شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینی واپسی کے بعد بھی بے گھر
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2025ء) خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ہفتے اپنے گھروں کو لوٹنے والے بے گھر فلسطینیوں نے غزہ سٹی کو 15 ماہ کی جنگ کے بعد کھنڈر کی حالت میں پایا، جہاں بہت سے لوگ ملبے میں پناہ کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں اور کئی اپنے کھو جانے والے رشتہ داروں کو تلاش کر رہے ہیں۔
غزہ پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی، جو کبھی ایک ہنگامہ خیز اور پررونق شہری مرکز تھا، اب ایک تباہ شدہ ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
یوں تو غزہ پٹی کے زیادہ تر حصے میں اسرائیلی بمباری سے بڑی تعداد میں عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور ہر طرف ملبہ اور بکھرا ہوا کنکریٹ پڑا ہے، مگر شمالی غزہ میں تباہی کی شدت غیرمعمولی ہے۔ غزہ سٹی ملبے کا ایک ڈھیرغزہ سٹی کے ایک رہائشی ابو محمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''یہ منظر دیکھیں۔
(جاری ہے)
میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔
لوگ یہاں زمین پر سوئیں گے۔ یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘‘واپس جانے والوں میں سے بہت سے افراد، جو اپنے ساتھ اپنا بچا کھچا سامان لے کر چل رہے تھے، انہوں نے ساحلی شاہراہ پر 20 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔
غزہ پٹی کے وسطی علاقے سے غزہ سٹی پہنچنے والے جمیل عابد کے مطابق، ''میں اپنے والد، والدہ اور بھائی کا انتظار کر رہا ہوں۔
ہم انہیں راستے میں کھو بیٹھے۔‘‘ان کا کہنا تھا،''یہاں کوئی کار، کوئی رکشہ، کوئی گدھا گاڑی، کوئی سواری نہیں ہے، جو اس راستے پر چل سکے۔‘‘
حماس کے حکام کے مطابق پیر کی شام تک تین لاکھ افراد غزہ سٹی اور غزہ پٹی کے دیگر شمالی علاقوں تک پہنچ چکے تھے جبکہ غزہ سٹی پہنچنے والے اس وقت رہنے کے لیے جگہ تلاش کر رہے ہیں، کیوں اب وہاں مکانات اور بنیادی شہری ڈھانچہ موجود نہیں۔
جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکراتمذاکرات کار جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر ابتدائی کام شروع کر رہے ہیں۔ اس بات چیت کا آغاز آئندہ ہفتے سے متوقع ہے۔
قطری، امریکی اور مصری ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیانچھ ہفتے کا عارضی فائر بندی معاہدہ طے پایا تھا۔ تاہم کوشش کی جا رہی ہے کہ فائربندی کے عرصے کو وسعت دی جائے۔
فلسطینیوں کی جبری بے گھری قبول نہیں، فرانسفرانس نے منگل کے روز کہا کہ غزہ پٹی کے باشندوں کی جبری نقل مکانی ''ناقابل قبول‘‘ ہوگی۔ یہ فرانسیسی ردعمل نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے باشندوں کو اردن اور مصر منتقل کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ''یہ نہ صرف بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہو گی، بلکہ دو ریاستی حل کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بھی ہوگی۔
‘‘اس بیان میں کہا گیا ہےکہ یہ اقدام ''ہمارے قریبی اتحادیوں، مصر اور اردن، کے لیے بھی عدم استحکام کا سبب‘‘ بن سکتا ہے۔
سات اکتوبر دو ہزار تیئیس کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے جب کہ حماس کے جنگجو قریب ڈھائی سو اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں وسیع تر فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں سینتالیس ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو گئے، جب کہ غزہ پٹی کی 2.
ع ت / ک م، م م (روئٹرز، اے ایف پی)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غزہ پٹی کے غزہ سٹی رہے ہیں حماس کے بے گھر کے بعد کے لیے کہ غزہ
پڑھیں:
ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان
ایران کے مغربی صوبے سیستان و بلوچستان کے ضلع مہرستان کے نواحی گاؤں ہیزآباد پایین میں پیش آنے والے ایک ہولناک واقعے میں آٹھ پاکستانی مزدوروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تمام مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے بتایا جا رہا ہے۔ واقعے نے دونوں ممالک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقتولین کی لاشوں کی واپسی میں آٹھ سے دس دن تک لگ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، حملہ آور ایک آٹو ورکشاپ میں داخل ہوئے اور مزدوروں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں مار دیں۔ مقتولین کی شناخت دلشاد، اس کے بیٹے نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے ناموں سے ہوئی ہے۔ یہ تمام افراد عرصہ دراز سے سیستان میں روزگار کی غرض سے مقیم تھے اور بطور مکینک کام کر رہے تھے۔
ایرانی سیکیورٹی فورسز نے لاشیں تحویل میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت سامنے نہیں آ سکی تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں ایک پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایرانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگ سکتے ہیں، کیونکہ جائے وقوعہ دور دراز علاقے میں واقع ہے اور قانونی و فارنزک تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانہ مسلسل ایرانی حکام سے رابطے میں ہے اور تمام توجہ لاشوں کی جلد واپسی پر مرکوز ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
وزیراعظم نے وزارت خارجہ کو مقتولین کے اہل خانہ سے فوری رابطہ کرنے اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو لاشوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس المناک واقعے پر ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور جیسے ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی، باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔
مقتولین کے لواحقین شدید غم میں مبتلا ہیں۔ احمدپورشرقیہ میں ایک شہید کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا واپس آرہا تھا، مگر ظالموں نے میرے غریب بیٹے کو مار ڈالا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘
Post Views: 1