UrduPoint:
2025-01-30@06:53:33 GMT

شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینی واپسی کے بعد بھی بے گھر

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینی واپسی کے بعد بھی بے گھر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2025ء) خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ہفتے اپنے گھروں کو لوٹنے والے بے گھر فلسطینیوں نے غزہ سٹی کو 15 ماہ کی جنگ کے بعد کھنڈر کی حالت میں پایا، جہاں بہت سے لوگ ملبے میں پناہ کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں اور کئی اپنے کھو جانے والے رشتہ داروں کو تلاش کر رہے ہیں۔

غزہ پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی، جو کبھی ایک ہنگامہ خیز اور پررونق شہری مرکز تھا، اب ایک تباہ شدہ ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

یوں تو غزہ پٹی کے زیادہ تر حصے میں اسرائیلی بمباری سے بڑی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور ہر طرف ملبہ اور بکھرا ہوا کنکریٹ پڑا ہے، مگر شمالی غزہ میں تباہی کی شدت غیرمعمولی ہے۔ غزہ سٹی ملبے کا ایک ڈھیر

غزہ سٹی کے ایک رہائشی ابو محمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''یہ منظر دیکھیں۔

(جاری ہے)

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔

لوگ یہاں زمین پر سوئیں گے۔ یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘‘

واپس جانے والوں میں سے بہت سے افراد، جو اپنے ساتھ اپنا بچا کھچا سامان لے کر چل رہے تھے، انہوں نے ساحلی شاہراہ پر 20 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔

غزہ پٹی کے وسطی علاقے سے غزہ سٹی پہنچنے والے جمیل عابد کے مطابق، ''میں اپنے والد، والدہ اور بھائی کا انتظار کر رہا ہوں۔

ہم انہیں راستے میں کھو بیٹھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا،''یہاں کوئی کار، کوئی رکشہ، کوئی گدھا گاڑی، کوئی سواری نہیں ہے، جو اس راستے پر چل سکے۔‘‘

حماس کے حکام کے مطابق پیر کی شام تک تین لاکھ افراد غزہ سٹی اور غزہ پٹی کے دیگر شمالی علاقوں تک پہنچ چکے تھے جبکہ غزہ سٹی پہنچنے والے اس وقت رہنے کے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں، کیوں اب وہاں مکانات اور بنیادی شہری ڈھانچہ موجود نہیں۔

جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات

مذاکرات کار جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر ابتدائی کام شروع کر رہے ہیں۔ اس بات چیت کا آغاز آئندہ ہفتے سے متوقع ہے۔

قطری، امریکی اور مصری ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیانچھ ہفتے کا عارضی فائر بندی معاہدہ طے پایا تھا۔ تاہم کوشش کی جا رہی ہے کہ فائربندی کے عرصے کو وسعت دی جائے۔

فلسطینیوں کی جبری بے گھری قبول نہیں، فرانس

فرانس نے منگل کے روز کہا کہ غزہ پٹی کے باشندوں کی جبری نقل مکانی ''ناقابل قبول‘‘ ہوگی۔ یہ فرانسیسی ردعمل نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے باشندوں کو اردن اور مصر منتقل کیا جا سکتا ہے۔

فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ''یہ نہ صرف بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہو گی، بلکہ دو ریاستی حل کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بھی ہوگی۔

‘‘

اس بیان میں کہا گیا ہےکہ یہ اقدام ''ہمارے قریبی اتحادیوں، مصر اور اردن، کے لیے بھی عدم استحکام کا سبب‘‘ بن سکتا ہے۔

سات اکتوبر دو ہزار تیئیس کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے جب کہ حماس کے جنگجو قریب ڈھائی سو اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں وسیع تر فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں سینتالیس ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو گئے، جب کہ غزہ پٹی کی 2.

4 ملین کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بے گھر بھی ہو گیا۔

ع ت / ک م، م م (روئٹرز، اے ایف پی)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غزہ پٹی کے غزہ سٹی رہے ہیں حماس کے بے گھر کے بعد کے لیے کہ غزہ

پڑھیں:

واپسی کی لہر

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے اور ان کی زبردستی نقل مکانی کرنے کی سازش فلسطینی علاقوں پر صیہونی حکومت کے قبضے کے ابتدا سے ہی جاری ہے۔ صیہونی جرائم پیشہ افراد نے ناجائز صیہونی ریاست کے قیام کے آغاز میں ہی، 1948ء میں ”حادثہء نکبہ“ کے دوران فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے خوفناک طرز کا قتل عام کیا۔ فلسطین کے ”مرکزی ادارہء شماریات“ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء کے آخر تک مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 5.48 ملین تک پہنچ گئی تھی جو کل فلسطینی آبادی کا تقریباً 38 فیصد یعنی 14.5ملین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 62 فیصد فلسطینی اپنے علاقوں سے باہر رہتے ہیں۔

فلسطینی آبادی کا یہ انخلا دو بڑے واقعات کے سبب ہوا۔ ایک کا سبب 1948ء میں جعلی صیہونی ریاست کے قیام ہے جب کہ دوسرے بڑے انخلا کی وجہ 1948ء کی جنگ ہے۔ نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے ذریعے فلسطینی عوام کو بے گھر کرنا صیہونیوں کا پرانا مشغلہ ہے۔ ان مظالم کے بعد جو فلسطینی اپنی جانیں بچانا چاہتے تھے وہ مغربی کنارے اور غزہ سمیت کئی علاقوں سے اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً اردن، لبنان، شام، مصر اور عراق وغیرہ میں ہجرت کر گئے۔ یہ ممالک اب تک ان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ محض اردن میں 40 لاکھ سے زائد فلسطینی اردن کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔

1948ء کے نکبہ کے واقعے میں آٹھ سے نو لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کی نقل مکانی کا یہ سلسلہ 1948ء اور 1968ء کی جنگ کے دوران جاری رہا۔ 1967ء میں چار لاکھ فلسطینیوں نے اپنا وطن چھوڑا جن میں سے سے زیادہ تر مصر چلے گئے۔ 1978ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 65 ہزار فلسطینی پناہ گزین، لبنان سے بے گھر ہوئے۔ پھر 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لبنان سے ”پی ایل او“ کی موجودگی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران 15 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ 1968ء کی جنگ جو فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنی، فلسطینیوں کی نقل مکانی اس کے بعد بھی رکی نہیں۔ صیہونیوں نے اس جنگ کے بعد سے اپنی استعماری اور جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے حالات زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔

مقبوضہ فلسطین نے سات دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران کبھی بھی سلامتی اور استحکام نہیں دیکھا۔ صیہونی ہمیشہ سے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی بستیوں کو توسیع دے کر فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1977ء میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار تھی جو 2017ء میں بڑھ کر 60 ہزار ہوگئی۔ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل 2050ء تک ان بستیوں کی تعداد تقریباً دو ملین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ توسیع پسندی کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود تمام فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اسرائیل کے لیے ہمیشہ ایک ایسا خواب رہی ہے جسے امریکہ کے تمام منصوبے بھی شرمندہء تعبیر نہ کر سکے۔

”الاقصیٰ آپریشن“ کے بعد صیہونیوں نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کر کے یہ سمجھا کہ شاید اب ان کے اس پرانے دیرینہ خواب کو زندہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں عبرانی میڈیا نے اسرائیلی انٹیلی جنس کی وزارت سے متعلق ایک دستاویز کا انکشاف کیا تھا جس کے مطابق غزہ سے سینائی تک فلسطینیوں کی نقل مکانی کے منصوبے کو اسرائیل کا ایک مثالی منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم بیدار ضمیر عالمی رائے عامہ نے غزہ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے اسرائیلیوں کی بربریت کا مشاہدہ کرنے کے بعد فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے کسی اسرائیلی منصوبے کو کبھی قبول نہیں کیا۔

فلسطینی عوام کی نقل مکانی عرب ممالک، بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے لیے ایک خطرناک حقیقت ہے۔ اردن اور مصر اس مسئلے سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ مختلف امریکی حکومتوں نے فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے ”عارضی ہجرت“ کی اصطلاح بار بار استعمال کی ہے لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جو بھی نقل مکانی ہوگی، مستقل ہوگی۔ حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی قسم کا ایک منصوبہ ٹیبل پر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں فلسطینی اس دام فریب میں آ کر اپنے علاقے سے ہجرت کر کے وقتی طور پر اردن اور مصر میں آباد ہو جائیں گے اور یوں گریٹر اسرائیل کا ادھورا خواب پورا ہو سکے گا۔

فلسطینیوں اور مصر و اسرائیل کی حکام نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ جنگ میں نوے فیصد سے زائد وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کے اندر ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے تھے، اپنے چھوڑے ہوئے علاقوں میں ایک عظیم لہر کی صورت میں پلٹ رہے ہیں۔ اس واپسی کو تاریخ میں فلسطینیوں کی پہلی واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی واپسی جو اہل فلسطین کی مقاومت اور ان کی افسانوی طرز کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • واپسی کی لہر
  • زندگی ’صفر‘ سے شروع کرنے پر مجبور فلسطینیوں کی شمالی غزہ کی جانب واپسی جاری
  • غزہ سٹی میں تین لاکھ سے سے زائد بے گھر افراد کی واپسی
  • فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کا عمل شروع، شمالی غزہ میں 3 لاکھ فلسطینی واپس لوٹ آئے
  • مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف
  • شمالی غزہ جانے والی گاڑیوں کی نتساریم کوریڈور پر ایکس رے کے ذریعے تلاشی جاری
  • شمالی غزہ میں شہریوں کی واپسی: بے دخل کیے گئے فلسطینی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے علاقوں کو لوٹ آئے
  • اسرائیلی فوج نتزارم کوریڈور سے پیچھے ہٹ گئی، لاکھوں فلسطینی 15 ماہ بعد گھروں کو روانہ
  • غزہ سفرِ عزمِ نو؛ ہزاروں فلسطینیوں کی کھنڈر بن چکے اپنے گھروں میں واپسی شروع