Islam Times:
2025-01-30@06:46:56 GMT

واپسی کی لہر

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

واپسی کی لہر

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے اور ان کی زبردستی نقل مکانی کرنے کی سازش فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے قبضے کے ابتدا سے ہی جاری ہے۔ صیہونی جرائم پیشہ افراد نے ناجائز صیہونی ریاست کے قیام کے آغاز میں ہی، 1948ء میں ”حادثہء نکبہ“ کے دوران فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے خوفناک طرز کا قتل عام کیا۔ فلسطین کے ”مرکزی ادارہء شماریات“ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے آخر تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 5.

48 ملین تک پہنچ گئی تھی جو کل فلسطینی آبادی کا تقریباً 38 فیصد یعنی 14.5ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 62 فیصد فلسطینی اپنے علاقوں سے باہر رہتے ہیں۔

فلسطینی آبادی کا یہ انخلا دو بڑے واقعات کے سبب ہوا۔ ایک کا سبب 1948ء میں جعلی صیہونی ریاست کے قیام ہے جب کہ دوسرے بڑے انخلا کی وجہ 1948ء کی جنگ ہے۔ نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے ذریعے فلسطینی عوام کو بے گھر کرنا صیہونیوں کا پرانا مشغلہ ہے۔ ان مظالم کے بعد جو فلسطینی اپنی جانیں بچانا چاہتے تھے وہ مغربی کنارے اور غزہ سمیت کئی علاقوں سے اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً اردن، لبنان، شام، مصر اور عراق وغیرہ میں ہجرت کر گئے۔ یہ ممالک اب تک ان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ محض اردن میں 40 لاکھ سے زائد فلسطینی اردن کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔

1948ء کے نکبہ کے واقعے میں آٹھ سے نو لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کی نقل مکانی کا یہ سلسلہ 1948ء اور 1968ء کی جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1967ء میں چار لاکھ فلسطینیوں نے اپنا وطن چھوڑا جن میں سے سے زیادہ تر مصر چلے گئے۔ 1978ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 65 ہزار فلسطینی پناہ گزین، لبنان سے بے گھر ہوئے۔ پھر 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لبنان سے ”پی ایل او“ کی موجودگی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران 15 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ 1968ء کی جنگ جو فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنی، فلسطینیوں کی نقل مکانی اس کے بعد بھی رکی نہیں۔ صیہونیوں نے اس جنگ کے بعد سے اپنی استعماری اور جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے حالات زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔

مقبوضہ فلسطین نے سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران کبھی بھی سلامتی اور استحکام نہیں دیکھا۔ صیہونی ہمیشہ سے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی بستیوں کو توسیع دے کر فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1977ء میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار تھی جو 2017ء میں بڑھ کر 60 ہزار ہوگئی۔ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل 2050ء تک ان بستیوں کی تعداد تقریباً دو ملین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ توسیع پسندی کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تمام فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اسرائیل کے لیے ہمیشہ ایک ایسا خواب رہی ہے جسے امریکہ کے تمام منصوبے بھی شرمندہء تعبیر نہ کر سکے۔

”الاقصیٰ آپریشن“ کے بعد صیہونیوں نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر کے یہ سمجھا کہ شاید اب ان کے اس پرانے دیرینہ خواب کو زندہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں عبرانی میڈیا نے اسرائیلی انٹیلی جنس کی وزارت سے متعلق ایک دستاویز کا انکشاف کیا تھا جس کے مطابق غزہ سے سینائی تک فلسطینیوں کی نقل مکانی کے منصوبے کو اسرائیل کا ایک مثالی منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم بیدار ضمیر عالمی رائے عامہ نے غزہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے اسرائیلیوں کی بربریت کا مشاہدہ کرنے کے بعد فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی اسرائیلی منصوبے کو کبھی قبول نہیں کیا۔

فلسطینی عوام کی نقل مکانی عرب ممالک، بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک خطرناک حقیقت ہے۔ اردن اور مصر اس مسئلے سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ مختلف امریکی حکومتوں نے فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے ”عارضی ہجرت“ کی اصطلاح بار بار استعمال کی ہے لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جو بھی نقل مکانی ہوگی، مستقل ہوگی۔ حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی قسم کا ایک منصوبہ ٹیبل پر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں فلسطینی اس دام فریب میں آ کر اپنے علاقے سے ہجرت کر کے وقتی طور پر اردن اور مصر میں آباد ہو جائیں گے اور یوں گریٹر اسرائیل کا ادھورا خواب پورا ہو سکے گا۔

فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی کی نقل مکانی علاقوں میں میں فلسطین غزہ کی پٹی منصوبے کو کو بے گھر رہے ہیں اور مصر کے بعد کے لیے اور ان

پڑھیں:

مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جنوری 2025ء) فلسطینی علاقے نصیرات سے 27 جنوری بروز پیر موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل اور حماس کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ وہ مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے اتفاق رائے تک پہنچ گئے ہیں، پیر کو بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ زدہ غزہ پٹی کے شمالی حصے کی طرف بڑھنے لگی۔

حماس اور اسرائیل نے کہا ہے کہ کہ وہ مزید چھ مغویوں کی رہائی پر متفق ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت انتہائی نازک جنگ بندی کو تقویت دینے کا سبب بنے گی اور اس اتفاق رائے کے تحت مزید اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ان اقدامات کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری غزہ میں مسلح تنازعے کا خاتمہ ہے۔

(جاری ہے)

یہ جنگ غزہ پٹی کو مکمل طور پر تباہ کر چکی ہے اور اس فلطسینی علاقے کے تقریباً تمام رہائشی بے گھر ہو چکے ہیں۔

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

جنگ بندی کے شرائط کی خلاف ورزی کا الزام

اسرائیل حماس پر جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں ان کے گھروں کو واپس جانے سے روک رہا تھا، لیکن وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کو دیر گئے بتایا کہ نئی ڈیل طے پانے کے بعد ان فلسطینیوں کو بند راستوں سے گزرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔

اے ایف پی ٹی وی کی نشرکردہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا ہجوم پیر کی صبح ساحلی سڑک پر شمال کی طرف اپنا راستہ بناتے ہوئے تمام ممکنہ سامان ساتھ لیے جا رہا تھا۔

غزہ پٹی کے بے گھر ہو جانے والے ایک باشندے ابراہیم ابو حصیرا نے اے ایف پی کو بتایا، ''واپس گھر کی طرف جانے، اپنے خاندان، رشتہ داروں اور عزیزوں کے پاس جانے اور اپنے گھر کا معائنہ کرنے کا احساس بہت سہانا ہوتا ہے ۔

۔ ۔ اگر یہ گھر اب بھی گھر باقی رہ گیا ہے تو۔‘‘

ادھر عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کو ان کی ''فتح‘‘ قرار دیا ہے، جو حماس کے بقول ''غزہ پٹی کے اس علاقے پر اسرائیلی قبضے اور یہاں کے مکینوں کی اس علاقے سے نقل مکانی کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست کا اشارہ ہے۔‘‘

رفح کراسنگ کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا

دریں اثنا حماس کی اتحادی تنظیم جہاد اسلامی نے فلسطینیوں کی اس واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ اقدام ان تمام افراد کی خواہشات پر رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمارے لوگوں کو بے گھر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

‘‘

ٹرمپ کا غزہ کی 'تطہیر‘ کا تصور

حماس اور جہاد اسلامی کی طرف سے یہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ ان خیالات کے سامنے آنے کے بعد دیے گئے، جن میں دوسری بار امریکی صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے علاقے کو خالی کرا کے تمام فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں آباد کر دیا جائے۔ امریکی صدر کے ان خیالات کی تاہم علاقائی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔

صدر محمود عباس کیا کہتے ہیں؟

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، جن کی فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم ہے، نے غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے ''کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت‘‘ کی ہے۔

غزہ کی تعمیر نو میں دہائیاں اور اربوں ڈالر درکار

محمود عباس کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

‘‘ حماس کے سیاسی دفتر کے ایک رکن باسم نعیم نے اے ایف پی کو بتایا، ''فلسطینی اس طرح کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنا دیں گے۔ ویسے ہی جیسے وہ دیگر کئی منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔‘‘

باسم نعیم نے کہا کہ جس طرح فلسطینی عشروں کے دوران اپنی نقل مکانی، بے گھر ہونے اور کسی متبادل وطن کی راہ اختیار کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں، اسی طرح اب کسی ایسے منصوبے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

غزہ سے نقل مکانی فلسطینیوں کے لیے 'نقبہ‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینیوں کے لیے انہیں غزہ سے کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کی تاریخ کے اس تاریک باب کی یادوں کو تازہ کر دے گی، جسے عرب دنیا 'نقبہ‘ یا 'بڑی تباہی‘ سے عبارت کرتی ہے۔ اس سے مراد وہ واقعات ہیں جو 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے وجود میں آنے کے دوران فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بنے تھے۔

فائر بندی کے بعد حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تین خواتین رہا

غزہ پٹی کے ایک اور بے گھر رہائشی، راشد الناجی کہتے ہیں، ''ہم ٹرمپ اور پوری دنیا سے کہتے ہیں کہ ہم فلسطین یا غزہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘

امریکی صدر نے کیا خیال پیش کیا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے صدارتی طیارے ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اپنا یہ خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ''آپ شاید ڈیڑھ ملین باشندوں کی بات کر رہے ہیں اور ہم پورا علاقہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔

‘‘ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ''غزہ پٹی کے تقریباً 2.4 ملین باشندوں کو منتقل کرنا عارضی طور پر یا طویل المدتی عمل ہو سکتا ہے۔‘‘

ادھر اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ اسموتریچ نے، جنہوں نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کی تھی اور غزہ میں اسرائیلی بستیوں کی دوبارہ تعمیر کی حمایت کا اظہار بھی کیا تھا، ٹرمپ کی اس تجویز کو ''ایک عظیم خیال‘‘ قرار دیا ہے۔

دوسری طرف عرب لیگ نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے ''فلسطینی باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی ایسی کوششوں‘‘ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو ''صرف اور صرف نسلی تطہیر‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔

غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

عرب ریاستوں کا رد عمل

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا، ''ہم فلسطینیوں کی نقل مکانی کے اس خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اردن اردن کے باشندوں کے لیے ہے اور فلسطین فلسطینیوں کے لیے۔‘‘

مصری وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ''ناقابل تنسیخ حقوق‘‘ کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔

ک م/ع ت، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی جاری،اسرائیلی جارحیت میں بچے سمیت 2شہید
  • غزہ: اسرائیلی فوج کی فائر بندی خلاف ورزی، 2 فلسطینی شہید
  • غزہ میں جنگ بندی فلسطینیوں کی مزاحمت کی فتح ہے‘سراج الحق
  • شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینی واپسی کے بعد بھی بے گھر
  • زندگی ’صفر‘ سے شروع کرنے پر مجبور فلسطینیوں کی شمالی غزہ کی جانب واپسی جاری
  • فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کا عمل شروع، شمالی غزہ میں 3 لاکھ فلسطینی واپس لوٹ آئے
  • مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف
  • شمالی غزہ میں شہریوں کی واپسی: بے دخل کیے گئے فلسطینی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے علاقوں کو لوٹ آئے
  • غزہ سفرِ عزمِ نو؛ ہزاروں فلسطینیوں کی کھنڈر بن چکے اپنے گھروں میں واپسی شروع