پناہ گزینوں کی واپسی پر غزہ میں انکے لئے کچھ بھی موجود نہیں، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
رہائش کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کے پاس واپسی پر کوئی گھر موجود نہیں اسلام ٹائمز۔ رہائش کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بالاکرشنن راجاگوپال نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی صورتحال اب بھی بہت خراب ہے اور پناہ گزینوں کے لئے واپسی پر کچھ بھی موجود نہیں۔ عرب چینل الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بالاکرشنن راجاگوپال کا کہنا تھا کہ امدادی سامان کے حامل ٹرک غزہ میں داخل تو ہو رہے ہیں تاہم ان کی تعداد کافی نہیں نیز غزہ کی پٹی میں عارضی پناہ گاہوں کی بھی شدید کمی ہے۔ رہائش کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی کے شمال میں واپس جانے والے بے گھر فلسطینیوں کو بنیادی امدادی سامان، خاص طور پر پناہ گاہوں کی اشد ضرورت ہے لہذا جنگ بندی معاہدے کے ضامن ممالک کو غزہ کی پٹی میں 6 ہزار عارضی گھروں کی ترسیل کو یقینی بنانا ہو گا، جیسا کہ معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اپنی گفتگو کے آخر میں راجاگوپال کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کے پاس واپسی پر کوئی گھر موجود نہیں!
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ موجود نہیں غزہ کی پٹی واپسی پر کہ غزہ
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟