منافع کی آگ میں جلتی دنیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانیت ترقی کے دعوں کے باوجود آج بھی اسلحے کے سائے میں جی رہی ہے۔ دنیا بھر میں اسلحے کی پیداوار ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے جس میں ہر سال اربوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا خونی کھیل ہے جس میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں اور صرف منافع کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری)کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 10 بڑے اسلحہ پیدا کرنے والے ممالک میں امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، اسرائیل، جنوبی کوریا اور سپین شامل ہیں۔ ان ممالک کا عالمی ہتھیاروں کی مارکیٹ پر تقریباً 90 فیصد کنٹرول ہے۔ 2023 ء میں دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی مجموعی فروخت 632 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی جس میں امریکہ کی کمپنیوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسلحے کی پیداوار کس قدر منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔
مالی سال 2024 میں امریکہ نے 318.
امریکی اسلحے کی فروخت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین اور اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کے بعد اپنے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کی کوشش ہے۔ یوکرین اور اسرائیل فلسطین جنگ نے عالمی سطح پر اسلحے کی طلب میں بے پناہ اضافہ کیا جس کا فائدہ امریکہ جیسے ممالک نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جنگیں طاقتور ممالک کیلئے منافع کا ذریعہ ہیں، جب کہ کمزور ممالک کیلئے تباہی کا باعث۔اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر برسائے گئے بارود کی ٹھیک ٹھیک مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ مختلف ذرائع مختلف اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق یہ مقدار ہزاروں ٹن میں ہے۔ غزہ میں حکومتی پریس آفس کے مطابق اسرائیلی فوج نے7اکتوبر 2023سے اب تک غزہ پر 70 ہزار ٹن سے زائد بارودی مواد برسایا ہے جو حالیہ حملوں کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق اسرائیل نے 2006ء سے 2021ء تک لبنان اور غزہ کی مختلف جنگوں میں بھی ہزاروں ٹن بارود استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر 2014 کی غزہ جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نے تقریبا ایک لاکھ ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ان اعداد و شمار میں صرف گرائے گئے بموں اور گولوں کا وزن شامل ہے جبکہ راکٹ حملوں اور دیگر اقسام کے دھماکہ خیز مواد کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں بھی اب تک دونوں جانب سے ہزاروں ٹن بارود برسایا جا چکا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی صرف بارود کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان سے ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔
اسلحے کی اس دوڑ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں جنگوں اور تنازعات کو ہوا ملتی ہے۔ جب ممالک کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہوتے ہیں تو ان کے استعمال کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یوکرین روس جنگ اور اسرائیل حماس جنگ جیسے حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلحے کی موجودگی کس طرح تباہی اور بربادی کا باعث ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے اسلحے کی مانگ میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسلحے کی پیداوار کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ یہ ممالک اپنی محدود آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے فنڈز کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں بھوک اور غربت سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن اسلحے پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ پیسہ انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اسلحے کی اس دوڑ کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اسلحے کی پیداوار اور فروخت پر سخت کنٹرول ہونا چاہیے اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسلحہ امن کا ضامن نہیں بلکہ یہ جنگ اور تباہی کا باعث بنتا ہے۔
ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں اسلحے کی بجائے تعلیم، صحت اور ترقی پر توجہ دی جائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر انسان امن اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ یہ ایک مشکل لیکن ناممکن ہدف نہیں ہے۔ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جو اسلحے کے سائے سے آزاد ہو۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلحے کی پیداوار ارب ڈالر زیادہ ہے ممالک کی کے مطابق یہ ایک
پڑھیں:
سندھ: اسلحے کی نمائش پر پولیس و رینجرز کو گرفتاری کا اختیار مل گیا
— فائل فوٹوسندھ حکومت نے اسلحے کی نمائش پر پولیس اور رینجرز کو گرفتاری کا اختیار دے دیا۔
کراچی میں پریس کانفرسن کرتے ہوئے سینئر صوبائی وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ گاڑی میں لائسنس والا اسلحہ اپنی حفاظت کے لیے رکھ سکتے ہیں مگر اسلحے کی نمائش نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اسلحے کی نمائش پر پولیس اور رینجرز کو گرفتاری کا اختیار دے دیا ہے۔
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ پیر سے اسلحے کی نمائش پر گرفتاری ہو گی ۔
شرجیل میمن نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی اللّٰہ ڈنو شر کے قاتلوں کو 2 روز میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لیگی رہنما کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ عرفان صدیقی صاحب کو آئین پڑھنا چاہیے، وہ لوگوں کے مینڈیٹ کا مذاق نہ اڑائیں، عرفان صدیقی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی نہروں کی مخالفت نہیں کی، ہمارا مؤقف واضح ہے کہ کینال بننے نہیں دیں گے۔
شرجیل میمن نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں لیکن عرفان صدیقی کو ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔