گنڈاپور کو صدارت سے ہٹانے پر پی ٹی آئی ورکرز یوم نجات منا رہے ہیں، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
پشاور:
گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی علی امین گنڈا پور کو صدارت سے ہٹانے پر اصلی پی ٹی آئی کے ورکر یوم نجات منا رہے ہیں، عنقریب پی ٹی آئی ورکرز کو اچھی خوشخبری ملے گی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پی ٹی آئی کو پتا چل چکا ہے کہ ان کی پارٹی میں میر صادق اور میر جعفر کا کردار کون ادا کررہا ہے، علی امین گنڈا پور کو صدارت سے ہٹانے پر اصلی پی ٹی آئی کے ورکر یوم نجات منا رہے ہیں، عنقریب پی ٹی آئی ورکرز کو اچھی خوشخبری ملے گی۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ماضی میں ڈیرہ سے جو وزیراعلیٰ بنے ان کا نمبر گیم پورا نہیں تھی لیکن اس دفعہ نمبر گیم پورا ہے لیکن کرتوت ٹھیک نہیں ہیں، وزیراعلیٰ کو یہ بھی پتا نہیں ہے کہ چشمہ لفٹ کینال کے پیسے امریکا نے نہیں بلکہ سعودی بینک نے دیئے ہیں چشمہ لفٹ کینال کا اسی سال افتتاح کرنے جارہے ہیں۔
گورنر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات مل چکے ہیں، کے پی پولیس کے پاس اسلحہ، بلٹ پروف گاڑیاں تک نہیں ہیں، 528 ارب روپے سیکیورٹی کی مد میں آئے وہ کہاں خرچ ہوئے؟ 20 سال ہوگئے ہیں ٹی ایم ایز کا آڈٹ نہیں ہوا، ڈیرہ اسماعیل خان کی ٹی ایم اے کتنی منافع بخش تھی لیکن ملازمین کی 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ پی ٹی آئی نے جس طرح صوبے کا ستیاناس کیا وہ سب کے سامنے ہے، گورنر ہاؤس میں پبلک ڈے پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، صوبے کے امن و امان کیلئے ہم وہ کام کررہے ہیں جو صوبائی حکومت کو کرنے تھے، امن کانفرنس میں نے بلائی تھی یہ کس کا کام تھا؟ امن و امان قائم کرنے میں ہمارے صوبے کا وزیراعلیٰ ناکام ہوچکا ہے، پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وزیراعلی سے جلد از جلد استعفی لے تاکہ صوبے میں امن اور ترقی آسکے، وزیراعلی بھی جائے گا اور ڈیرہ اسماعیل خان ترقی بھی کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وفاق اور صوبے کے درمیان کمیونیکیشن گیپ بلوچستان میں بغاوت کی وجہ ہے، ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند
وی نیوز کی ٹوئٹر اسپیس ’بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ غیر جذباتی طور پر بلوچستان میں کئی ایسے گروپس ہیں جو بندوں کے ذریعے اپنی سیاسی ڈیمانڈز منوانے چاہتے ہیں۔ اور یہ گروپس پہلی بار نہیں بلکہ 70 کی دہائی سے ہی فعال ہیں۔
ہمسایہ ممالک پاکستان کیخلاف فنڈنگ کرتے ہیںجان اچکزئی کے مطابق جب بھی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو ہمسایہ ممالک انڈیا، ایران اور افغانستان کی جانب سے ان گروپس کی فنڈنگ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ایجنسیاں ان گروپس میں شامل ہو جاتی ہیں، تو ان گروپس کا مقصد بھی بدل جاتا ہے۔ اب بیانیہ ان کا ہمارے سامنے جو بھی ہے۔ لیکن مقصد ان کا وہی ہے۔ جو ان کے سپانسرز اور ہینڈلرز کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان گروپس کا اس وقت مقصد یہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم رکھا جائے۔ یہ گروپ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے۔ یہ دہشتگرد گروپ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ کو خطرناک دہشتگردی سے بچا لیا گیا، سی ٹی ڈی بلوچستان
جان اچکزئی کے مطابق نوجوانوں میں غربت، مرکزی حکومت سے علیحدگی یا نوجوانوں اور حکومت کے درمیان فاصلے پر مایوسی ہو سکتی ہے۔ جو کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی ہو سکتی ہے۔ جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیںانہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جو لیڈر شپ رہی ہے۔ وہ 2 بڑے گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک وہ لیڈر شپ رہی ہے جو بڑے سردار ہیں، جو بلوچستان کے مفاد کے لیے کھڑے رہے ہیں۔ دوسرے خود کو پرو فیڈریشن کہتے ہیں۔ جو بڑے الیکٹبلز ہیں اور ان کے پوتے اور پڑپوتے آج بھی اسی سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ ان کے اور عام عوام کے درمیان فاصلہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے تھا۔ یہاں گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں معیشت، گورننس اور بیوروکریسی کے مسائل موجود ہیں۔ وسائل کی تقسیم متوازی نہیں ہے۔ اور کرپشن بہت زیادہ ہے۔
محرومیوں کی وجہ سے لوگ غلط نظریہ رکھتے ہیںجان اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ عام آدمی یعنی مڈل کلاس افراد اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اسکول، اسپتال اور دیگر وسائل جن کو بہت عام سمجھا جاتا ہے، وہ بلوچستان میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی محرومیوں کی وجہ سے لوگ بہت سی چیزوں کو لے کر غلط نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل
ڈائیلاگ کی ضرورت ہےان گروپس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے۔ اور ہمیں ان گروپس کو الگ کرنا ہے۔ بلوچستان کو گورننس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ نئے صوبے بننے چاہیے۔ انوسٹمنٹ کے لیے ایسا ماڈل چاہیے۔ تاکہ باقی انویسٹر آسکیں۔
نوازشریف سے شکوہجان اچکزئی کے مطابق بلوچستان کے حالات سیاسی نہیں ہیں۔ ان سیاستدانوں کے پاس بلوچستان کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی ان کی کپیسیٹی ہے۔ مرکز میں موجود دونوں بڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جائے تو نواز شریف کبھی بھی کوئٹہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں رکے۔ وہ بلوچستان کو اربوں ڈالر کے لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ لیپ ٹاپ اسکیم پوائنٹ آف ویو سے دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مالک بلوچ صاحب بھی نئے سی ایم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں پہلے بھی نواز شریف نے بنایا تھا، اب پھر جا کر پاؤں پکڑے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کو ان کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا۔
آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیںجان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہی مسئلہ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس کا نوجوانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطیایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی بلوچستان کو سرداروں کے سپرد کرنا ہے۔ چاہے پھر وہ کوئی بھی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ یہ بلوچستان کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں، مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کیا۔
بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہےدوسری جانب ٹوئٹر اسپیس میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے اور لبریشن آرمی کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ ڈیڑھ دہائی سے رہنے والی حکومتیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے وفاق کو کنفیوژن میں رکھا ہے۔ انہوں نے وفاق کو صحیح نہیں بتایا کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہے۔ اور اس سب کی وجہ لبریشن آرمی اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: جمعیت علما اسلام نے ثالثی کی پیشکش کردی
بات چیت جاری ہےان کا کہنا تھا کہ اب بلوچستان میں جو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں، کیونکہ سرفراز بگٹی کی حکومت کی ان سے بات چیت جاری ہے۔ اور بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات پر راضی کریں۔ اور معاملہ حل کیا جائے۔
بلوچستان کی سب سے بڑی مجبوریانہوں نے کہا کہ اس صوبے کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ 1970 سے لے کر اب تک اس صوبے میں کوئی ایک پارٹی حکومت میں نہیں آ سکی۔ جب بھی صوبے میں حکومت بنتی ہے۔ وہ اتحادی حکومت ہوتی ہے۔ جو پھر اپنے مطابق اس طرح کام نہیں کر پاتی۔
گریڈ 4 کی نوکری بھی بکتی تھینوجوانوں پر بات کرتے ہوئے شاہد رند نے کہا کہ نوجوان اس لیے مایوس ہیں کہ انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ اور وہاں گریڈ 4 کی نوکری بھی پیسوں میں بکتی تھی۔ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ چیزیں ختم کی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں بلوچستان میں اس وقت حکومت کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فیصلے کرنے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آسانی ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف زرداری افغانستان انڈیا ایران بلوچستان جان اچکزئی دہشتگردی شاہد رند نوازشریف