ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کی منظوری دے دی ہے۔
ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ اکثریتی حمایت کے ساتھ سینیٹ سے منظور تو ہو چکا ہے، لیکن اپوزیشن اراکین کی جانب سے اس ایکٹ کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے ڈیجیٹل نیشنل پاکستان بل 2025 کی منظوری دیدی
واضح رہے کہ سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کیا گیا، حزب اختلاف کے اراکین کا مطالبہ تھا کہ انہیں ایکٹ پر بات کرنے کی اجازت دی جائے۔
ڈیجیٹل نیشن ایکٹ آخر ہے کیا؟ اور اس پر کیوں اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے فری لانس ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ’ڈیجیٹل نیشن ایکٹ‘ ایک اہم قانون ہے جس کا مقصد پاکستان کی معیشت اور حکومتی اداروں کو ڈیجیٹل طریقے سے مضبوط اور جدید بنانا ہے۔ یہ ایکٹ ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے، انٹرنیٹ کی سہولتوں کو بہتر بنانے اور ڈیجیٹل معیشت کو فعال کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس ایکٹ کے تحت پاکستان میں ڈیجیٹل خدمات، آن لائن کاروبار اور ای گورننس کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس کا مقصد ملک میں ٹیکنالوجی کی ترقی کو تیز کرنا، سوشل میڈیا کو منظم کرنا اور آن لائن سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔
’اس بل کی تفصیلات میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا، ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین وضع کرنا اور نئی ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔ اس کا اہم مقصد حکومت، کاروباری اداروں اور عوام کو ڈیجیٹل دنیا کے ساتھ جوڑنا ہے۔‘
ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ پر اعتراضات کیوں اٹھائے جارہے ہیں؟
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ ڈاکٹر ہارون بلوچ نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کے تحت حکومت نے ڈیجیٹل شناخت آئی ڈی متعارف کروائی ہے، جس میں عوام کا سارا ڈیٹا ایک ہی آئی ڈی کے اندر ہوگا۔ ’جس میں ہیلتھ، ایجوکیشن، نادرا اور ایک شخص کا ہر قسم کا ڈیٹا ایک ہی آئی ڈی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اگر وہ آئی ڈی کسی کے پاس ہوگی تو ہی وہ گورنمنٹ کی سہولیات حاصل کر سکےگا۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جن کے لیے شناختی کارڈ بنوانا ہی ایک بہت مشکل عمل ہے، ان کے لیے یہ آئی ڈی بنوانا کتنا مشکل ہوگا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک جگہ پر سارا ڈیٹا اکٹھا کردیا گیا ہے جس سے رائٹ ٹو پرائیویسی متاثر ہوگی۔ کیونکہ ادارے جو ڈیٹا ایک جگہ پر اکٹھا کریں گے اس ڈیٹا کو کیسے محفوظ بنایا جائے گا۔ ڈیٹا پرائیویسی کو کسے یقینی بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں سرکاری ادارے ڈیجیٹلائزیشن کی جانب کیوں نہیں بڑھنا چاہتے؟
انہوں نے کہاکہ اس سے بھی پہلے بات یہ ہے کہ ڈیٹا کی سینٹرلائیزیشن ہیومن رائٹس اصولوں کے منافی ہے، اس سے لوگوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔
’اگر کل کو حکومت کے پاس سے لوگوں کا ڈیٹا چوری ہوتا ہے یا غلط استعمال ہوتا ہے تو وہ کہاں جا کر انصاف طلب کریں گے، اور اس حوالے سے پاکستان میں کوئی قانون بھی نہیں ہے۔‘
’ڈیجیٹل شناخت سے ہر فرد کی ہر سرگرمی کی نگرانی کی جا سکتی ہے‘
دوسری جانب وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس ایکٹ کے ذریعے پاکستان کی تقدیر بدلے گی اور اس سے عوام کی زندگی آسان، معیشت مضبوط، اور گورننس میں شفافیت اور کارکردگی میں نمایاں بہتری آئےگی۔
انہوں نے کہاکہ اس بل کے تحت Pakistan Stack تشکیل دیا جائے گا، جس کے ذریعے Data Exchange Layers قائم ہوں گی۔ ان کے ذریعے شہریوں کے روزمرہ کے تمام کام اور دستاویزات بآسانی دستیاب ہوں گی، جبکہ حکومت کے لیے گڈ گورننس اور ڈیجیٹلائزیشن ممکن ہوگی اور کاروبار کے لیے Ease of Doing Business بہتر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں اگر رشوت کو ختم کرنا اور نظام میں شفافیت لانی ہے تو اداروں کو ڈیجیٹل ہونا ہوگا، شزہ فاطمہ
مزید برآں اس بل کے تحت AgriTech، FinTech، EdTech، اور HealthTech کے لیے ضروری ڈیٹا فراہم کیا جائےگا، جو پاکستان کی معیشت کو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور جدید خطوط پر استوار کرے گا۔ یہ اقدامات پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل قوم کے طور پر دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ڈی اپوزیشن حکومت ڈیجیٹل نیشنل پاکستان ایکٹ ڈیجیٹلائزیشن سینیٹ شزا فاطمہ خواجہ قومی اسمبلی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ڈی اپوزیشن حکومت ڈیجیٹل نیشنل پاکستان ایکٹ ڈیجیٹلائزیشن سینیٹ شزا فاطمہ خواجہ قومی اسمبلی وی نیوز انہوں نے کے ساتھ آئی ڈی کے تحت کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ:آرمی ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل جاری ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ 20 منٹ میں دلائل مکمل کرلیں،اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 20 منٹ میں تو نہیں مگر آج دلائل مکمل کرلوں گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر خواجہ حارث آج دلائل مکمل کرتے ہیں تو اٹارنی جنرل کل دلائل دیں گے۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، رینجرز اور ایف سی اہلکار نوکری سے نکالے جانے کے خلاف سروس ٹربیونل سے رجوع کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا پولیس اور رینجرز کی اپنی الگ عدالت ہوتی ہے، کیا پولیس میں آئی جی اپیل سنتا ہے یا یا ایس پی کیس چلاتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بھارت میں بھی آزادانہ فورم دستیاب ہے، ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے، فوج نے براہ راست کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔
مزید پڑھیں: سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر فیصلہ دینے کا عندیہ
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ذریعے سویلین کی حوالگی فوج کو دی گئی، حراست میں دینا درست تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کیس کے مستقبل کے لیے بہت گہرے اثرات ہوں گے۔ ایف بی علی کیس پر آج بھی اتنی دہائیوں بعد بحث ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس امین الدین سپریم کورٹ۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل