پیکاقانون میں اگرمسائل ہوں گےتودوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے، افنان اللہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
مسلم لیگ ن کے سینیٹرافنان اللہ نے کہا ہے کہ صحافی برادری یہ سمجھتی ہےکہ پیکاایکٹ میں کوئی تبدیلیاں ہونی چاہییں تو وہ تجاویزبنا کرحکومت سے بات کریں، ہم اس پرت بات چیت کرنےکےلیےتیارہیں۔
نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے کہاکہ کچھ کمپنیاں پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں جسیے فیس بک، انسٹا گرام اورٹک ٹاک وغیرہ اورجو کمپنیاں پاکستان میں نہیں ہیں انھیں ہمیں پاکستان آنےکے لیےکی ترغیب دینا ہوگی۔
رہنما مسلم لیگ نے کہا کہ جہاں تک بات انٹرنیٹ کی ہے تومیں اس کی ابتدا سے حامی رہا ہوں کہ لوگوں کوانٹرنیٹ کی سہولت دینی چاہیے تاکہ لوگ وہاں تعلیم حاصل کریں اورنوکریاں کریں۔ بنیادی طورپریہ ان لوگوں کیلئےمسائل ہوں گےجوسوشل میڈیا پرجھوٹ بیچ رہے ہیں۔ کیا یہ صحافت ہے کہ آپ یوٹیوب پرجاکرسفید جھوٹ بولیں اورپروپگینڈہ کریں اوراس پرپیسے بھی کمائیں۔ اس سے تو بدنام پوری صحافی برادری ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کی عزتیں سوشل میڈیا پراچھالی جاتی ہیں۔ عورتوں کوماؤں بہپنوں کےبارے میں جو بات کی جاتی ہے، انھیں غلیظ ترین گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ کتنے سالوں سے چل رہا ہے۔ فیک نیوز کی وجہ سے پاکستان میں کئی بارآگ لگ چکی ہے۔ ریپ والا معاملہ آپ کے سامنے تھا۔ جو لوگ سوشل میڈیا پوسٹوں پرگالیاں دیتے ہیں اس کا کیا علاج ہے؟ سوائے اس کے ان کے خلاف کوئی قانون بنایا جائے۔ اس مسئلے کا کوئی توحل ہوناچاہیے۔ ہم نے میڈیا سے متعلق 2023 میں ایک قانون پر مشاورت کی تھی، اس کا قانون کبھی پاس نہیں ہوا، کمیٹیوں کی میٹنگ چلتی رہی۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ سخت قانون پاکستان میں آئے۔
سینیٹرافنان اللہ نےکہا کسی بھی پلیٹ فارم کامعاملہ پہلےٹربیونل کےنیچےکسی فورم پرجائے گا وہاں سے سپریم کورٹ، اگریہ کام ٹھیک نہ ہواتوظاہرہےقانون کاکبھی بھی ریویوکیا جاستا ہے، یہ کوئی آئینی ترمیم نہیں ہے کہ جوبڑامشکل ہواوراگراس میں مسائل ہوں گےتوریویو کرلیں گے، صحافی برادری یہ سمجھتی ہے کہ اس میں کوئی تبدیلیاں لانی چاہییں تووہ تجاویزبنا کرحکومت سےبات کریں، ہم اس پرت بات چیت کرنےکےلیےتیارہیں،
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان میں
پڑھیں:
شریعت اور مذہب کے خلاف کوئی بھی قانون ہمیں منظور نہیں ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیت علماء ہند صدر کا کہنا ہے کہ ہماری قانونی ٹیم نے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور جمعیت اس فیصلے کو نینی تال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ایک ساتھ چیلنج پیش کرنے جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں آج سے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) نافذ ہو گیا ہے۔ جمعیت علماء ہند نے اس معاملے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کر کے نہ صرف شہریوں کی مذہبی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے، بلکہ یہ قانون پوری طرح سے تفریق اور تعصبات پر مبنی ہے۔ جمعیت علماء ہند نے اعلان کیا ہے کہ صدر مولانا ارشد مدنی کی رہنمائی میں اتراکھنڈ حکومت کے فیصلے کو نینی تال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں میں چیلنج پیش کیا جائے گا۔ جمعیت کی طرف سے جاری ایک پریس بیان میں بتایا گیا ہے کہ ادارہ کے وکلاء نے اس قانون کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کی گہرائی سے جانچ کی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ جمعیت علماء ہند کا ماننا ہے کہ چونکہ یہ قانون تفریق اور تعصبات پر مبنی ہے، اس لئے اسے یکساں سول کوڈ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کسی ریاستی حکومت کو ایسا قانون بنانے کا اختیار ہے۔
اتراکھنڈ میں یکساں سول کوٖڈ نافذ کرنے سے متعلق ریاستی حکومت کے فیصلہ پر جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنا سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو، کیونکہ مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج اتراکھنڈ میں نافذ یو سی سی میں ہندوستانی آئین کے دفعہ 366، حصہ 25 کے تحت درج فہرست قبائل کو چھوٹ دی گئی ہے اور دلیل پیش کی گئی ہے کہ آئین کے دفعہ 21 کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے علیحدہ رکھا جا سکتا ہے تو ہمیں (مسلمانوں کو) آئین کی دفعہ 25 اور 26 کے تحت مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی، جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو منظوری دے کر مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کو مسترد کرتا ہے، اگر یہ یکساں سول کوڈ ہے تو پھر شہریوں کے درمیان یہ تفریق کیوں۔
جمعیت علماء ہند صدر مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ہماری قانونی ٹیم نے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور جمعیت اس فیصلے کو نینی تال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ایک ساتھ چیلنج پیش کرنے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنے مذہبی معاملوں میں کسی بھی طرح کی نامناسب مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے عقیدے پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرتے ہیں، وہاں یکساں سول کوڈ آئین میں شہریوں کو دئیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہوتا ہے۔