پی ٹی آئی آنا چاہے تو حکومتی مذاکراتی کمیٹی 31 جنوری تک محدود رہے گی، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
ترجمان حکومتی مذاکراتی کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آج مذاکراتی عمل میں شرکت نہیں کی اور عملاً مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے۔
عرفان صدیقی نے منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات پر وسیع مشاورت کی گئی تھی اور سینیئر آئینی و قانونی ماہرین سے رائے لی گئی تھی، تاہم آج پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات میں شریک ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر کی جانب سے پی ٹی آئی کو پیغام بھیجا گیا تھا، لیکن وہ اجلاس میں نہیں آئے۔ اگر پی ٹی آئی اجلاس میں آتی تو ہم اپنا جواب پیش کرتے، لیکن انہوں نے یکطرفہ فیصلہ کر لیا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کمیٹی نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اور سول نافرمانی سمیت فوج پر حملے کی صورتحال کے باوجود حکومت نے تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جس عمل کا آغاز کیا تھا، وہ خود ہی ختم کر دیا ہے۔ حکومت کی کمیٹی نے مذاکرات کے لیے وسیع گنجائش چھوڑی تھی اور اگر پی ٹی آئی آج آجاتی تو ان کے لیے راستے کھل سکتے تھے۔
ترجمان حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے واضح کیا کہ یہ کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہے گی اور اگر پی ٹی آئی آنا چاہے تو حکومت کی کمیٹی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے خود فیصلہ کیا کہ وہ مذاکراتی عمل سے باہر رہے گی، اور اب حکومت کی طرف سے ان سے رابطہ نہیں کیا جائے گا۔
آخر میں، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ کمیٹی میں شامل ہو کر بات چیت کرے گی، وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ کمیٹی وزیراعظم نے بنائی ہے اور وزیراعظم ہی اس کمیٹی کو تحلیل کریں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہا کہ پی ٹی آئی عرفان صدیقی حکومت کی انہوں نے نہیں کی
پڑھیں:
وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
امارت شرعیہ کے امیر نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے کہا کہ اسمیں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے امیر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے وقف ترمیمی قانون کے حوالے سے مودی حکومت پر سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل جلد بازی میں اور غلط ارادوں سے لایا گیا ہے اور اس میں کل 44 بڑی خامیاں ہیں۔ مولانا ولی فیصل رحمانی نے الزام لگایا کہ یہ بل لینڈ مافیا کے مفاد میں تیار کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے حکومت کی جانب سے وقف املاک پر قبضہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل وقف کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے اور ہماری مذہبی اور سماجی شناخت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔
مولانا فیصل رحمانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس ترمیمی قانون کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایس سی ایس ٹی قانون کو واپس لے لیا گیا، زرعی قانون کو واپس لے لیا گیا، پھر حکومت اس قانون کو واپس کیوں نہیں لے رہی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت کرنے والی دیگر جماعتوں سے کہا کہ وہ اس قانون کے خلاف کھڑی ہوں اور مرکز پر زور ڈالیں کہ وہ اس قانون کو واپس لے، کیونکہ یہ قانون کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
مولانا فیصل رحمانی نے اس قانون کی مکمل کاپی دکھاتے ہوئے کہا کہ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوگا یا غریب مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت تمام اختیارات کلکٹر/سرکاری کو دے دیے گئے ہیں جو کہ بالکل درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف عوام کی عطیہ کی گئی جائیداد ہے اور اس پر ایسا قانون بنانا ہرگز مناسب نہیں ہے، یہ قانون کسی بھی حالت میں مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔