ زبانوں میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ غلام مصطفیٰ مہندی کے ٹھپے بنانے کا روایتی کام بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ روایت پہلے زیادہ مقبول تھی لیکن اب مخصوص مواقع تک محدود ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود، خواتین، بچے اور بعض اوقات نوجوان لڑکے بھی شوق سے مہندی کے ٹھپے لگواتے ہیں۔
غلام مصطفیٰ کا یہ ہنر لاہور کے شاہی قلعہ میں ایک منفرد کشش کا باعث ہے۔ چاول کے دانے پر نام لکھنے کا یہ کام نہ صرف ان کی محنت اور لگن کی عکاسی کرتا ہے بلکہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کو دنیا بھر میں روشناس کرانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ غلام مصطفی
پڑھیں:
مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعویٰ
وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی کردیا اور کہا ہے کہ اس بار افغانستان اور پاکستان میں ایک ہی روز مہم شروع ہوگی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ رواں سال دسمبر 2025ء میں پاکستان کو پولیو فری کردیں گے، اب تک چھ نئے پولیو کیس سامنے آئے ہیں، 21 اپریل سے ملک بھر میں انسداد پولیو مہم شروع ہو رہی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دو ہی ممالک ہیں جہاں پولیو موجود ہے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے، افغانستان میں طالبان کی مذہبی بنیاد پر حکومت ہے لیکن پورے افغانستان میں بھرپور پولیو مہم چل رہی ہے، اس بار افغانستان اور پاکستان میں ایک ہی روز مہم شروع ہوگی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مذہب سے انسداد پولیو ویکسین کا کوئی تعلق نہیں، حج اور عمرہ کیلئے جائیں تو لائن میں لگا کر پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، پاکستان براہ راست یونیسیف سے پولیو ویکسین حاصل کرتا ہے، پاکستان میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو پولیو ویکسین یونیسیف فراہم کرتا ہے، پاکستان پولیو ویکسین نہیں خریدتا بلکہ یونیسف خود خریداری کرتا ہے اور ہمیں فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پولیو کا کوئی علاج نہیں صرف بچاؤ کی ویکسین ہے، پورے ملک میں سیوریج ٹیسٹ میں پولیو وائرس موجود ہے، وائرس پورے ملک میں موجود ہے بچاؤ کا طریقہ صرف ویکسین ہے، پاکستان میں بہت کم ایسے واقعات ہوتے ہیں جن پر پوری قوم متحد ہوجائے مگر پولیو ایسا مسئلہ ہے جس پر پورا ملک متحد ہے تمام صوبوں کے وزیر صحت یک زبان ہو کر اس مہم میں ایک مٹھی کی طرح شریک ہیں اس اتحاد کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہم پولیو پر قابو پالیں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ عہدہ سنبھالتے ہی چاروں صوبائی وزراء صحت سے رابطہ کیا۔ صوبائی وزراء کا ریسپانس بہت مثبت تھا، چار لاکھ پچیس ہزار ہیلتھ ورکرز گراونڈ پر کام کریں گے انھیں اتنے پیسے نہیں دئیے جا رہے کہ وہ اس سیکیورٹی رسک میں بھی کام کر رہے ہیں اس لیے ہیلتھ ورکرز کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا جانا ضروری ہے۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ افغانستان اس مرض سے جان چھڑا لے اور ہم اکیلا پولیو زدہ ملک نہ رہ جائیں، والدین سے گزارش ہے کہ وہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ پاکستان پولیو فری ممالک میں شامل ہوجائے۔