Daily Ausaf:
2025-01-30@06:39:21 GMT

منافع کی آگ میں جلتی دنیا

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانیت ترقی کے دعوں کے باوجود آج بھی اسلحے کے سائے میں جی رہی ہے۔ دنیا بھر میں اسلحے کی پیداوار ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے جس میں ہر سال اربوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا خونی کھیل ہے جس میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں اور صرف منافع کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری)کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 10 بڑے اسلحہ پیدا کرنے والے ممالک میں امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، اسرائیل، جنوبی کوریا اور سپین شامل ہیں۔ ان ممالک کا عالمی ہتھیاروں کی مارکیٹ پر تقریباً 90 فیصد کنٹرول ہے۔ 2023 ء میں دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی مجموعی فروخت 632 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی جس میں امریکہ کی کمپنیوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسلحے کی پیداوار کس قدر منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔
مالی سال 2024 میں امریکہ نے 318.

7 ارب ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اسلحے کی فروخت دو بنیادی ذرائع سے ہوئی۔ حکومتی سطح پر دیگر ممالک کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی جس کی مالیت 117.9 ارب ڈالر رہی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 45.7 فیصد زیادہ ہے۔ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے براہِ راست دیگر ممالک کو فروخت کی مالیت 200.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 23.5 فیصد زیادہ ہے۔
امریکی اسلحے کی فروخت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین اور اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کے بعد اپنے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کی کوشش ہے۔ یوکرین اور اسرائیل فلسطین جنگ نے عالمی سطح پر اسلحے کی طلب میں بے پناہ اضافہ کیا جس کا فائدہ امریکہ جیسے ممالک نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جنگیں طاقتور ممالک کیلئے منافع کا ذریعہ ہیں، جب کہ کمزور ممالک کیلئے تباہی کا باعث۔اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر برسائے گئے بارود کی ٹھیک ٹھیک مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ مختلف ذرائع مختلف اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق یہ مقدار ہزاروں ٹن میں ہے۔ غزہ میں حکومتی پریس آفس کے مطابق اسرائیلی فوج نے7اکتوبر 2023سے اب تک غزہ پر 70 ہزار ٹن سے زائد بارودی مواد برسایا ہے جو حالیہ حملوں کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق اسرائیل نے 2006ء سے 2021ء تک لبنان اور غزہ کی مختلف جنگوں میں بھی ہزاروں ٹن بارود استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر 2014 کی غزہ جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نے تقریبا ایک لاکھ ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ان اعداد و شمار میں صرف گرائے گئے بموں اور گولوں کا وزن شامل ہے جبکہ راکٹ حملوں اور دیگر اقسام کے دھماکہ خیز مواد کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں بھی اب تک دونوں جانب سے ہزاروں ٹن بارود برسایا جا چکا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی صرف بارود کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان سے ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔
اسلحے کی اس دوڑ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں جنگوں اور تنازعات کو ہوا ملتی ہے۔ جب ممالک کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہوتے ہیں تو ان کے استعمال کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یوکرین روس جنگ اور اسرائیل حماس جنگ جیسے حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلحے کی موجودگی کس طرح تباہی اور بربادی کا باعث ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے اسلحے کی مانگ میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسلحے کی پیداوار کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ یہ ممالک اپنی محدود آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے فنڈز کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں بھوک اور غربت سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن اسلحے پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ پیسہ انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اسلحے کی اس دوڑ کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اسلحے کی پیداوار اور فروخت پر سخت کنٹرول ہونا چاہیے اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسلحہ امن کا ضامن نہیں بلکہ یہ جنگ اور تباہی کا باعث بنتا ہے۔
ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں اسلحے کی بجائے تعلیم، صحت اور ترقی پر توجہ دی جائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر انسان امن اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ یہ ایک مشکل لیکن ناممکن ہدف نہیں ہے۔ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جو اسلحے کے سائے سے آزاد ہو۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلحے کی پیداوار ارب ڈالر زیادہ ہے ممالک کی کے مطابق یہ ایک

پڑھیں:

پاکستان کی "ڈرون دوڑ "میں بھارت کو زبردست شکست

ویب ڈیسک: کچھ عرصہ قبل مودی سرکار اور انڈین آرمڈ فورسز چیفس نے" 4 ارب ڈالر" کی خطیر رقم خرچنے پر 31 امریکی اسلحہ بردار ڈرون MQ-9B ریپرخریدنے کا فیصلہ کیا تو وہ بھارتی عسکری ماہرین کی شدید تنقید کی زد میں آ چکے.

 جن کا کہنا ہے، بھارت کو مقامی ساختہ ڈرون منصوبوں پہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے مگر وہ بیرون ممالک سے بدستور مہنگا اسلحہ خرید رہا ہے لہذا مودی سرکار کے "میک انڈیا گریٹ"نظریے کی تو مٹی پلید ہو گئی۔

مری کے جنگلات میں آگ لگ گئی 

 جواباً ملٹری چیفس نے یہ کہہ کر تنقیدی توپوں کا رخ اپنے ہی سائنس دانوں اور ماہرین کی جانب موڑ دیا کہ اربوں روپے خرچنے اور کئی برس گذرنے کے بعد بھی وہ ایسا مسلح ڈرون نہیں بنا سکے جسے بھارت کی برّی، فضائی اور بحری افواج اعتماد سے استعمال کریں۔

 بھارت نگرانی کے ڈرون توبنا چکا مگر اسلحے سے لیس ایک بھی ڈرون نہیں بنا پایا, بھارتی ماہرین پچھلے پندرہ سال سے TAPAS-BH-201 اور آٹھ سال سے CATS یعنی (Combat Air Teaming System)نامی اسلحہ بردار ڈرون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کامیاب نہ ہوئے۔

ڈِیپ سِیک؛  آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کی سستی چینی ٹیکنالوجی نے امریکی کمپنیوں کو دھڑن تختہ کر دیا

 بھارتی سائنس دان اور انجینئر بار بار تجربات کرتے مگر ہر تجربے سے نئی خامی نکل آتی ہے, یہ عسکری سائنس و ٹکنالوجی میں ان ماہرین کی ناکامی کا کْھلا ثبوت ہے۔

 مودی سرکار نے بھارتی ماہرین کو اربوں نہیں کھربوں روپے فراہم کر رکھے ہیں کہ عالمی قوت بننے کا خواب پورا ہو مگر وہ کم وسائل میں کام کرتے پاکستانی ماہرین  فن کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو چینی و امریکیوں کا سامنا خاک کریں گے؟

سعودی شہزادہ محمد بن فہد بن عبد العزیز آل سعود  انتقال کرگئے

 یاد رہے، پاکستان کے سرکاری اداروں کے ماہرین " تین اسلحہ بردار ڈرون " ایجاد کر چکے۔نیسکوم کا  "برّاق "ڈرون 2013ء میں بنا جو "برق"میزائیل سے لیس ہے۔

 جی آئی ڈی ایس کے ماہرین کی زیر قیادت "شہپر دوم"2021ء اور "شہپر سوم"حال ہی میں بنے, سٹیٹ آف دی آرٹ شہپر سوم مسلح ڈرون میزائیل کے علاوہ بم اور راکٹ بھی دشمن پہ چھوڑ کر کاری وار کرتا ہے,ماہرین کے نزدیک یہ امریکی MQ-1C گرے ایگل ڈرون سے بہتر ہے۔

خیبرپختونخواہ میں خاتون نے 5 بچوں کو جنم دے دیا

 پاکستانی ڈرون ہمارے کم وسیلہ ماہرین کی محنت شاقہ، ذہانت اور پیش بینی کا نمایاں ثبوت ہیں جنھوں نے قومی دفاع مضبوط بنایا, حال و مستقبل پہ مسلسل نظر رکھے قیادت کی بدولت پاکستان عسکری سائنس وٹکنالوجی میں ہمیشہ بھارت سے دو قدم آگے رہتا ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے عین جالوت سے لد تک
  • تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی
  • جشن بہار، “چینی سال” سے “گلوبل فیسٹیول” تک،سی ایم جی تبصرہ
  • اسرائیل اور امریکا غزہ پر مستقل قبضہ چاہتے ہیں،جاوید قصوری
  • پاکستان کی "ڈرون دوڑ "میں بھارت کو زبردست شکست
  • ٹرمپ اسرائیل کو غزہ کا مکمل قبضہ دلانے کی چال چل رہا ہے،تنظیم اسلامی
  • امریکا کو پھر دنیا کی طاقتور ترین معیشت بنانا چاہتے ہیں‘ ٹرمپ
  • حکومت کاسوئی گیس کمپنیوں کے منافع میں سے 82 ارب روپے منتقل کرنے کا فیصلہ
  • چینی وزیراعظم کی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے غیر ملکی ماہرین سے ملاقات