Daily Ausaf:
2025-01-30@06:50:25 GMT

صرف آٹھ ماہ زندہ رہنے والا ’’القادر یونیورسٹی ٹرسٹ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

190 ملین پائونڈ کے عدالتی فیصلے میں ’’القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ‘‘ کو جعلی (SHAM) ٹرسٹ قرار دیاگیا ہے جو بحریہ ٹائون کے مالک، ملک ریاض حسین سے، 170 ملین ڈالر کے عوض زمین، نقد رقوم اور متعدد دیگر مفادات بٹورنے کی خاطر پُرفریب چھتری کے طورپر قائم کیاگیا۔
میں نے ’القادرٹرسٹ‘ کے حوالے سے تحقیق وجستجو کی تو ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ کی قبائے تقدیس تار تار ہوتی گئی اور اُس کے ’’صادق وامین‘‘ سربراہ کے سر پہ سجی دستارِ صداقت وامانت کے پیچ کھُلتے چلے گئے۔ عدالتیں اپنی جگہ، ہمارا نظامِ انصاف اپنی جگہ، سیاست اپنی جگہ، نفرتیں اور محبتیں اپنی جگہ، تعصّب میں لت پت تجزیے اپنی جگہ، جھوٹ کے انبار اور گالیوں کے طورمار اپنی جگہ، اٹل اور دوٹوک حقیقت یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ یا 190 ملین پائونڈ کیس ہماری 78 سالہ تاریخ میں کرپشن کی سب سے بڑی واردات ہے جس نے وزیراعظم ہائوس میں جنم لیا اور وزیراعظم کی قیادت میں بدعنوان رفقا کی معاونت سے پروان چڑھی۔ میں بدعنونی اور عہدے کے انتہائی متعفن استعمال کی اس پُر تحیّر داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اپنی بات القادر یونیورسٹی ٹرسٹ تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
2018ء میں جب برطانیہ کی’ نیشنل کرائم ایجنسی ‘نے بحریہ ٹائون کے کچھ مشکوک کھاتوں پر کام شروع کیا تو وزیراعظم عمران خان کے رفیق خاص اور اثاثہ جات بازیابی یونٹ کے سربراہ شہزاداکبر کی رال ٹپکی۔ اُنہیں ایک بڑے شکار کی بُو آئی۔ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لے کر لندن کے متعدد دورے کئے۔ ملک ریاض حسین سے ملاقاتیں کیں۔ مفاہمت کی یاداشت (MoU) مرتب ہوگئی۔ ’’صداقت وامانت‘‘ کا بابِ فضیلت کھل گیا۔
ملک صاحب کو 171 ملین پائونڈز دینے کی پختہ ضمانت کے بعد زرِرشوت (Kickback) کی وصولی کا عمل شروع ہوگیا۔ کابینہ سے لفافہ بند منظوری سے مہینوں قبل، اپریل 2019ء میں سوہاوہ (ضلع جہلم) میں 458 کنال 4 مرلہ، 58 مربع فٹ زمین، عمران خان کے رفیق خاص ذُولفی بخاری کے نام کر دی گئی۔ اس کی کاغذی قیمت 6 کروڑ 60 لاکھ، 50 ہزار بتائی گئی۔ اگلے ہی ماہ، 5 مئی کو عمران خان نے، اس زمین پر القادر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ صوفی ازم کی تبلیغ وترویج کے لئے اسے غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب کر دیاگیا۔ اُس وقت تک القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ زمین پر قبضہ مستحکم کرنے کے کم وبیش سات ماہ بعد دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا عجیب وغریب وقوعہ رونما ہوا جب وزیراعظم اور شہزاد اکبر کے اصرار پر کابینہ نے ایک لفافہ بند ایجنڈے کی منظوری دے دی۔ یوں کرپشن کی اُس مفاہمتی یاداشت کو قانونی جامہ پہنا دیاگیا جو مہینوں قبل طے پاچکی تھی اور جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا تھا۔
’’زرِ رشوت‘‘ کے ایک بڑے حصے کی وصولی اور ’’قانونی تقاضے‘‘ پورے کرنے کے بعد، 26 دسمبر2019ء کو، سب رجسٹرار آفس اسلام آباد، میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ‘ رجسٹر کرا دیا گیا۔ عمران خان، بُشری خان، ذُولفی بخاری اور بابر اعوان ٹرسٹی قرار دیے گئے۔ عمران خان نے ( جو ٹرسٹ کے چئیرمین بھی تھے) ٹرسٹ کو پچاس ہزار روپے کا عطیہ دیا جب کہ بحریہ ٹائون نے 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقد عطیہ ٹرسٹ کے کھاتے میں جمع کرا دیا۔ اس سوال کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا کہ جب زمین پنجاب میں تھی، یونیورسٹی پنجاب میں بن رہی تھی تو ٹرسٹ اسلام آباد میں کیوں رجسٹر کرایا گیا؟‘‘ تاہم جب زرِ رشوت پر ٹرسٹ کی سبز چھتری تن گئی اور کاروبار چل نکلا تو چار ماہ بعد، 25 اپریل 2020ء کو ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کرتے ہوئے ذُولفی بخاری اور بابر اعوان کوٹرسٹیز کی فہرست سے نکال دیاگیا۔ یوں القادر ٹرسٹ میاں بیوی کے حُجلۂِ عروسی کی زینت بن گیا۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے عمران خان نے اپنے اختیارات میں وسعت کے لئے خود کو ٹرسٹ کا Founder اور Settlor بھی قرار دے دیا۔
زرِ رشوت کی بَرکھا برستی رہی۔ جولائی 2020ء میں علی ریاض ملک نے بنی گالہ اسلام آباد میں واقع 240 کنال 6 مرلہ زمین، بشریٰ بی بی کی معتمدِ خاص، فرحت شہزادی (فرح گوگی) کے نام منتقل کر دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے ہوتے ہوئے، یہ انتہائی مہنگی زمین ٹرسٹ کو عطیہ کرنے کے بجائے فرحت شہزادی کو کیوں دے دی گئی؟26 اگست 2020؁ کو ایک اور واردات یہ ہوئی کہ یکایک، بظاہر کسی معقول وجہ کے بغیر 1882؁ کے ٹرسٹ ایکٹ کو اسلام آباد کی حد تک منسوخ کرتے ہوئے، ’’اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020ء ‘‘ جاری کردیاگیا۔ نئے قانون کی شق 113 میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ ٹرسٹ، چھ ماہ کے اندر اندر خود کو نئے قانون کے تحت رجسٹر کرالیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن معطل ہوجائے گی اور وہ غیرفعال ٹھہریں گے۔ اب جگر تھام کر، پُراسراریت میں لپٹی اس واردات پر نگاہ ڈالئے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو اس نئے قانون کے تحت رجسٹر نہیں کرایا گیا۔ معطل اور غیرفعال ہوجانے کے بعد ٹرسٹ عملی طورپر تحلیل ہوگیا لیکن گُلشن کا کاروبار بدستور چلتا رہا۔
ٹرسٹ، غیرفعال ہوجانے کے سات ماہ بعد، 24 مارچ 2021ء کو بنی گالہ وزیراعظم ہائوس میں بحریہ ٹائون اور بشریٰ بی بی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت القادر یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی تعمیر، فرنیچر، کمپیوٹرز سمیت ہر نوع کے سازوسامان کی فراہمی حتیٰ کہ اخراجات جاریہ کی ذمہ داری بھی بحریہ ٹائون کی ٹھہری۔ اس معاہدے کا اطلاق مارچ 2019ء سے کیا گیا تاکہ ماضی کی ’ترسیلاتِ زرِ رشوت‘ کو چھتری مل جائے۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے وقت القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ 2023ء کے اوائل میں نیب نے 190 ملین پائونڈ اور القادر ٹرسٹ کے معاملات کا جائزہ لینا شروع کیا تو بنی گالہ ہائوس میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوری طورپر ٹرسٹ کو ازسرِ نو رجسٹر کرانے کے لئے 3 مارچ 2023ء کو ’لیبر اینڈ ٹرسٹیز ڈائریکٹوریٹ‘ اور 6 اپریل کو ’اسلام آباد چیرٹی ایکٹ‘ کے تحت رجسٹریشن کی درخواستیں دائر کی گئیں لیکن نیب کی منفی رپورٹ کے باعث رجسٹریشن نہ ہوسکی۔ اب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے۔
کیا عجب کہانی ہے! اپنی رجسٹریشن (26 دسمبر2019) سے لے کر غیرفعال ہونے (26 اگست 2020) تک، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ، صرف آٹھ ماہ زندہ اور فعال رہا جب کہ زرِ رشوت کی وصولی کا عمل اپریل 2019ء سے شروع ہوا اور برسوں جاری رہا۔
یونیورسٹی کی تعمیر پر 28 کروڑ چالیس لاکھ روپے جبکہ فرنیچر اور دیگر سازوسامان پر 51 لاکھ 49 ہزار روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس کی خریداری پر ساڑھے چھ لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ سب کچھ بحریہ ٹائون کے خوانِ نعمت سے آیا۔ زمین، تعمیرات اورٹرسٹ کے کھاتے میں پڑی رقوم سمیت تمام اثاثے اس وقت عمران خان اور بُشری بی بی کے ذاتی تصرف میں ہیں، کیونکہ القادر یونیورسٹی نامی ٹرسٹ کو معطل، غیرفعال اور معدوم ہوئے ساڑھے چار سال ہوچلے ہیں۔ یہ داستانِ ندامت پڑھنے کے بعد پی۔ٹی۔آئی کے اس معصومانہ سوال پر بھی سَر دُھنیے کہ 171 ملین پائونڈ (تقریباً 50 ارب روپے) ملک ریاض کو تو مل گئے، لیکن عمران خان کو کیا ملا؟ اُسے تو ایک پیسے کا فائدہ بھی نہیں ہوا؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: القادر یونیورسٹی ٹرسٹ القادر ٹرسٹ بحریہ ٹائون ملین پائونڈ اسلام ا باد کہ القادر ٹرسٹ کو ٹرسٹ کے کے تحت کے بعد

پڑھیں:

ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر اعتراض عائد

ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر اعتراض عائد WhatsAppFacebookTwitter 0 29 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر اعتراض عائد ہو گا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کر کے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں واپس کر دیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست گزار سے اعتراض دور کر کے اپیلیں دوبارہ دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ اپیلوں کے ساتھ سرٹیفکیٹ منسلک نہیں، سرٹیفیکیٹ لگایا جائےکہ یہ کیس کسی دوسری عدالت میں زیر سماعت نہیں، کچھ صفحات پر دستخط نہ ہونے پر بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض اٹھایا۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں عمران خان کو 14 سال قید اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غلط کاموں میں معاونت پر 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے عمران خان پر 10 لاکھ روپے اور بشریٰ بی بی پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی روکنے والا نہیں
  • اسلام آباد: صدر مملکت آصف زرداری کو مالٹا کے نامزد ہائی کمشنر ریمنڈ بونڈن اپنی سفارتی اسناد پیش کر رہے ہیں
  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر اعتراض عائد
  • جامعہ اردوکے 231کامیاب طلبہ کوتمغے اوراسناد تفویض
  • ٹرمپ کے ایلچی نے عمران خان کی حمایت میں کی ہوئی اپنی تمام ٹویٹس ڈیلیٹ کردیں
  • عمران خان کی بہن علیمہ خان کا ہنسی سے لوٹ پوٹ کردینے والا انٹرویو
  • القادر ٹرسٹ کیس: سزاؤں کے خلاف عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلیں دائر
  • میں 60 سال کا ہونے والا ہوں مگر 30 سال کا لگتا ہوں، شاہ رخ خان
  • جعلی دستاویزات پر سفر کرنے والا مسافر اسلام آباد ائرپورٹ سے گرفتار