حکومت جسٹس منصور علی شاہ توہین عدالت کیس کے فیصلےکو چیلنج کریگی
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
حکومت نےجسٹس منصور علی شاہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سپریم کورٹ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت ہوئی،اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو فیصلہ چیلنج کرنے سے آگاہ کردیا ،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز توہین عدالت فیصلے کیخلاف اپیل دائر کریں گے۔جسٹس منصور علی شاہ کا13اور16جنوری کےآرڈرز پر نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ ہوا،جسٹس محمد علی مظہر نے ریماکس دیئے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کا کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے،کیا اس آرڈر کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ؛ 9 مئی مقدمات میں ملزمان کی ضمانت منسوخی کی اپیلوں پر سماعت
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے 9 مئی مقدمات کے سلسلے میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
9 مئی مقدمات میں نامزد ملزمان کی ضمانت منسوخی کے لیے اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی درخواست ضمانت پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے حافظ فرحت عباس اور امتیاز شیخ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حافظ فرحت عباس کو جمعرات تک گرفتار کرنے سے روک دیا اور ان کی عبوری ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرلی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ امتیاز شیخ پہلے ہی عبوری ضمانت پر ہیں، جس پر سپریم کورٹ نے امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت میں جمعرات تک توسیع کر دی۔
9 مئی واقعات میں نامزد ملزم محمد فہیم قیصر کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکمنامے سے کارکنان کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ کوئی چھلیاں بیچنے والا ہے تو کوئی جوتے پالش کرنے والا، جنھیں 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹرائل سرگودھا کے بجائے میانوالی میں چلانے کی استدعا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ طے کریں عدالت کہاں ہوگی۔ یہ ٹرائل کورٹ نے خود طے کرنا ہے۔
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی آر ختم کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر ختم کرانے کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انسانی طور پر 4 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونا ممکن نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں ٹرائل 3 ماہ مکمل کرنے کا ذکر ہے۔ ہم اپنے تحریری حکمنامے میں ٹرائل مکمل کرنےکے لیے ڈیڈ لائن والی تاریخ بھی لکھ لیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تو ہر ہفتے عمل درآمد رپورٹس لے رہی تھیں۔ ہم 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے آپ چیلنج کر لیجیے گا، ہم اپیل خارج کر رہے ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ضمانت منسوخی کے لیے مجھے گزارشات تو کرنے دیں۔ ضمانت کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ضمانت کا غلط استعمال کیا گیا تو آپ متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہم سے تعاون کرنے کی بات کی جا رہی ہے، اور کیا سر کاٹ کر دیدیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 9مئی کے تمام کیسز پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی مرتبہ آرڈر جاری کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔