تو نہیں تیرا خون بول رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم فلسطین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ یہ فلسطین انبیا علیہم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا،حضرت دائود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان ؑ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے،چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا ’’اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جائو‘‘ یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں ’’وادی النمل چیونٹیوں کی وادی‘‘ رکھ دیا گیا تھا، حضرت ذکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جائو، انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیا علیہم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا، اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم ؑ کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اٹھا لیا تھا، ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہا پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الہٰی ہے، قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف آوری اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگی،اسی شہر کے ہی مقام باب لد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے،فلسطین ہی ارض محشر ہے۔(اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو سرزمین محشر بھی فرمایا ہے ، ارشاد باری عزوجل ہے۔ ہو الذِی خرج الذِین کفروا مِن ہلِ الکِتابِ مِن دِیارِہِم لِولِ الحشرِ (سورہ الحشر3-) وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔
یہاں اول حشر سے مراد یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے ، جس وقت نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کردیا تھا، زہری سے مروی ہے کہتے ہیں ، اول حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلا وطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی، ابن زید کہتے ہیں۔ اول حشر سے مراد سرزمین شام ہے ، ابن عباسؓ سے بکثرت روایات میں منقول ہے کہ فرماتے ہیں ، جس کو اس بات میں شک ہو کہ ارض محشر سے مراد سرزمین شام ہے وہ اس آیت کو پڑھے ، پھر اس آیت کا آپ ﷺ نے تذکرہ فرمایا۔اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا، اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ)کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺمعراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس(فلسطین)لائے گئے۔سرکار دو عالم ﷺکی اقتدا میں انبیا علیہم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی، اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیا کا مسکن بن گیا، سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)میں نے عرض کیا کہ پھر کون سی؟(مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس) میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے،وصال حبیبناﷺ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگرکئی مشاکل سے نمٹنے کے لئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین)کی طرف آپ ﷺکا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کے لئے خود سیدنا عمر ؓ کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے،دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ہجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے، بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا، قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے، اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کے لئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے، مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قرآن پاک کی یہ آیت (والتین والزیتون وطور سینین وہذا البلد المین) نازل ہوئی تو ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو ’’التین‘‘ انجیر سے، بلاد فلسطین کو ’’الزیتون‘‘ زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتے تھے سے استدلال کیا اور قرآن پاک کی یہ آیت مبارک(ولقد تبنا فی الزبور من بعد الذر ن الرض یرثہا عبادی الصالحون)سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے،اقصیٰ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علیہ السلام السلام کا السلام نے کہتے ہیں کے بعد شہر کے
پڑھیں:
جشن معراج مصطفی ؐنہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایاگیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر)جما عت اہلسنّت پاکستان کے تحت ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی 27 ویں شب رجب المرجب جشن معراج مصطفی ؐنہایت عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منایاگیا۔ شہر بھرکی مساجد میں شب معراج النبیؐ کے روح پرور اجتماعات میں علمائے کرام نے رحمۃللعالمینؐ کے عظیم معجزہ معراج شریف کے واقعات و فضائل بیان کیے۔ معراج النبی ؐ کے مرکزی اجتماع سے میمن مسجد مصلح الدین گارڈن جوڑیا بازار میں جما عت اہلسنّت کراچی کے امیر علامہ شاہ عبد الحق قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ معراج محسن انسانیتؐ کی عظمت و رفعت کا شاہکا ر ہے۔ سفرِ معراج کو حضو ر خاتم الانبیاء ؑکے تمام معجزوں پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔شب معراج حضور نبی کریم ؐنے اپنی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کیا اور رحمت عالم کو جتنے بھی معجزے عطا کیے گئے ان میں معجزہ معراج سب سے بڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رب العالمین نے اپنے حبیب کو قلیل وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ،سات آسمانوں اور جنت کی سیر کرائی،رسا لت مآب مسجد اقصیٰ میں انبیا ء و رسولﷺ کی امامت فرما کر امام الانبیا ہ کے مرتبے سے نوازے گئے۔ باری تعالیٰ نے شب معراج میں امت مسلمہ کو عظیم تحفہ نماز پنچگانہ عطا فرمایا۔انہوں نے معجزہ معراج بیان کر تے ہو ئے عوام الناس سے اسوہ حسنہ کو اپنانے پر زور دیا۔